آواز دوست
جوتا اور انقلاب
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا ۔ ایک بار اس نے یہ پروگرام بنایا کہ پیدل چل کر اپنی سلطنت کی سیر کی جائے ۔ پیدل چلا تو جلد ہی اس کی ہمت جواب دے گئی اور پاؤں سوج گئے ۔واپس آکر بادشاہ سلامت مشیروں اور وزیروں پہ برس پڑے اور کہا کہ بتاؤ اس طرح کی سڑکیں کیوں بنائی گئی ہیں کہ جن پر چل کر انسان تھک جاتا ہے، اس کے پاؤں سوج جاتے ہیں اور اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ سب نگاہیں جھکائے بادشا ہ سلامت کی تقریر سنتے رہے اور کسی کو یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ حضور سڑکیں تو سب ٹھیک ہیں ، خرابی تو اصل میں تو آپ کے جوتے میں ہے۔ سب نے عرض کیا کہ حضور آپ ہی بہتر جانتے ہیں ہم تو خادم ہیں جو آپ فرمائیں گے ،حکم بجا لائیں گے ۔بادشاہ نے ایک لمحے غو ر کیا اور پھر توقف کے بعد کہنے لگا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ملک بھر کی تمام سڑکوں پہ چمڑے کی تہ بچھا دی جائے تو چلنا انتہائی آسان ہو جائے گا اور کوئی تھکاوٹ بھی محسوس نہ ہو گی۔سب نے کہا کہ واہ ،واہ حضو ر آپ نے کیا خوبصورت بات ارشاد فرمائی ہے یقیناًیہی اس کا واحد حل ہے ۔ حضو ر حکم فرمائیں تو ہم ملک بھر کے عوام کو کہیں کہ وہ گائے ، بیل ، بھینس ،بھیڑ بکری سب ذبح کر کے ان کی کھالو ں کو سڑکوں پہ بچھا دیں اور پھر حضور سیر کے لیے نکلیں تو یقیناًتھکاوٹ کا نام ونشان نہ ہو گا۔
انہی میں سے ایک وزیر ملک کا خیر خواہ بھی تھا اس نے سوچا کہ اس صورت میں تو ملک بھر سے لائیو سٹاک ختم ہو کر رہ جائے گا اور پھر یہ بھی ہے کہ یہ چمڑا کتنے دن باقی رہے گااور ہر بار چمڑابدلنے کے لیے جانور کہاں سے آئیں گے ۔ اس نے عرض کیا کہ حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اس کے علاوہ بھی ایک مناسب حل موجود ہے جو ہے بھی سستا اور ہے بھی پائدار۔ بادشاہ نے کہا ، کہو کیا کہتے ہو اگرچہ بات تو ہماری ہی صحیح ہے ۔ وزیر نے کہا کہ حضور اگر سڑکوں کے بجائے آپ خود اپنے پاؤں کاجوتا بدل لیں جس میں ہم سپیشل چمڑے کا تلوا اور میٹریل استعمال کریں تو آپ کے پاؤں بھی پتھر کانٹے سے محفوظ رہیں گے اور ملک بھر کے لائیو سٹاک بھی محفوظ۔اتفاق سے اس وقت بادشاہ کی عقل حاضر تھی اس نے کہا کہ وزیر با تدبیر بات تو تم نے ٹھیک کہی ہے ۔ جاؤ ہمارے لیے ایسا ہی جوتا تیار کر کے لاؤ وزیر صاحب نے خالص چمڑے کا جوتا تیا ر کر وا کے بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کیا اور جب بادشاہ وہ جوتا پہن کے نکلا تو اسے محسوس ہو ا کہ سڑکیں توواقعتا سب ٹھیک ہیں۔ مسئلہ اصل میں اس کے اپنے جوتے کا ہی تھا۔
بادشاہ کے اس جوتے کی طرح، اصل مسئلہ ہر ہر انسان کے اندر ہوتا ہے لیکن وہ اسے باہر کی دنیا میں تلاش کرتا رہتا ہے۔خود کو ٹھیک کرنے کے بجائے وہ دنیا کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری اپنے سر پہ اٹھا لیتا ہے ۔نتیجتاً نہ تو دنیا ٹھیک ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ خود۔ دنیا کو بدلنا ایک ایسا امر ہے کہ جس کو ہدف بنانے سے اس بات کا اگرچہ امکان ہوتا ہے کہ شاید دنیا کا کچھ حصہ درست ہو جائے لیکن وہیں اس بات کا بھی قوی امکان ہوتا ہے کہ انسان خود محروم رہ جائے جبکہ اگر خود کو ہدف بنایا جائے تو اس میں کامیابی کے امکانات اگر انسان مخلص ہو تو بہر حال روشن ہوتے ہیں۔پورے عالم میں عموماً اور ہمارے معاشرے میں خصوصاً فرد سے لے کر اجتماعیت تک سب جماعتوں ، گروہوں او ر پارٹیوں نے دوسروں کو ٹھیک کرنے کا بار سر پہ اٹھا رکھا ہے اور خود کو اس سے مستثنی کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے نعروں کے باوجود تبدیلی تو کیا، اس کے امکانات بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ۔جس دن ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم سب کو اپنا اپنا ’’جوتا‘‘ بدلنا ہے تو یقین جانیے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا ۔اگر فر د یہ فیصلہ کر ے گا تو انفرادی تبدیلی اور انقلاب آ جائے گا او راگر قوم یہ فیصلہ کر ے گی تو پھر قومی تبدیلی اور انقلا ب آجائے گا ۔
انقلاب اپنا ’’جوتا‘‘ بدلنے کا نام ہے نہ کہ دوسروں کو ذبح کرکے ان کی کھالوں پہ چلنے کا نام۔