وہ پچیس برس سے دبئی میں مقیم ہے ۔میں نے اس کے سامان کاجائزہ لیا تو اس میں صرف ایک صندوق اور ایک بستر تھا۔ میں نے کہا تم نے پچیس برس ایک بستر اور ایک صندوق کے ساتھ گزار دیے ؟تم نے اور کچھ نہیں بنایا؟ اس نے کہا ، کیاکرنا ہے یہاں بناکر ۔ مجھے یہاں کون سا ہمیشہ رہنا ہے ۔ مجھے تو اپنے وطن واپس جانا ہے، میں جوکچھ بناتا ہوں وہیں بناتا ہوں۔
وہ ابوظبی کے ایک اچھے سکول میں فزکس کا ٹیچر ہے اور پچھلے دس برس سے وہاں مقیم ہے ۔ وہ صبح سات بجے سے تین بجے تک سکول میں پڑھاتا ہے اور پھر چار سے رات بارہ بجے تک پورے شہرمیں گھوم پھرکر ٹیوشن پڑھاتا ہے ۔ اس کی زندگی ایک مشین کی طرح گھو متی ہے اور اس مشینی چکر میں اس کی صحت بھی کافی خراب ہو چکی ہے ۔میں نے ازراہ ہمدردی، جب اس سے کہا کہ وہ کچھ آرام بھی کر لیا کرے ،تو اس کا جواب تھا کہ کیا وہ اپنے بیوی بچے چھوڑ کر یہاں آرام کرنے آیا ہے ؟اس نے کہا کہ آرام وہ اپنے وطن جا کر کرے گا ۔ یہاں وہ صرف کمانے آیا ہے، صر ف کمانے ۔
شارجہ کی ایک سڑک پر دو دوست سیر کے لیے جا رہے تھے جن میں سے ایک،وہاں پرانا مقیم تھا اور دوسرانو وارد۔ پرانے ساتھی نے نئے ساتھی سے پوچھا کہ تم نے اپنا شناختی کارڈ جیب میں رکھ لیا ہے ؟نئے ساتھی نے کہا نہیں تو۔ پرانے ساتھی نے کہا اگر کہیں راستے میں تمہیں پولیس نے چیک کر لیا اور شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے تمہیں پکڑ لیا ،تو میں تمہاری کوئی ضمانت نہیں دوں گابلکہ صاف کہہ دوں گا کہ میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں ۔پھر اس نے کہا بھائی یہ پردیس ہے پردیس ، یہاں کوئی کسی کا نہیں ، یہاں کوئی کسی کے کام نہیں آتا ، سب کو اپنی اپنی پڑی ہو ئی ہے ۔تمہیں اپنی حفاظت اور اپنی فکر خود کرنی ہے ۔
وہ دبئی کے ایک اچھے محکمے میں ملازم ہے اور پچھلے پانچ برس سے وہاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ مگر وہ اپنے موجود ہ کام اور مقام سے مطمئن نہیں ۔ میں جب بھی اس سے ملتا ہوں تو اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی سی وی یا درخواست ہوتی ہے اوراس کی زبان پر کسی نہ کسی انٹرویو کا ذکر ہوتا ہے ۔ میں نے جب اس سے پوچھاکہ تمہاری موجود ہ ملازمت بھی اچھی خاصی ہے آخر تم نئی ملازمت کے حصول کے لیے اتنی تگ ودو کیوں کر تے رہتے ہو؟ اس نے کہاجناب ابھی موقع ہے، موقع ، ابھی میں جوان ہوں ، مجھ میں ہمت ہے بھاگ دوڑ کرنے کی، اور یہاں مواقع بھی کافی ہیں ۔ مجھے اپنا مستقبل بنا نا ہے ،مستقبل، آگے سے آگے جانا ہے ۔ اس نے بتا یا ،بس ایک دفعہ اگر وہ کسی آئل کمپنی میں سیٹ ہو جائے تو پھر عیش ہی عیش ہے ۔ پھر وہ مزید کوشش نہیں کرے گا لیکن جب تک وہ وہاں سیٹ نہیں ہوجاتا ،کوشش کرتا رہے گا۔
