انسانی فطرت کے اندر کچھ طبعی عوارض پیدا کر دیے گئے ہیں اور انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی فطری کمزوریوں کو اپنے کردار و عمل پر غالب نہ آنے دے، بلکہ ان پر کنٹرول کرے۔ یہی انسان کا امتحان ہے اور یہی اس کی آزمائش ہے۔
انسانی کمزوریوں میں ایک کمزوری غصہ ہے۔ جب کوئی شخص اپنے مزاج کے خلاف کوئی چیز دیکھتا یا سنتا ہے تو اس کی طبیعت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اس اشتعال کے نتیجے میں وہ زبان اور ہاتھ کا ناجائز استعمال کر کے ایسے کام کر گزرتا ہے جو اس کے لیے سراسر نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔ بعد میں وہ انسان اکثر اپنے کیے پر پشیمان اور شرمندہ بھی ہوتا ہے مگر اب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ غصے کو کنٹرول نہ کرنا نہ صرف اخلاقی برائی ہے بلکہ یہ کئی طرح کے نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں غصے کا اظہار انتہائی قابل مذمت فعل ہے، جبکہ غصے پر کنٹرول کرنا تحسین و آفرین کے لائق ہے۔ قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کی صفات بیان کی گئی ہیں وہاں ان کی ایک نمایاں صفت یہ بھی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ در گزر کر جاتے ہیں: ‘وَ إِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُون’(الشوریٰ: ۳۷) ایسے لوگوں کا شمار یقینا محسنین میں ہوتا ہے اور محسنین اللہ کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ‘وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ’(آل عمران: ۱۳۴) ‘‘اور جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے نیک لوگوں کو پسند کرتا ہے’’۔
غصہ انسان کو بہت سی حسرتوں، مایوسیوں اور ناکامیوں سے دوچار کرتا ہے، جبکہ اس پر ضبط کرنا بہت سی خوبیوں اور شادمانیوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ غصے کی حالت میں انسان پر شیطان کا حملہ بڑا آسان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت انسان ایسا فعل کر گزرتا ہے جس پر اسے بعد میں خود اپنے رویے پر افسوس ہوتا ہے، مگر اس وقت تیر کمان سے نکل گیا ہوتا ہے اور سوائے پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
عام طور پر نوکروں اور ماتحتوں پر زیادہ غصہ آتا ہے، کیونکہ ان کی طرف سے کسی رد عمل کا خطرہ نہیں ہوتا۔ ایسے موقع پر اللہ کا خوف ہی انسان کو زیادتی کرنے سے روک سکتا ہے، ورنہ مشتعل ہو کر مالک اور افسر اپنے نوکر یا ماتحت سے بدزبانی بھی کر لیتا ہے اور بعض اوقات ناکردہ گناہ اس کے سر پر ڈال کر اسے سزا بھی دے ڈالتا ہے، مگر یہ بات ظلم کے زمرے میں آتی ہے اور زیادتی کرنے والا خود اللہ کے ہاں سزا کا مستوجب ہو جاتا ہے۔
میاں بیوی ہمہ وقت کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ایک جگہ رہتے ہوئے بعض معاملات میں اختلاف ہو جانا خارج از امکان نہیں ہے۔ اگر فریقین ٹھنڈی طبیعت کے مالک ہوں تو معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے ، بصورتِ دیگر بات طول پکڑ لیتی ہے، شوہر مشتعل ہو جاتا ہے، بیوی کے گزشتہ حسن سلوک کو فراموش کر کے مغلوب الغضب ہو جاتا ہے، گالی گلوچ کرتا ہے اور بعض اوقات نوبت مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے اور وہ پاگل ہو کر طلاق کا لفظ بول دیتا ہے اور ایسے موقع پر اکثر لوگ تو ‘‘طلاق، طلاق، طلاق’’ کہہ دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش ٹھکانے آتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور پریشان ہو کر علما سے مسئلہ پوچھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اب بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے تو غصے میں کہہ دیا تھا، میرا ارادہ طلاق دینے کا نہ تھا۔ تو جواب ملتا ہے کہ طلاق کی مثال بندوق کی گولی کی ہے۔ اگر بندوق کسی شخص سے غیر ارادی طور پر بھی چل جائے تو نشانہ بننے والا آدمی تو مر جاتا ہے۔ اب بندوق جس کے ہاتھ سے چل گئی وہ ہزار کہے کہ میرا ارادہ قتل کرنے کا نہیں تھا مگر مقتول تو زندہ نہیں ہو سکتا۔ گویا ایک پل کا غصہ پورے خاندان کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصے پر قابو پانے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ آدمی برے نتائج سے بچ سکے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور ! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا تغضب فردد مراراً قال: لا تغضب.
