بے بس معاشرہ

مصنف : نمرہ رؤف (پشاور)

سلسلہ : ادب

شمارہ : نومبر 2010

 گیارویں رمضان کی شب دس بجے کے قر یب دروازے پر دستک ہوئی۔اس وقت میں اپنے کالج کا نیا یونیفارم دیکھ رہی تھی۔ دروازہ کھولنے پر وہی لڑکی اور اس کا بچہ کھڑاتھا جو کہ تقریباً ایک گھنٹہ پہلے آئیں تھے۔یہ ہمارے اوپر والی آنٹی کے گھر کام کرتی ہیں۔ آنٹی گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کا باہر چمن میں بیٹھ کر انتظار کر رہی تھی۔ گرمی کا اندازاہ لگاتے ہوئے اور اس کے معصوم بچے کو پسینے سے شرابور دیکھ کر میں ان کو گھر کے اندر لانے کے لیے اپنی والدہ سے اجازت مانگنے چلی گئی۔ اجازت ملنے پر میں ان کو اندر لے آئی اور اپنی والدہ کے پاس جو اس وقت تراویح کی نماز پڑھ رہی تھی بٹھا لیا۔ میری والدہ نے نماز ختم کرنے کے بعد ان سے گفتگو کی۔ میں اس وقت وہاں پر موجود تھی۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے کے بعد جب میری والدہ نے ان سے ان کے شوہر کے بارے میں پوچھا تو ان کے چہرے پھر کچھ عجیب سی کیفیت چاہ گئی۔ پہلے تو اس نے بات کو ٹال دیا پھر کہنے لگی ‘‘اگر وہ بیغیرت ٹھیک ہوتا تو پھر کیا میں یہاں کام کرتی!’’ مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کے اس نے اپنے بچے کے باپ کے لیے ‘بیغیرت’ کا لفظ کیوں بولا۔ میری والدہ نے دوبارہ پوچھا ‘‘ کیا وہ کوئی کام نہیں کرتا؟’’

اس نے نہایت معصوم آواز میں جس کے پیچھے بہت درد اور لاچاری معلوم ہوتی تھی کہا ‘‘اس نے مجھے چھوڑ دیا ہیں۔۔۔’’ اس کے بعد میں اور میری والدہ خاموش ہو گئے۔

 کچھ دیر بعد وہ لڑکی جو کے مجھ سے عمر میں دو تین سال ہی بڑی ہو گی خود کہنا شروع کیا ‘‘تین ساڑے تین سال قبل اس سے میری شادی ہوئی۔ اس نے مجھے دھوکہ دیا۔ اس نے مجھ سے زور سے شادی کی۔ میرے بہنوئی سے دھوکے سے مکان اپنے قبضے میں کیا اور واپس دینے کی شرط یہ رکھی کہ کسی سے اس کی شادی کرائے گا۔ اور یہ سودا میرے سر پر ہوا۔ ہم سب کو اس نے کہا تھا کے وہ کنوارا ہے۔ شادی کے بعد مجھے پتہ چلا کے وہ شادی شدہ ہیں اور میری دو سوتنیں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ اچھا تھا کے وہ میرے ساتھ نہیں رہتی تھی۔ میں اکیلی اپنے سسر کے ساتھ رہتی تھی۔ شادی کے بعد کا ایک سال کافی اچھا گزرا۔ میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔زچگی کی حالت میں تو انسان پہلے ہی ڈرا ہوتا ہے میری کم عمری کے باعث میں اور بھی زیادہ ڈری ہوئی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے اپنے پاس کسی کو رہنے کی درخواست کی لیکن اس نے میری بات نہ مانی۔ میں نے چالیس دن اسی کمرے میں اکیلے اپنے بچے کے ساتھ گزارے۔ میرے شوہر کو میرے بیٹے سے بہت پیار تھا یہاں تک کے مجھے اکیلے میکے جانے بھی نہیں دیتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے رویے میں تبدیلی ا گئی۔ وہ پہلے بات بات پر مجھے ٹوکتا اور پھر اس نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ مجھے کمرے میں بند کر کے مارا گیا مگر میں نے ایک انسوبھی نہ بہایا۔ وہ مارتا گیا اور میں دیکھتی گئی۔ پھر تو بعد میں یہ معمول بن گیا۔ وہ اپنی دوسری بیوی کو بجلی کا کرنٹ دیتا تھا۔۔۔’’ اس وقت میرے دل کی جو کیفیت ہو رہی تھی اس سے خدا ہی واقف ہیں۔خالد حسینی کی ناول ‘‘ A Thousand splendid suns’’

