تصور سے بھی آگے تک در و دیوار کُھل جائیں
میری آنکھوں پہ بھی یارب تیرے اسرار کُھل جائیں
میں تیری رحمتوں کے ہاتھ خود کو بیچنے لگوں
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں
جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کر دے
مرے اندر کے غاروں پر ترے انوار کُھل جائیں
اتاروں معرفت کی ناؤ جب تیرے سمندر میں
تو مجھ پر بادبانوں کی طرح منجدھار کُھل جائیں
اندھیروں میں بھی تو اتنا نظر آنے لگے مجھ کو
کہ سناٹے بھی مانندِ لبِ اظہار کُھل جائیں
مرے مالک مرے حرفِ دعا کی لاج رکھ لینا
ملے توبہ کو رستہ ، بابِ استغفار کُھل جائیں
مظفر وارثی کی اس قدر تجھ تک رسائی ہو
کہ اس کے ذہن پر سب معنیء افکار کُھل جائیں