نکتہ نظر 
خواتین کا پردہ، سماجی حقوق وفرائض اور اسلامی شریعت
مولانا عمارخان ناصر

اسلامی شریعت میں خواتین کے لیے پردے سے متعلق کیا احکام دیے گئے ہیں؟
خواتین اجنبی مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہیں یا نہیں؟
جب عورت کا چہرہ ہی جسم کا سب سے زیادہ پرکشش حصہ ہوتا ہے تو کیا فتنے کے سے بچنے کے لیے اس کو چھپانا ضروری نہیں ہونا چاہیے؟
مرد وزن کے میل جول کے ضمن میں وہ کون سے حدود وآداب ہیں جن کی پابندی شرعاً ضروری ہے؟
ذیل کی سطور میں ہم ان سوالات کے حوالے سے اپنے فہم کے مطابق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی معاملے کے صرف ایک پہلو کو مد نظر رکھ کر احکام طے نہیں کرتی، بلکہ تمام متعلقہ پہلووں کی پوری رعایت کرتے ہوئے اور ہر ہر پہلو کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے وزن دیتے ہوئے حدود اور پابندیوں کا تعین کرتی ہے۔ مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے احکام شرعیہ کے مجموعی مطالعے سے بھی یہی نکتہ واضح ہوتا ہے۔ 
اس میں شبہ نہیں کہ دونوں صنفوں میں قدرت نے ایک دوسرے کے لیے فطری کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونا اور ربط وتعلق کی خواہش کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر اس فطری کشش کو حدود وآداب کا پابند نہ بنایا جائے اور دونوں صنفوں کے آزاد اور بے قید تعلق کو قبول کر لیا جائے تو معاشرے میں اخلاقی انارکی کا پھیلنا لازم ہے جس کا آخری نتیجہ جنسی جبلت کے، اعلیٰ انسانی واخلاقی اوصاف پر غالب آ جانے اور معاشروں اور تہذیبوں کی اخلاقی تباہی کی صورت
میں نکلتاہے۔ 
دوسری طرف انسانی معاشرت کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ خواتین اپنی فطری وخلقی صلاحیتوں کے لحاظ سے اس طرح کی معاشرتی ذمہ داریاں اپنے سر نہیں لے سکتیں جو مرد انجام دیتے ہیں۔ اس طرح ناگزیر طور پر خواتین کا معاشرتی کردار کئی پہلووں سے مردوں کے مقابلے میں محدود ہو جاتا ہے اور اپنی حفاظت اور دیگر معاشرتی حقوق کے لیے انھیں بنیادی طور پر مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں خواتین بطور ایک طبقے کے عموماً زیادتی ، جبر اور استحصال کا شکار رہی ہیں اور دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں انھیں ان کے بہت سے معاشرتی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے باقاعدہ نظری فلسفے اور جواز گھڑے گئے ہیں۔
اسلامی شریعت نے ان مختلف پہلووں میں توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے معاشرتی نظام میں خواتین کے کردار، حدود اور حقوق وفرائض کی تعیین کی ہے۔ چنانچہ اس نے صنفین کی باہمی کشش، پسندیدگی اور تعلق کی خواہش کو بنیادی طور پر درست اور جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے کچھ حدود اور آداب کا پابند تو بنایا ہے اور نکاح کو اس کا جائز طریقہ ٹھہراتے ہوئے خفیہ یاری آشنائی یا بے قید جنسی تعلق کو غیر اخلاقی قرار دیا ہے، تاہم ایسی کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں مرد اور عورت بطور ایک صنف کے، نکاح کے رشتے کے علاوہ، ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی اور دو الگ الگ دنیاوں کی مخلوق نظر آنے لگیں۔ اس کے بجائے شریعت نہ صرف صنفین کو اس کا حق دیتی ہے کہ وہ نکاح کے لیے اپنی پسند کے مرد یا عورت کا انتخاب کریں، بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتی ہے کہ نکاح سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہو اور باہمی رغبت اور پسند پر اس رشتے کی بنیاد رکھی
جائے۔
اسی طرح شریعت نے خواتین کی جسمانی ساخت اور خلقی صلاحیتوں کی رعایت سے انھیں اکتساب مال اور اس طرح کی دوسری ذمہ داریوں سے مستثنیٰ کرتے ہوئے ان کی کفالت اور حفاظت کا فریضہ خاندان کے مردوں پر عائد کیا ہے۔ تاہم گھر کے ماحول سے باہر نکل کر سماجی سرگرمیوں میں شرکت یا مردوں کے ساتھ معاشرتی میل جول کے حوالے سے کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی جس کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر ان کی انفرادی شناخت ہی باقی نہ رہے اور وہ اپنے سماجی کردار کی انجام دہی یا معاشرتی حقوق کے حصول کے لیے سر تا سر اپنے گھر کے مردوں کی محتاج بن جائیں۔ 
چہرے کے پردے سے متعلق اسلامی شریعت کے زاویہ نظر کو ہمارے نزدیک اس پہلو سے سمجھنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ کسی فرد یا طبقے کے سماجی کردار یا معاشرتی حقوق کے معاملے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس کی شناخت کیا ہے اور اسے دوسرے طبقوں کے ساتھ میل جول اور اختلاط کے مواقع اور کسی حق تلفی کی صورت میں اپنی آواز ذمہ دار افراد یا طبقات تک پہنچانے کی سہولت کتنی میسر ہے۔ اگر کوئی طبقہ کلی طور پر کسی دوسرے طبقے پر انحصار کر رہا ہو، حتیٰ کہ اس کے افراد اپنی انفرادی شناخت بھی معاشرے میں ظاہر نہ کر سکتے ہوں تو بدیہی طور پر اس کے لیے کوئی فعال معاشرتی کردار ادا کرنے یا زیادتی اور حق تلفی کی صورت میں داد رسی کے مواقع اور امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں اور کتابی طور پر اس کے حق میں جتنی بھی باتیں کر لی جائیں، عملاً اس پہلو کا رو بہ عمل ہونا خارج از امکان رہتا ہے۔