 میں راشید کے کردار کو محض خیالی کردار سمجھ کر میں نے بھلا دیا تھا۔ لیکن اج اس بہن کی یہ داستان سن کر مجھے یقین نہیں ا ٓرہا تھا کے راشید کی طرح کے لوگ حقیقی دنیا میں بھی ہوتے ہے۔۔؟اس نے مزیدبتایاکہ۔۔۔ ‘‘میرے شوہر نے مجھے اپنے میکے اس بہانے سے بھیجا کے تمہاری نانی سخت بیمار ہیں۔ اس وقت میں دوسری مرتبہ امید سے تھی۔ وہاں جا کر مجھے اس کے جھوٹ کا پتہ چلا تو میں واپس آ گئی ۔ گھر میں قدم رکھا ہی تھا کے سسر صاحب نے کہا ۔۔‘تمھارے شوہر نے چوتھی شادی کر لی ہے۔’ میری طبیعت تو کچھ عجیب ہی سی ہوئی مگر کچھ ظاہرکرنا نہ چاہتے ہوئے میں نے کہا۔۔‘کرئے نا خوب کرئے چوتھی مرتبہ کیا دسویں مرتبہ کریں۔’ میرے میاں نے جس عورت سے شادی کی تھی وہ اس کی ماں کی عمرکی ہے۔چوتھی شادی کے بعد اس نے مجھے تو دور میرے بیٹے کو بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔میری چوتھی سوتن میرے ساتھ ہی رہتی تھی۔میرے ساتھ اس کی لڑائیاں شروع ہو گئی ۔ایک لڑائی میں تو اس نے مجھے سیڑیوں سے دھکا دیں دیا۔میں نے پندراں دن سخت بیماری کی حالت میں گزارے ۔ اگلے دن میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔گرنے کی وجہ سے میری بیٹی کے سر پر چھوٹ آ گئی تھی۔وہ دس دن بعد مر گئی۔اس کے بعد میرے شوہر کے رویے میں اور بھی زیادہ تلخی آگئی ۔مجھے میرا مہر تو دینا دور کی بات مجھ سے میرا سارا زیور لے کے بھیج دیا۔میں اس سے ناراض ہو کر میکے آگئی۔ مجھے یہاں آئیں ہوئے آدھا سال گزر گیامگر وہ مجھے لینے نہیں آیا۔اب میں اوروں کے گھروں میں کام کرتی ہوں اور اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالتی ہوں۔۔۔’’ اس کی یہ درد بھری آب بیتی سنتے ہوئے میری آنکھیں جھکی کی جھکی رہ گئی۔میرا دل و دماغ مجھے باربار ملامت کر رہا تھا کہ۔۔نمرا اس کی جگہ ہم میں سے کوئی بھی تو کوئی ہو سکتا تھا؟وہ خوبصورت تھی مگر جن حالات سے وہ گزری اس نے شعلے بن کر اس کا رنگ جلا دیا تھا۔میں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھااس کے آنکھوں میں ایک انسو بھی نہیں تھا۔جبکہ میں اپنے انسوں کو روکنے کے لے کمرے سے باہر چلی گئی۔کچھ دیر بعد جب دوبارہ گفتگو کا آغاز ہوا تواس نے کہا۔۔‘‘ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ اس سے طلاق لے کر دوسری شادی کر لوں میں ان کو کہتی ہوں کہ شادی میں ہے کیا ؟وہ جو ایک کی تو کیا ملا؟اور جہاں تک طلاق کی بات ہے تو ہم مومند قوم ہے اور ہمارے ہاں طلاق یافتہ عورت کو بلکل اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ’’ اب اس کی آواز میں ایک قسم کی مضبوطی اور دلیری آ گئی اور بولی۔۔‘‘ اب میں اس پر کیس کروں گی تاکہ مجھے میرے زیورات اور وہ سب کچھ جو اس نے مجھ سے لے کر بھیجا ہے یا تو واپس کریں یا اس کی قیمت ادا کریں۔’’کچھ دیر رکنے کے بعد بولی۔۔‘‘میں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اچھی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ اس کی میں دینی تربیت کروں۔یہ اپنے باپ کی طرح نہ نکلے۔میری خواہش ہے کہ یہ میرے سامنے قران کی تلاوت کریں۔اس کی اچھی تربیت کے لیے میں اپنی ساری جوانی قربان کرتی ہوں۔’’ اس وقت اس کی آنکھوں میں انسوآ گئے۔اسے دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ آپ ﷺ نے ماں کا مقام باپ سے کیوں بلند بیان فرمایا ہے۔ ‘‘ یہ کیا سمجھتا ہے کہ میں بے بس ہوں۔نہیں میرے بھائی صرف چھوٹے ہیں ۔ بس بڑے ہو جائیں تو اس کی کھال اتار دیں گے۔’’ اس کے دل میں انتقام کی اگ بڑھک اٹھی جسے کچھ دیر قبل اس کے بیٹے کی محبت کے خیال نے بجھا دیا تھا۔