‘‘غصہ مت کیا کرو۔ اس شخص نے پھر وہی درخواست کئی بار دہرائی کہ حضرت ! مجھے اور نصیحت فرمائیے، مگر آپؐ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔’’
ہو سکتا ہے کہ نصیحت کی درخواست کرنے والا مشتعل مزاج ہو اور اس کے حق میں سب سے بڑی نصیحت غصے سے رکنا ہو، اسی لیے اس کے بار بار پوچھنے پر ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشتعال انگیزی سے باز رہنے کی تاکید کی۔ مگر آپؐ کی یہ نصیحت ہر شخص کے لیے ہے، کیونکہ غصے میں آنے کی فطری کمزوری ہر شخص کے اندر موجود ہے جس کے برے نتائج سے محفوظ رہنے کی ہر کسی کو ضرورت ہے۔
غصہ جہاں انسان کو دنیا کی زندگی میں طرح طرح کی مشکلات اور مصائب میں گرفتار کرتا ہے وہاں انسان کی متاعِ ایمان کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ الغَضَبَ لِیُفسِدُ الِایمَانَ کَمَا یُفسِدُ الصَّبِرُ العَسلَ.
‘‘غصہ ایمان کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے۔’’
شہد شیریں ترین شے ہے، مگر ایلوا اس قدر کڑور ہوتا ہے کہ وہ شہد کو بھی کڑوا کر دیتا ہے۔ اسی طرح اشتعال انگیزی اتنی بری ہے کہ وہ ایمان میں خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اچھا بھلا مسلمان غصے میں آ کر مخالف پر جھوٹے الزام لگاتا ہے اور بعض اوقات تو کلماتِ کفر بول دیتا ہے۔ پس غصے کی شر انگیزی اور ہلاکت کے پیش نظر اس سے بچ کر رہنا ضروری ہے۔
ایک دفعہ راقم الحروف کو ایک جیل کے دورہ کا موقع ملا۔ وہاں مختلف نوعیتوں کے سزا یافتہ مجرموں کو پابند سلاسل دیکھا۔ کچھ لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی کی اور دریافت کیا کہ وہ کس جرم کے نتیجے میں یہاں پہنچے۔ اس پر اکثر قیدیوں کا یہ جواب تھا کہ غصہ آ گیا تھا جس سے بات بڑھ گئی اور انجام کار جیل میں بند ہونا پڑا۔ قتل کے مجرموں اور سزائے موت پانے والوں میں سے بھی اکثر نے یہی کہا کہ مخالف کی کسی بات پر غصہ آ گیا ، میں نے پستول نکالا اورفائر کر دیا، میرا مخالف وہیں ڈھیر ہو گیا اور مجھے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا۔ زر کثیر بھی صرف ہوا اور سزا بھی ہو گئی۔
غصے پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں، خاص طور پر جب اس کا نشانہ کوئی کمزور شخص بن رہا ہو۔ مغلوب الغضب شخص کو چونکہ اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ مد مقابل کی طرف سے کسی طرح کا رد عمل ہو گا، اس لیے وہ بڑی بے باکی کے ساتھ غصے کا اظہار کرتا ہے۔ ایسی حالت میں غصے پر قابو پانا واقعی بڑی ہمت کا کام ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیسَ الشَّدِیدُ بِالصُّرَعَۃِ، اِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَملِکُ نَفسَہُ عِندَ الغَضَبِ.
