پاکستان کو وجود میں آئے تقریباً62 سال ہوگئے ہیں۔ اس 62 سالہ پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہے۔ رب رحمن کی تمام نعمتیں پاکستان میں موجود ہیں۔ یہاں ہر قسم کا موسم ، ہر قسم کا ماحول، دریا، پہاڑ، میدان ، وادیاں، سرسبز علاقے، ہلکا و بھاری پانی ، شفا دینے والی جڑی بوٹیاں، چرند پرند، سر سبز وادیاں ، وسیع صحرا ،الغرض وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہوتاہے ۔ مگر کرپشن کی بیماری نے جس کی ابتدا محکمہ آباد کاری اور بحالیات سے ہوئی تھی آکاس بیل کی طرح اس تناور درخت کو ملفوج کرکے رکھ دیا ہے۔ 62 سالوں میں پاکستانیوں نے کیا کھویا کیا پایا ؟ اس کا جواب کون دے گا؟ کس کے پاس ہے؟ سیانے کہتے ہیں کہ ان سالوں میں بہت ترقی ہوئی مگر بیانات کی حد تک۔
آئیے ایک نظر اصل صورت حال دیکھتے ہیں۔ اگر آپ سچے پاکستانی کی حیثیت سے ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کیلئے کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو مختلف محکموں سے واسطہ پڑے گا۔ جب آپ اپنے جائز کام کے لیے کسی دفتر میں کوئی درخواست لے کر جائیں گے تو وہاں کا عملہ آپ کو ایسے گھورے گا جیسے آپ اپنا کام نہیں کرانے آئے بلکہ اس کی آپ سے کوئی دشمنی ہے۔ آپ کی فائل دفتر کے چکر لگاتی رہے گی حتی کہ آپ یہ سوچنے پڑ مجبور ہو جائیں گے کہ آپ نے کیا گناہ کیا ہے کیا یہ کہ ملکی ترقی میں حصہ ڈالنے کا پروگرام بنا لیا ہے ؟آزاد ملک کا آزاد شہری ایک شہر سے دوسرے شہر میں بلا خوف و خطرسفر نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ اپنے شہر اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں۔درجنوں سال گزرنے کے بعد ابھی تک پورے ملک میں ایک قانون نافذ نہیں ہوسکا۔ جلد جلد حکومتوں کی تبدیلی نے ملک کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر حکمران نے اپنا تجربہ اس ملک پر کیا۔ کسی نے مذہبی آزادی دی تو کسی نے سیاسی اجارہ داری قائم کرادی تو کسی نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کیلئے لسانی تنظیمیں بنوادیں۔ایک شریف پاکستانی حیران ہوتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا اس لئے اتنی قربانیاں دی تھیں؟ اتنے عرصہ میں ملک نے کیا ترقی کی۔ ایک عام شہری کو کیا ملا۔ آج سے تیس سال قبل انڈیا جانے والے پاکستانی واپس آکر بتایا کرتے ہیں کہ وہاں بجلی دن بھر بند رہتی ہے۔ پاکستانی لوڈ شیڈنگ جیسے لفظ سے نا آشنا تھے مگر آج انڈیا میں سیکڑوں ڈیم بنا کر بجلی جیسی اہم بنیادی ضرورت کو پورا کرلیا گیا ہے۔ جبکہ ہم اس نعمت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔پاکستان آج بجلی کے شدید ترین بحران سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت بری طرح متاثرہو رہی ہے ۔آج تک ہم کتنے ڈیم بنانے میں کامیاب ہوئے؟ ڈیم جیسے فلاحی منصوبے بھی سیاست اور ذاتی مفادات کی نذر ہو کر رہ گئے ہیں۔ہر حکومت نے عوام کو سبز باغ دکھائے ۔ راقم نے خود کالا باغ ڈیم کی تعمیراتی جگہ دیکھی ہے۔ کالا باغ ڈیم ایسی جگہ تعمیر ہورہا تھا جہاں قدرت نے خود نے ڈیم بنا رکھا ہے ۔ ڈیم بن جاتانہ تو پانی کم ہوتا اورنہ ہی کسی صوبہ یا شہر کو نقصان پہنچتاجبکہ کالا باغ ڈیم بننے سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو بہت کچھ فائدہ پہنچتامگر اس عظیم عوامی منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا ۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے لے کر جنرل مشرف تک اس ڈیم کو صرف نعرے کی حد تک استعمال کیا گیا۔ کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ کئی ڈیم بنانے کی خوشخبری دی گئی مگر باتوں کی حد تک۔یہ ایک منصوبہ اگر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو آج ملک روشنی سے چمک رہا ہوتا اور ہزاروں فیکٹریاں اس کی برکت سے حرکت میں ہوتیں، ہزاروں لاکھوں افراد با روزگارہوتے۔
