کبر و غرور اور علماء

مصنف : اکبر شاہ خان نجیب آبادی

سلسلہ : ادب

شمارہ : نومبر 2010

کتاب و سنت کا علم ،اگر فضل الہی شامل ہو، یعنی علم کے ساتھ عمل بھی ہو تو انسان کو کبر و غرور سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ سب سے زیادہ عالم ہی کبر و غرور کی ہلاکت آفریں بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔

علم اگرچہ خود کبر و غرور کی بیماری کا علاج ہے۔۔۔ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (فاطر 35:4) سے یہی ثابت ہے لیکن وہ حقیقی علم دین یعنی کتاب و سنت کا علم ہے۔ لوگوں نے چونکہ صرف فقہ اور مبادیات علم دین کو ہی علم دین سمجھ رکھا ہے اور فقیہ اور ادیب و منطقی و فلسفی کو ہی عالم کہا جاتا ہے، لہذا سب سے زیادہ ایسے عالم ہی کبر و نخوت و پندار میں گرفتار نظر آتے ہیں۔

            یہ لوگ ظاہری طہارت یعنی جسم، لباس، جگہ اور پانی کی طہارت میں تو انتہا سے زیادہ احتیاط کرتے ہیں مگر دل کی پلیدی کے دور کرنے کی ان کو مطلق فکر نہیں ہوتی۔ نماز کی ظاہری صورت کے سنوارنے اور اپنے لباس کو شرع کے موافق بنانے میں تو بخوبی ہمت صرف کرتے ہیں لیکن دل کو خدا کی طرف متوجہ کرنے اور نماز کی اصل حقیقت کے پالینے کی کوئی پرواہ اور خواہش ان کو نہیں ہوتی۔

            اپنے آپ کو مستحق عزت و تکریم سمجھ کر دوسروں سے اپنے لئے خدمت و عاجزی کے متوقع رہتے اور اپنی فضیلت علمی کے اظہار و اعلان کو ضروری سمجھ کر ہر شخص کے کلام کو رد کرنے اور مباحثہ و مناظرہ کی مجلس گرم کرنے اور کفر کے فتوے صادر کرنے پر ہمہ اوقات مستعد رہتے ہیں۔ نہ ان کے دلوں میں خدائے تعالی کا خوف ہوتا ہے نہ صلاح و فلاح امت مسلمہ کی خواہش، نہ روز جزا کی فکر۔ خدائے تعالے فرماتا ہے:

‘‘سعادت آخرت کی تو ہم نے ان لوگوں کے لئے مقرر کی ہے جو دنیا میں بڑائی اور جاہ نہیں ڈھونڈتے اور نہ فساد کے خواہاں ہیں۔ اور انجام بخیر تو پرہیز گاروں ہی کا ہے۔’’ (قصص 28:83)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "خلق کو دو چیزوں نے ہلاک کیا۔ ایک ہوا و ہوس کی پیروی اور دوسرے اپنی ثنا و صفت کو دوست رکھنا۔"

علمائے ربانی کی ایک شناخت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی مدح کرے تو وہ اس شخص کو اس کے حق سے زیادہ کچھ نہ دیں اور اگر کوئی ان کی مذمت اور ہجو کرے تو اس کے حق میں رتی برابر کمی نہ کریں۔

عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عالم میں کوئی برائی یا عیب یا اس کی کوئی غلطی دیکھ کر اس کو آگاہ کرے اور بتائے کہ آپ نے یہ غلطی یا گناہ کا کام کیا ہے تو وہ عالم آگ بگولا ہو جاتا اور کہتا ہے کہ تجھ کو کیا حق ہے کہ ہم کو نصیحت کرے۔ ہم عالم ہیں تو جاہل ہے، تو نے بہت بڑی گستاخی اور ہماری توہین کی ہے اور اپنی غلطی کی عجیب و غریب توجیہات کر کے اس بے چارے کو شرمندہ کر دیتا ہے۔ [اگر عالم خود ایسا نہ کرے تو اس کے پیروکار یہی سب کچھ کہہ دیتے ہیں اور عالم اس کی خاموش تائید کرتا ہے۔]

‘‘اور جب اس سے کہا جائے کہ خدا سے ڈر تو شیخی دامن گیر ہو کر اس کو گناہ پر آمادہ کرے۔’’(البقر? 2:206 )

 علم سیکھنے سے جو لوگوں کا تکبر بڑھ جاتا ہے اس کے دو سبب ہیں، ایک تو یہ کہ علم حقیقی جو علم دین ہے، اسے نہیں سیکھتا۔ فقہ ،حساب، نجوم، ادب، مناظرہ اور مباحثہ وغیرہ کے علوم سیکھتے ہیں جن سے تکبر ہی بڑھتا ہے۔ علم فقہ و فتاوی بھی علم دنیا ہے، اگرچہ دین کو اس کی احتیاج ہے مگر اس سے خوف الہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اگر آدمی صرف علم فتاوی میں اٹکا رہے اور دوسرے علوم سلوک و معرفت کو ترک کر دے تو سیاہ دل اور متکبر ہو جاتا ہے۔

            یہی حال خطبااور واعظین کا ہے۔ ان کی مسجع و پرتکلف اور بے فائدہ باتیں اور ان باتوں کی تلاش جن کے ذریعہ سامعین سے واہ واہ کے نعرے بلند کراتے اور وہ باریکیاں جن کے سبب سے مذہبوں میں تعصب پیدا کراتے ہیں کہ عوام سمجھیں کہ یہی دین کی باتیں ہیں۔ یہ سب امور کبر و حسد اور عداوت کا تخم دل میں بوتے ہیں، ان کے ذریعہ درد اور شکستگی نہیں بڑھتی بلکہ تکبر اور نخوت میں ترقی ہوتی ہے۔

            دوسرا سبب فطری خبث طینت اور بداخلاقی ہے کہ کوئی شخص علم نافع مثلاً تفسیر و حدیث پڑھے اور پھر بھی متکبر ہو اور اس علم دین کے پڑھنے سے اس کی غرض بیان کرنا ہی ہو کہ اس طرح لوگوں میں اس کو بڑائی حاصل ہو۔ اس کی غرض عمل کرنا نہ ہو۔

(مصنف: اکبر شاہ خان نجیب آبادی، "معیار العلماء " سے انتخاب)