وہ شیخ زید مرحوم کے آبائی شہر العین میں سات برس سے پڑھا رہا ہے ۔ ٹیچرز کی رہائش کے لیے سکول نے ایک ہاسٹل بنا رکھاہے وہ بھی وہیں مقیم ہے ۔ سکول نے میس کی سہولت مہیا کر رکھی ہے اور اس سہولت سے وہ بھر پور فائد ہ اٹھا تا ہے ۔ ٹیچرز نے اپنے اپنے کمروں میں ہیٹر رکھے ہوئے ہیں جہاں وہ ناشتہ ، چائے وغیر ہ تیار کر تے ہیں۔ مگر اس کے کمرے میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں۔وہ دوپہر اور رات کا کھانا میس میں کھاتا ہے اور کھانے کاحق ادا کر دیتا ہے ۔شام کی چائے کو دل چاہے تو کسی ٹیچر کے کمرے میں مہمان بن جاتا ہے ۔ رات کو میس میں جو روٹی بچ جاتی ہے وہ اٹھا کر اپنے کمرے میں لے جاتا ہے اور پھر وہی روٹی کاغذ میں لپیٹ کر سکول بھی ساتھ لے جاتا ہے ۔ سکول ٹیچرز کو چائے فراہم کرتا ہے، یہ سکول جاتے ہیں چائے کا انتظار شروع کر دیتا ہے ۔ اورجوں ہی چائے آتی ہے تو رات والی روٹی کے ساتھ ناشتہ کرتا ہے اور پھر جب تک چائے کی کیتلی موجود رہتی ہے، یہ چائے پیتا رہتا ہے۔اس طرح اس کا کھانے پینے کا خرچ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کوئی اگر اسے چائے پلانے کا کہہ دے تو یہ اس طرح کا منہ بنا لیتا ہے کہ کہنے والا شرمندہ ہو کر خود ہی بیچارے کو چائے پلا دیتا ہے ۔کپڑوں کے بھی اس نے دو جوڑے رکھے ہوئے ہیں اور انہیں سے گزارا کرتا ہے ۔میں نے ایک دن دھیرے سے اس سے پوچھا کہ بھائی تم اتنی بچت کیوں کرتے ہو۔ اس نے کہا ‘‘بھائی، بچت یہیں ہو سکتی ہے جب میں وطن واپس چلا گیاتو پھر بچت کہاں۔ اور یہاں جتنی بچت کر لوں گا اتنی ہی وطن میں کا م آئے گی ۔ یہاں بچت نہ کی تو پھر کہاں کروں گا؟’’اس نے کہا‘‘ یہ موقع مجھے بڑی مشکل سے ملا ہے یہ اگر میں نے ضائع کر دیا تو پھر یہ دوبارہ ہاتھ نہ آئے گا۔’’اس نے کہا‘‘ میں نے بہت لوگو ں کو دیکھا جنہوں نے یہاں بچت او رکمانے کے مواقع ضائع کر دیے تو پھر وہ وطن واپس جاکر روتے رہے مگر اس رونے سے کیا حاصل؟’’
وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا ملازم ہے ۔ اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی کمپنی میں بہتر سے بہتر موقعے کی تلاش میں رہتا ہے ۔جوں ہی کوئی موقع اس کے علم میں آتا ہے وہ فوراًاپنی خدمات پیش کر دیتا ہے ۔ ایک بار اس کے دوست کو کمپنی نے ایک بہتر عہدے کی آفر کی جہاں کام کی نوعیت ذرا مشکل تھی ۔ دوست نے اس سے مشورہ کیا تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور کہانہ بابا نہ ، اس کا م کا تو بھول کر بھی نہ سوچنا ۔ یہ تو بہت مشکل ہے ۔ کیوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔دوست بیچارا اس کی باتوں میں آگیا اور کمپنی کی یہ پیشکش قبول کر نے سے انکا رکر دیا۔ جوں ہی اس نے انکا رکیا وہ بڑھ کر وہاں پہنچا اور اپنی خدمات پیش کر دیں۔ کمپنی نے وہی موقع اسے فراہم کر دیا اور اس طرح وہ ا پنے دوست کی گردن پر پاؤں رکھتے ہوئے اب اس سے کہیں آگے جا چکا ہے۔اور مشورہ کرنے والا دوست لوگوں سے اکثر یہ کہتارہتا ہے کہ کسی پر اعتبار نہ کرنا اور یہ کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔
وہ بہت ذہین نوجوان تھا۔ اسے ایک خلیجی ریاست کی ایک اچھی فرم میں موقع ملا تو وہ وہاں آگیا۔کہتے ہیں،ہونہا ر بروا کے چکنے چکنے پات، جاتے ہی لوگو ں کو محسوس ہو گیا کہ یہ نوجوان بہت ذہین ہے ، اگر محنت کر ے تو بہت آگے بڑھ سکتا ہے ۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس نوجوان کا ہاتھ بھی بہت کھلا تھا اور دوستوں پر خرچ کر کے اسے خوشی ہوتی تھی۔ اس ادارے کے کچھ جہاں دیدہ لوگ اس کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ اس نے انہیں خوب کھلایا ۔ہوٹلوں میں دعوتیں اڑائی جاتیں اور سیر کے بڑے بڑے پروگرام بنائے جاتے اور سب کے اخراجات یہ بیچارا‘ ذہین’ برداشت کرتا۔ اس کے باس کو اس کے انداز نہ بھائے بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس کی اہلیت،صلاحیت اور ذہانت سے اسے خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں یہ میری جگہ نہ لے لے ۔ چنانچہ اس نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور بالآخر کامیاب ہو گیا ۔ فرم کے مالک نے اس نوجوان کو فارغ کر دیا۔شہد چوسنے والی مکھیوں اوردودھ پینے والے مجنوؤں کو جوں ہی یہ احساس ہوا کہ مالک کی نظریں اب اس نوجوان سے پھرنی شروع ہو گئی ہیں تو وہ بھی دور ہٹنا شروع ہوگئے اور پھر انہوں نے ایسا ظاہر کر ناشروع کیا کہ جیسے وہ اسے جانتے ہی نہ ہوں۔اور جب وہ رخصت ہواتو کھانے پینے والے یاروں میں سے کوئی ایک بھی اس سے سلام لینے کے لیے تیار نہ تھا۔حتیٰ کہ جب اس نے ٹیلیفون پر ایک ‘دوست ’ کو ادارے سے باہر بلا کر ملنا چاہا تو اس نے اسے پہچاننے سے صاف انکار کر دیا اور یہ کہہ کر ٹیلیفون رکھ دیا کہ میں نے تمہیں مل کر اپنی ملازمت خطرے میں ڈالنی ہے ۔
پاکستا ن میں اس کے پاس کوئی مناسب جاب نہ تھی اس لیے وہ اس تلاش میں تھا کہ کہیں مناسب بات بن جائے ۔ اسی اثنا میں ایک خلیجی ریاست میں اتفاق سے اسے جاب مل گئی ۔ اور وہ وہاں چلا آیا۔ لیکن آتے ہی اسے محسوس ہوا کہ اس نے غلط فیصلہ کر لیا ہے ۔ یہاں اسے سب کچھ میسر تھا لیکن تنہائی کا بوجھ اس سے برداشت نہ ہو رہا تھا۔وہ صبح شام اپنی بیوی کو فون کرتا اور اسے کہتا رہتا کہ تیرے بغیر کسی چیز کی کمی تو نہیں، لیکن، تیر ے بغیر طبیعت اداس رہتی ہے ۔دو سال کا معاہدہ تھا مگر دو سال میں بھی وہ اس اداسی کا حل نہ ڈھونڈ سکا۔ دو سالوں کے سب مہینے اور ان سب مہینوں کے سب دن اور ان سب دنوں کی کوئی رات بھی ایسی نہ تھی کہ جو گھر کی یاد سے خالی ہوتی ۔ جوں ہی گھر کو یادکرتے کرتے اس نے وقت پورا کیا اوربالآخر اپنے گھر کو سدھارا۔