مذکورہ تمام پہلووں کی رعایت سے، اختلاط مرد وزن کے حوالے سے اسلامی شریعت کی جو ترجیحات ہمارے سامنے آتی ہیں، وہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق حسب ذیل ہیں:
۱۔ مرد اور عورت خلوت میں تنہا جمع ہونے سے حتی الامکان اجتناب کریں اور اس معاملے میں گھر کے قریبی، لیکن غیر محرم رشتہ داروں، مثلاً دیور وغیرہ کے معاملے میں بھی بے احتیاطی سے کام نہ لیں۔ (ترمذی، رقم ۱۱۵۳)
۲۔ خواتین، غیر محرم مردوں کے سامنے حتی الامکان اپنی زیب وزینت کی نمائش نہ کریں اور نہ کسی بھی انداز سے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں۔ بالخصوص گھر سے باہر نکلتے ہوئے انھیں تیز خوشبو کے استعمال یا دیدہ زیب، شوخ رنگ اور بھڑکیلے لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ لوگ خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں۔(سورۃ النور، آیت۱ ۳۔ ابو داود، رقم ۳۶۹۹)
۳۔ اگر مرد اور عورتیں کسی مجلس میں اکٹھے ہوں تو فریقین اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، کیونکہ غلط نگاہ، زنا کی طرف پہلا قدم ہے۔ غلط نگاہ بے اختیار اور بلا ارادہ پڑ جائے تو فوراً متنبہ ہو کر نظر پھیر لینی چاہیے اور قصداً وارادتاً نظر لوٹانے سے خود کو روک لینا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت۱ ۳۔ ابوداود، رقم ۱۸۷۵)
۴۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جو جسم کے مستور اعضا کو اچھی طرح چھپا لے۔ ایسا باریک یا چست لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے اعضا کو نمایاں کرنے کا ذریعہ ہو، گویا برہنہ پھرنے کے مترادف ہے۔ اس سے بطور خاص اجتناب کرنا چاہیے۔(سورۃ النور، آیت۱ ۳۔ مسلم، رقم ۴۰۸۷۔ ابو داود، ۳۶۳۶)
۵۔ بلوغت کی عمر میں ہاتھ پاووں اور چہرے کے علاوہ، عورت کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین بالخصوص اپنے سر کی اوڑھنی سے اپنے سینے کو ڈھانپے رکھنے کا اہتمام کریں۔ (سورۃ النور، آیت ۳۱۔ ابو داود، ۳۶۳۶)اسی طرح سر کے بالوں کو کھلا رکھنا، خاص طور پر جب کہ ان کی زیب وزینت کا اہتمام کیا گیا ہو، خواتین کے لیے مناسب نہیں۔ 
۵۔ ایک ہی ماحول میں کام کرتے ہوئے غیر محرم مردوں اور خواتین کے میل جول اور باہمی گفتگو کو حیا اور وقار کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس میں بے تکلفی، لگاوٹ اور دوستانے کا انداز، دلوں میں غلط خیالات پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے، اس لیے درمیان میں مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ اسی طرح حتی الامکان اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ مشترک مجالس میں مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہوں اور صنفین کے جسمانی قرب کا موقع کم سے کم پیدا ہو۔
۶۔ خواتین، حیا کے فطری احساس کے تحت نیز مردوں کی غلط نگاہوں سے بچنے کے لیے ازروئے احتیاط اپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا چاہیں تو شریعت اس جذبے کو یقیناًپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے، خاص طور پر جب کہ کسی جگہ ماحول میں خرابی اور بگاڑ کا عنصر نمایاں ہو اور خواتین اپنے تحفظ کے پہلو سے ایسا کرنے کو مناسب محسوس کریں۔ تاہم شریعت نے چونکہ ایسی کوئی لازمی پابندی خواتین پر عائد نہیں کی، اس لیے ایسا کرتے ہوئے توازن اور اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور خاص طور پر گھر کے داخلی ماحول میں اس حوالے سے ایسا بے لچک رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو خود خواتین کے لیے یا دیگر متعلقین کے لیے بے جا زحمت کا باعث بن جائے۔
۷۔ خواتین کو اپنی حفاظت اور عرفی تشخص وامتیاز کے پہلو سے ماحول کے اتار چڑھاو سے بھی چوکنا اور خبردار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اگر ماحول میں فتنہ انگیز عناصر موجود ہوں اور ماحول کا عمومی بگاڑ خواتین کو ایذا پہنچانے اور ان کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے میں ان کا مددگار بن رہا ہو تو ایسے حالات میں مسلمان خواتین کو اپنے لباس اور ظاہری وضع قطع میں امتیاز پیدا کرنے اور عام معمول سے بڑھ کر اپنے جسم کو ڈھانپنے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ فتنہ انگیز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے کوئی عذر یا جواز نہ پیش کر سکیں۔ (سورۃ الاحزاب، آیت ۵۹)
ہذا ما عندی واللہ اعلم۔