جب ملکوں ، قوموں ، شہروں اور بستیوں میں بت گری، بت فروشی اور بت پرستی حد سے بڑھ جائے تو ابراہیم کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو بتوں پر ایک ضرب کاری لگا کر یہ واضح کردے کہ بتوں سے کچھ نہیں ہوا کرتا۔ جو اپنی ناک سے مکھی تک اڑانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، وہ دوسروں کا بھلاکیا کریں گے ۔ کافراور غیر مسلم قریوں اور بستیوں کا تو کیا کہنا ، آج مسلمان بستیوں اور معاشروں میں بھی بت پرستی عام ہو گئی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پتھر کے بت بھی ملا کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ بت تو عنقا ہیں البتہ شہرت، اقتدار ،دولت ، ہوس اور جاہ کے بت جابجا موجود ہیں اور اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کے بت ہونے کا احساس بھی ختم ہو گیا ہے۔
خدا ،نہ ان بستیوں میں اترتا ہے اور نہ ان دلوں میں جن میں بتوں کا راج ہواکرتا ہے ۔جس طرح ہر مسلم معاشرے کے ذمے ہے کہ اپنے بت تلاش کرکے ان کاقلع قمع کرے اسی طرح ہر مسلم کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے بت تلاش کر کے انہیں پاش پاش کرے ورنہ توحید کا تخم ، تخم ہی رہے گا شجر ثمر دار نہ بن سکے گا۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آ جائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو، بس وہی اس کا بت ہے۔
ہماری ساری عمر بتوں کو سینوں سے لگائے گزر جاتی ہے اور ہم سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم توحید کے علمبردار ہیں۔ اگر کسی دل میں شہرت ، اقتدار یا مال و جاہ کی ہوس کے بت نہ بھی ہوں تو کچھ دیگر خواہشا ت کے بت ضرور ہو ں گے ۔ انہیں کسی اورنے نہیں ہم نے خود ہی ڈھونڈ نا ہے اور ان سے جان چھڑانا ہے ۔ البتہ معاشروں کی پاکیزگی کے لیے واقعتا ایک ابراہیم کی ضرورت ہو ا کرتی ہے ۔ اب وہ ابراہیم آسمان سے نہیں آئے گا اسے بھی ہم نے ہی تلاش کرنا ہے اور اگر کسی بھی درجے میں مل جائے تو اس کا ساتھی بننا ، اس کے ساتھ چلنا اور اس کے سائے میں رہنا ہی کامیابی کا ضامن ہے ۔
اللہ کریم نے واضح کر دیا ہے کہ تمہارے لیے ابراہیم کی زندگی میں ایک بہتر نمونہ ہے ۔ (قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم) بت شکنی کے علاوہ ابراہیم کی زندگی کا ایک اور بڑا رخ قربانی ہے ۔ اپنی ہر خواہش کو ، اپنی ہر چاہت کو ، ہر محبت کو اورہر جذبے کو اللہ کی محبت اور حکم پر قربان کرناہی ابراہیمیت اور حنفیت ہے ۔ ایک مسلمان اگر اس بات میں یکسو نہیں ہے تو اس کی مسلمانی خام ہے اسے پختہ کرنے کی فکرکرنا اس پر لازم ہے ۔
ہر برس جانوروں کی قربانی تو ایک علامت ہے ۔ اگر اس قربانی سے ہمارے اندر اپنے جذبات ، خواہشات اور مرغوبات کو قربان کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا تو امکا ن ہے کہ کہیں یہ قربانی بھی بارگاہ الہی سے رد نہ ہوجائے۔ہر سال قربانی کرنے والوں میں سے کتنے ایسے ہیں کہ جو اللہ کا حکم سامنے آنے پر اپنی خواہش کو قربان کرنے پر فورا ًآمادہ ہو جاتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو خدا ئی قربان گاہ پر اپنے جذبے قربان کرنے کے تیار رہتے ہیں۔ یہ تعداد شاید اکائیوں میں تو ہو دہائیوں میں ہر گز نہیں۔ کیونکہ اگر یہ تعداد دہائیوں میں ہوتی تو رحمت ایزدی سے امید تھی کہ وہ ہماری مدد کے لیے اتر آتی ۔ چونکہ مسلم معاشروں سے مدد الہی روٹھ گئی ہے اس لیے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہاں نہ تو اب بت شکن اتنے رہے ہیں اور نہ قربانی کرنے والے اتنے کہ جن کے صدقے اللہ اپنی مدد نازل کرے۔ کام تو اللہ کی مدد ہی سے بنا کرتا ہے لیکن وہ مدد اتارنے کا ایک ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ دلوں سے بتوں کا نکالنا اور قربانی کا جذبہ بیدار کرنا اور اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہے ۔
اگر آج کا ابراہیم ارد گرد نہ ملے تو پھر ہمیں اپنے اندر تلاش کر کے اسے اس کا مقام دینا چاہیے کیونکہ،‘ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ’، بھی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے ۔
٭٭٭