‘‘پہلوان اورطاقتور وہ نہیں ہے جو مد مقابل کو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان اورشہ زور درحقیقت وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔’’
جو شخص غصہ آنے پر آپے سے باہر نہ ہو اور نفس پر ضبط کر لے وہ بڑا بہادر اور صاحبِ عزیمت بلکہ صاحب فضیلت شخص ہے۔ وہ خود بعد میں اپنے طرزِ عمل پر خوش ہو گا اور اپنے آپ کو شاباش دے گا کہ اگر غصے میں آ کر کوئی اقدام کر گزرتا تو بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا۔ پس غصے کو پی جانا بڑی فضیلت کا باعث ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا تَجَّرَعَ عَبدٌ جَرعَۃٌ اَفضَلَ عِندَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِن جَرعَۃِ غَیظٍ یَکظِمُہَا ابتِغَاءَ وَجہِ اللّٰہِ تَعَالیٰ.
‘‘کسی بندہ نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جو اللہ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو جسے کوئی بندہ اللہ کی رضا کی خاطر پی جائے۔’’اللہ تعالیٰ کو بندے کا ہر وہ عمل پسند ہے جو وہ اس کی رضا کے لیے کرے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کے خوف سے غصہ آنے پر ضبط سے کام لے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ بڑا انعام و اکرام پائے گا۔ حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن کَظَمَ غَیظًا وَہُوَ یَقدِرُ عَلیٰ اَن یُّنَفِّذَہُ دَعَاہُ اللّٰہُ عَلیٰ رُءُ وسِ الخَلَائِقِ یَومَ القِیَامَۃِ حَتٰی یُخَیِّرَہُ فِی اَیِّ الحُورِ شَاءَ.
‘‘جو شخص غصہ کو پی جائے درآنحالیکہ اس میں اتنی طاقت اور قوت ہو کہ وہ اپنے غصہ کے تقاضے کو پورا کر سکتا ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اس کو بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ حوران ِ جنت میں سے جس حور کو چاہے اپنے لیے منتخب کر لے۔’’اسی طرح ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:مَن کَفَّ غَضَبَہُ کَفَّ اللّٰہُ عَنہُ عَذَابَہُ یَومَ القِیَامَۃِ.
‘‘جو کوئی اپنے غصہ کو روکے اور پی جائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے عذاب روک لے گا۔’’گویا غصے پر ضبط کرنا نہ صرف دنیا کی زندگی میں بہت سے نقصانات اور برے نتائج سے بچاتا ہے بلکہ آخرت کی سزاؤں سے بھی محفوظ کرتا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒکے مواعظ میں ایک سبق آموز واقعہ ملتا ہے کہ ایک مفلس آدمی تھا، بڑی مشکل سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ مہینوں تک اس کے ہاں گوشت نہ پکتا تھا۔ ایک دفعہ دال اورسبزی وغیرہ کھاتے چھ ماہ گزر گئے تو ایک دن وہ پکانے کے لیے گوشت لے کر آیا اور اپنی بیوی کے حوالے کر کے خود مزدوری کرنے چلا گیا۔ جب وہ شام کو گھر آیا، خوب بھوک لگ رہی تھی۔ بیوی نے کھانا لا کر رکھا۔ کھانے لگا تو سالن میں نمک بہت زیادہ تھا۔ اب اس کا خون کھول گیا۔ غصہ عروج پر تھا کہ اگر چھ ماہ بعد گوشت ملا بھی تو بیوی نے نمک زیادہ ڈال کر خراب کر دیا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ بیوی پر برس پڑے، برا بھلا کہے، بلکہ مار دھاڑ کرے۔ اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ یہی کام اگر میری بیٹی کے ہاتھوں ہو جاتا تو کیا میں یہ پسند کرتا کہ اس کا شوہر اس کو مار پیٹ کرے؟ ہر گز نہیں! یہ خیال آنا تھا کہ وہ غصہ پی گیا اور بیوی کو کچھ نہ کہا۔ جب یہ شخص فوت ہو گیا تو وقت کے ایک بزرگ نے اسے خواب میں دیکھا۔ بزرگ نے پوچھا: بھئی تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کر کے میرے گناہ گنوانے شروع کیے، میں اعتراف کرتا رہا اور سمجھ گیا کہ اب تو دوزخ میں ڈالا جاؤں گا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تمہیں یاد ہے کہ تم نے میری بندی کا قصور معاف کر دیا تھا جبکہ اس نے سالن میں نمک زیادہ کر دیا تھا اور تم شدید غصے میں تھے! جاؤ آج میں تمہاری خطائیں معاف کرتا ہوں۔ چنانچہ میری بخشش ہو گئی۔