درجنوں سالوں میں ہم نے اپنے آپ کو آزاد شہری بننے کی بجائے اپنے آپ کو انگریزی غلامی سے نکال کر ، امریکی غلامی کے حوالے کردیا۔ اپنے ملک میں اپنا قانون نافذ کرنے کی بجائے ہم دوسروں کے اشارے پر چل رہے ہیں۔ ہر حکمران نے قانون سازی بھی اپنی مرضی سے کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے مارشل لاء کا سہارا لیا تو کوئی حکمران اسلام کے نام پر حکومت کرتا رہا۔ تو کسی نے عوامی نعرہ لگا کر عوام کو استعمال کیا۔تو کوئی ملک کو روشن کرنے کیلئے روشن خیالی کے لفظوں سے گمراہ کرتا رہا۔مگر آزادی کے باوجودعوام کو آج تک آزادی نہ دلا سکے۔ پہلے ہمارے دشمن چھپ کر وار کرتے تھے مگر آج کھلم کھلا ہماری جان و مال و عزت اور ملکی خود مختاری سے کھیل رہے ہیں۔آزاد ملک میں آزدی کے بجائے ہم اپنے گھروں میں ہی بے گھر ہیں۔ ۔کون کس کو مار رہا ہے؟ کیوں مار رہا ہے۔ میرے خیال کے مطابق نہ مارنے والے کو معلوم ہے کہ میں کیوں مار رہا ہوں اور نہ مرنے والے کو معلوم ہے کہ میں کیوں مررہا ہوں۔
اسی طرح بے روزگاری کا عفریت ہمیں جکڑے ہوئے ہے اور اس سے رہائی کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ہر طرف اندھیرا ہے ہر طرف مایوسی ہے؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ ملک کے مسائل اپنی جگہ آپ جس شہر میں رہائش پذیر ہوں وہاں کے مسائل ایسی صورت اختیار کرچکے ہیں کہ کروڑوں کے فنڈز آنے کے باوجود وہ شہر ترقی یافتہ تو دور کی بات ہے ترقی پذیر بھی نہیں کہلاسکتے۔ صاحبان اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ گئی ہے کہ 1/2 نصف فنڈ بھی وہ ترقیاتی کاموں پر صرف کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ آخر ان کا احتساب کون کرے گا؟ کب یہ ملک عوام کا ملک کہلائے گا؟کب یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا؟ معمولی انصاف کیلئے دن رات نعرے لگانے والی قوم اب بھی انصاف کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔تھانوں کی پیشانی پر لکھے خوبصورت الفاظ بھی عام شخص کو اندر جانے کی ہمت نہیں ہونے دیتے۔62 سال گزرنے کے باوجود حال یہ ہے کہ عام دکاندار ہو یا فیکٹری اونر ہر کاروباری شخص پریشان ہے۔ ملازمین آئے روز احتجاج کرتے نظر آتے ہیں کہ تنخواہ سے گزارہ نہیں ہوتا۔ ہم ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک سال گندم ،کپاس میں خود کفیل ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے اگلے سال نہ جانے حکومت وقت کیا چکر چلاتی ہے کہ ملک میں غذائی قلت کا شور مچا کر بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہے۔ چینی کبھی ملک میں وافر باہر بھیجی جارہی ہے کبھی باہر سے منگوائی جارہی ہے۔ مستقل برآمدی درآمدی پالیسی نہ جانے کب بنے گی؟پالیسی کوئی بھی ہو۔ پالیسی ساز کمیٹیاں ہر سال نت نئے تجربات کرتی رہتی ہیں۔ ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر جھونپڑیوں میں رہائش پذیر لوگوں کیلئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ ایر کنڈیشنر والے کیاجانیں غریب کا دکھ؟ادویات دنیا سے بلکہ قریب ترین ملک سے بھی مہنگی اور خالص کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ڈاکٹرز حضرات کی بھر مار اور اُن کے طریقہ علاج صرف اعلیٰ طبقہ تک محدود غریب ہر جگہ دھکے کھارہا ہے۔ وہ ہسپتالوں میں بھی بے یارو مددگار پڑے رہتے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ آخر کب غریب کی سنی جائے گی۔ کب عام آدمی کو انصاف ملے گا۔ ایک غریب کا بچہ تعلیم کی روشنی سے کب بہرہ ور ہوگا۔ ایک تڑپتی مریضہ کو کب مسیحا ملے گا۔عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر دوسری تیسری نسل میں منتقل ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کس وقت ہوگا۔کیا ناانصافیوں کا خاتمہ ہوجائے گا؟62 سال بعد بھی آپ بجلی گیس کا میٹر بھی اپنی مرضی سے نہیں لگواسکتے۔اس ملک میں آج بھی ہم آزادی سے نہیں گھوم سکتے۔عام آدمی تو کیا سربراہان ملک قتل ہوجاتے ہیں مگر قاتل کون ہے کوئی معلوم نہیں ؟ خدارا تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر مستقل حل تلاش کیجیے ۔ ورنہ ہمارے بزرگوں کی روحیں مزید تڑپیں گی اور وہ عالم ارواح میں چیخیں گیں کہ کیا ہم نے اتنی قربانیاں اس لئے دی تھیں ؟ چلو ہم نہ صحیح ہماری آئندہ نسلیں تو آرام ،چین و سکون کی زندگی گزاریں۔ خدارا سوچئے مزید سوچئے ورنہ آپ کو 62 سالوں کا حساب دینا پڑے گا۔