طیارہ اڑنے اور اڑانے میں تھوڑا فرق ہے لیکن نائن الیون کے بعد یہ فرق ختم سا ہوگیا ہے۔اگر آپ مسلمان ہوں، داڑھی رکھتے ہوں، روایتی پوشاک پہنتے ہوں اور ہوائی جہاز پر سوار ہوں تو یہ ایک ‘ایکسپلوسو مِکس’ ہے اور لوگ مڑ کر دیکھتے ہی ہیں۔ لیکن دیوبند کے مولانا نور الھدٰی کے لیے بات اس سے کہیں آگے نکل گئی۔وہ دلی سے لندن جانے کے لیے امارات کی ایک پرواز پر سوار تھے۔ فون پر اپنی اہلیہ کو بتایا کہ جہاز پندرہ منٹ میں اڑنے والا ہے، برابر میں بیٹھی نوجوان خاتون نے سمجھا کہ وہ جہاز کو اڑانے کی بات کر رہے ہیں، اس نے جہاز کے عملے سے شکایت کی، عملے نے سیکورٹی سے رجوع کیا اور مولانا کو جہاز سے اتار کر جیل میں بند کردیا گیا۔پولیس کے مطابق ان کے خلاف شرارت کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے! اتنے سنگین الزام میں شرارت کا مقدمہ؟ مولانا اگر جہاز اڑانا چاہتے تھے تو ان کے خلاف یا تو بغیر لائسنس کے جہاز اڑانے کی کوشش یا پھر دہشت گردی کا معاملہ درج ہونا چاہیے تھا۔دہشت گردی کافی عام تو ہوئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ شرارت کے زمرے میں آجائے۔اگر شرارت کا مقدمہ قائم ہونا ہی تھا تو اس خاتون کے خلاف ہونا چاہیے جس کی وجہ سے مولانا نور الھدٰی جیل پہنچے۔
(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)