پردیس میں کام کرنے والے ہر شخص کی شخصیت میں ان رویوں میں سے کوئی ایک، دو، چار یا سب رویے کسی نہ کسی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ یا تو وہ پردیس میں حقیقی مسافر کی طرح کم سے کم سامان کے ساتھ زندگی بسر کرتا رہتا ہے اورجو کچھ بناتا ہے اپنے دیس میں بناتا ہے اور یااس کے ذہن میں یہ سوار رہتا ہے کہ وہ یہاں صرف کمانے آیا ہے کمانے، اور اس کے لیے وہ بھر پورجدوجہد کرتارہتا ہے، یا اسے صرف اپنی پڑی ہوتی ہے اور وہ کسی کا بھی ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یاوہ نئے اور بہتر موقع کی تلاش میں رہتا ہے اور اس نے اپنا ایک ٹارگٹ سیٹ کر لیا ہوتا ہے کہ مجھے فلاں کمپنی میں کام کرنا ہے یا فلاں مرتبے تک پہنچنا ہے ور اس کے لیے وہ ہلکان ہور ہاہوتا ہے، یاوہ کم سے کم خرچ کر رہا ہوتا ہے اور زیاد ہ سے زیاد ہ بچار ہا ہوتا ہے تا کہ دیس میں کا م آئے کیونکہ اس کے ذہن پر یہ سوار ہوتا ہے کہ یہ موقع پھر نہ ملے گا،یاوہ اس دوڑ میں لگاہوتا ہے کہ آگے سے آگے بڑھ جائے اور اس کے لیے اگر اسے اپنے عزیزدوست کی گردن پر بھی پاؤں رکھنا پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتا،یا وہ مطلب کا یار ہوتا ہے اورجوں ہی مطلب پورا ہوتا ہے تو وہ لوگوں کوپہچاننے سے بھی انکار کر دیتا ہے ،یا اس کا ‘قبلہ’ اس کا ‘باس’ ہوتا ہے اور ‘باس’کے رخ کے ساتھ ساتھ اس کا ‘رخ’بھی بدلتا رہتا ہے اور یا پھراس کا جسم پردیس میں ہوتا ہے اور دل گھر میں اور وہ ہر دم وطن واپسی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
میں سوچتاہوں کہ معاشرتی اعتبارسے ان میں سے بعض رویے خواہ کتنے ہی مکروہ کیوں نہ ہوں لیکن آخرت کے اعتبار سے بہر حال یہ سب رویے بہت خوبصورت رویے ہیں۔ اگر ہم سب کے دل میں یہ با ت گھر کر جائے کہ ہمارا اصل گھر آخرت ہے اور ہمیں بہر حال اپنے اُس گھر کولوٹنا ہے اوراسی گھر کو بنانے کے لیے ہم یہاں آئے ہیں او راُس گھر کے لیے یہیں سے کما کر اوربچاکر لے جانا ہے تو یقین جانیے کہ دوڑ تو پھر بھی سب ایسے ہی لگائیں گے مگر آخرت کے لیے ،خوب کمائیں گے اور خوب بچائیں گے مگر آخرت کے لیے، سب ‘مطلب کے یار ’بن جائیں گے مگر آخرت کے لیے ،اور پھرسب دنیا میں حقیقی مسافر بن جائیں گے یعنی ان کا جسم تو دنیا میں رہے گااو ردل آخرت میں۔
میں سوچتا ہوں کہ پردیس میں رہنے والوں کے لیے آخرت کا سمجھنا کتنا آسان ہے مگر شرط وہی ہے کہ ‘ہے کوئی سمجھنے والا’؟