 اس کی آب بیتی سننے کے بعد میری آنکھوں کے سامنے سورۃ بقرہ کی ان آیات کا ترجمہ ٓایا جو کہ ایک ماہ قبل میں نے پڑھی تھی۔۔۔

 ‘‘ اورمائیں اپنے بچوں کو،ان لوگوں کے لیے پورے دو سال دودھ پلائیں گی جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہیں ۔اور بچے کے باپ کے ذمے،بچے کی ماں کا دستور کے مطابق ، کھا نا اور کپڑا ہے۔کسی پر سے اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نا ڈالا جائے۔۔۔’’ ــ ( آیت :۲۳۳)

 یہ آیت تو ان کے لیے ہے جن کو مکمل طور پر طلاق ہو جاتی مگر ا س بیچاری کو تو طلاق بھی نہیں ہوئی تھی مگر پھر بھی وہ اپنا تو دور اپنے بچے کا خرچہ اٹھانے پر مجبور تھی۔ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت صرف اس شرط پہ دی ہے کہ ان سب کا حق ادا کرے اور ان کے درمیان اعتدال کر سکے نہ کے جو نئی کروں اس کا خیال رکھوں اور پہلی والی کو بھلا دو۔۔ خود آپ ﷺ کی جن کی چار نہیں بلکہ نو ازواج مطہرات تھی ان کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا سب کو معلوم ہے۔مجھے اس کے شوہر پر غصہ تو ا ٓرہا تھا مگر ساتھ ہی افسوس بھی کہ اپنے لیے آخرت خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہا ہے۔

 اس معصوم کے ساتھ جو ظلم ہوا اور تاحال جاری ہے اس کا قصور وار کیا صرف ا ورصرف اس کا شوہر ہے ؟کیا ہم سب جن سے یہ معاشرہ بنا ہے اس کے برابر کے قصوروار نہیں؟آج یہ سب کچھ جو اس کے ساتھ ہوا کل کو میرے یا آپ کے ساتھ بھی تو ہو سکتا ہے؟کیا ہمارا کام صرف کان پہ کان رکھ کر ان کی کہانیاں سننا ہے؟ان کے ساتھ مل کر انسو بہانے ہے؟کیا ان جیسے مجرموں کے لیے جنہوں نے قران اور رسالت کا مزاق اڑایا ایک جمہوری اسلامی ریاست میں کوئی سزا نہیں؟میڈیا اس مسلے کے نتیجے میں لوگوں میں پیدا ہونے والے فساد کے متعلق awarenessپیدا کرنے کے لیے موثر کردار کیوں ادا نہیں کرتی؟ تمام اسلامی ـ’سیاسی اور لوگوں کے بہبود کے لیے کام کرنے والی جماعتیں اس مسلئے کے تدراک کے لیے ایک Platformپر اکھٹی کیوں نہیں ہوتی؟کیا یہ سب ایک بے بس معاشرے کی نشانیاں نہیں ہے۔۔۔؟؟؟