لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لئے پولس نے چھاپے مارنے شروع کئے۔ لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا مال بھی موقع پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچ سکیں۔ ایک آدمی کو بہت وقت پیش آئی اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دوکان سے لوٹی تھیں۔ ایک تو وہ جوں توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنوئیں میں پھینک گیا لیکن جب دوسری اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خودہی ساتھ ساتھ چلا گیا۔۔۔۔۔ شورسن کر لوگ اکٹھا ہوگئے کنویں میں رسیاں ڈالی گئیں دوجوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مرگیا۔
دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لئے اس کنویں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔اس رات اس آدمی کی قبر پر دئے جل رہے تھے۔٭سعادت حسن منٹو٭
آدم خور
‘‘بھئی یہاں تو چھ کا ونٹرز تھے’’ ‘‘ہاں’’ کہاں چلے گئے سب لوگ ؟’’ ‘‘آدم خور کھاگیا ’’ کیا ؟سامنے دیکھو۔۔۔۔ ایک کمپیوٹر لگ گیا ہے’’ ٭رتن سنگھ٭