اس اخلاقی کمزوری پر قابو پانے کے سلسلہ میں بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مؤثر ہدایات ملتی ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا: ‘وَاِذَا غَضِبَ اَحَدُکُم فَلیَسکُت’ ‘‘جب تم میں کسی کو غصہ آئے تو چاہیے کہ وہ اس وقت خاموشی اختیار کر لے (یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی)۔’’
اس نصیحت کی اہمیت کے پیش نظر اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار دہرایا تاکہ آدمی اشتعال انگیزی اور جلد بازی سے رک کر نتائج بد سے محفوظ رہے۔
غصہ کی حالت میں انسان کا خون کھول جاتا ہے، یعنی وجود میں حدت پیدا ہو جاتی ہے۔ شیطان بھی آگ سے بنایا گیا ہے، چنانچہ انسان کی اس کیفیت کو شیطان کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ اس لیے اس کے علاج کے لیے برودت تجویز کی جاتی ہے۔ حضرت عطیہ بن عروہ السعدی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ الغَضَبَ مِنَ الشَّیطَانِ وَاِنَّ الشَّیطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ وَاِنَّمَا تُطفَأُ النَّارُ بِالمَاءِ فَاِذَا غَضِبَ اَحَدُکُم فَلیَتَوَضَّأُ.
‘‘غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے اور شیطان کا مادۂ تخلیق آگ ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے جب کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ وضو کر لے۔’’
غصے کی حالت میں جب آدمی وضو کرے گا تو اس کے اعضا پر پانی پڑنے سے گرمی زائل ہو جائے گی اور بندہ جلد ہی پر سکون ہو جائے گا۔ جب دو آدمیوں کے درمیان تو تکار ہو رہی ہو اور بات بڑھ رہی ہو تو ان میں سے ایک اگر خاموشی اختیار کر لے اور جواب نہ دے تو بھی غصہ فرو ہو جائے گا۔ خاموشی اختیار کرنا اس وقت آسان ہو جائے گا جب آدمی اس جگہ سے چلا جائے، گویا فریقین کے درمیان فاصلہ ہو جائے۔ جب مخالفین ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے تو انہیں نارمل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اسی طرح ہیئت بدلنے سے بھی غصہ فرو ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِذَا غَضِبَ اَحَدُکُم وَہُوَ قَائِمٌ فَلیَجلِس فَاِن ذَہَبَ عَنہُ الغَضَبَ وَاَلَّا فَلیَضطَجِع.
‘‘جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے۔ پس اگر بیٹھنے سے غصہ جاتا رہے تو فبہا اور اگر پھر بھی غصہ باقی رہے تو چاہیے کہ لیٹ جائے۔’’
ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو دست و گریبان دیکھا، ان میں سے ایک دوسرے کو گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، رگیں پھول رہیی تھیں، آپؐ نے اسے ‘اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم’ پڑھنے کی تلقین کی ۔ (الحکمۃ، ص ۴۹۵، بحوالہ بخاری، مسلم) ظاہر ہے کہ تعوذ سے شیطان دور بھاگتا ہے۔ جب شیطان موقع سے بھاگ گیا تو غصہ بھی خود بخود فرو ہو جائے گا۔
(بشکریہ ماہنامہ میثاق، لاہور، فروری 2009ء)