۱۹۰۹ء کا ذکر ہے۔ اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور ماہرِ فلکیات سر جیمس جینز (Sir James Jeans)پر نظر پڑی جو چرچ کی طرف جارہے تھے۔ میں نے قریب ہو کر سلام کیا۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم کیا چاہتے ہو؟میں نے کہا، دو باتیں۔ اوّل یہ کہ زور سے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھتری بغل میں داب رکھی ہے۔ سر جیمس اپنی بد حواسی پر مسکرائے اورچھتری تان لی۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لئے جا رہا ہے۔ یہ کیا؟ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمس لمحہ بھر کے لئے رُک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا، آج شام کو چائے میرے ساتھ پیو۔ چنانچہ شام کو میں ان کی رہائش گاہ پہنچا۔ ٹھیک چار بجے لیڈی جیمس باہر آکر کہنے لگیں، سر جیمس تمہارے منتظر ہیں۔ اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصوّرات میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، تمہارا سوال کیا تھا۔ اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیر اجرامِ فلکی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پنہائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں، نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نُور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس داستانِ کبریائی و جبروت پر دہلنے لگا۔ اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اُٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت و خشْیت کی دو گونہ کیفیتیں عیاں تھیں۔ اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، عنایت اللہ خاں! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے۔ جب کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں: ‘‘ تُو بہت بڑا ہے’’ ، تو میری ہستی کا ہر ذرّہ میرا ہمنوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد سکون اور خوشی نصیب ہوتی ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے۔ کہو عنایت اللہ خاں، تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں گر جا کیوں جاتا ہوں۔
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمس کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا۔ میں نے کہا، جناب والا، میں آپ کی روح افروز تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلہ میں قرآنِ مجید کی ایک آیت یاد آگئی ہے۔ اگر اجازت ہو تو پیش کروں۔ فرمایا ضرور۔چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓوءُ ا (فاطر28 :35 ؛ صرف اہلِ علم ہی حیرت اور تعجب کے جذبات کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی جلالت و قُدرت اور عظمت و سطوت کے معترف و مرعوب نیز متحیرّو مبہوت ہوتے اور سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ نوٹ= اہلِ علم کو ایسی حالت میں دیکھ کر، اللہ تعالیٰ یقینا کائنات کے مزید اسرار و رُموز عطا فرماتاہے جو ایجاد و اختراع کی صُورت میں ہمیں ملتے ہیں)۔یہ آیت سنتے ہی پروفیسر جیمس بولے کیا کہا۔ حیرت انگیز، بہت عجیب۔ یہ بات جو مجھے پچاس برسوں کے مسلسل مُطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمدﷺ کو کس نے بتائی؟ کیا قرآنِ مجید میں واقعی یہ آیت موجود ہے؟اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمّدﷺ اَن پڑھ تھے، انھیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہو سکتی تھی۔ انھیں یقینا اللہ نے بتائی تھی، بہت خوب! بہت عجیب!! تیری دنیا میں میرے علم کا حاصل حیرت ۔ایسی حیرت کہ جسے علم کا عرفاں کہیے۔
مرسلہ، لیفٹیننٹ کرنل ، عابد حسین عابد، لاہور