انتخاب، سید محمد احمد رضوی ، ابو ظبی
تصرف کی حقیقت
خان صاحب (امیر شاہ خان صاحب )نے فرمایا کہ میرے اُستاد میاں جی محمدّی صاحب بیان فرماتے تھے کہ جب سید صاحب (سید احمد بریلوی )سیر کو تشریف لے جاتے تھے تو بڑے بڑے لوگ شکار بند پکڑا کرتے تھے۔ ہم بھی چاہتے تھے کہ یہ شرف ہمیں بھی نصیب ہو مگر ہمیں موقع نہ ملتا تھا۔ لیکن ایک روز موقع مل گیا اور میں شکار بند پکڑے ہوئے سید صاحب کے ساتھ چلا۔ خانم کے بازار میں ایک کوچہ تھا اور اس کوچہ کے نکڑ پر ایک رنڈی کا مکان تھا اور اس میں جو رنڈی رہتی تھی وہ نہایت حسین اور پڑھی لکھی تھی اور اس کے یہاں معمولی آدمیوں کا گزر نہ تھا بلکہ بڑے بڑے لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ سید صاحب جب اس کے مکان کے پاس نکلے تو اتفاق سے وہ اپنے دروازہ پر کھڑی تھی ۔ سید صاحب اس جگہ ذرا ٹھِٹکے اور ایک نظر اُس کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد گھوڑا بڑھا کر آگے روانہ ہوگئے۔ آپ بیس پچیس قدم ہی چلے ہوں گے کہ اتنے میں وہ رنڈی روتی ہوئی اور یہ آواز دیتی ہوئی آئی کہ اے میاں سوار، خدا کے واسطے ذرا گھوڑا روک لے۔ آپ نے گھوڑا روک لیا اور وہ بے تحاشا گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں کو لپٹ گئی اور پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ سید صاحب ہر چند فرماتے ہیں کہ بی بی سُن تو سہی ، بات تو بتلا، تو کون ہے اور کیوں روتی ہے؟ گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دے اور اپنا مطلب کہہ۔ مگر وہ نہیں مانتی اور برابر گھوڑے کے پاؤں پکڑے ہوئے رو رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں اسے افاقہ ہوا اور اس نے کہا کہ میاں میں بیوہ ہوں اور توبہ چاہتی ہوں اور کچھ نہیں چاہتی۔ سید صاحب نے فرمایا کہ اس وقت تیرے مکان میں کچھ لوگ ہیں؟ اس نے کہا ، جی ہاں۔ سید صاحب نے فرمایا کہ توبہ کے بعد نکاح بھی کرے گی؟ اس نے کہا جی ہاں نکاح بھی کرلوں گی اور جو آپ فرمائیں گے وہ کروں گی۔ آپ نے فرمایا کہ تیرا دل کسی سے نکاح کو چاہتا ہے؟ تو اس نے کہا جی فلاں سے۔ آپ نے فرمایا وہ کہا ں ہے ؟ اُس نے کہا کہ اِس وقت میرے مکان میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مکان میں کوئی اور بھی ہے؟ اُس نے کہا جی ہاں کئی آدمی ہیں۔ سید صاحب نے اس طوائف سے اور مجھ سے فرمایا کہ جاؤ سب کو بُلالاؤ۔ ہم گئے تو اس وقت دس آدمی تھے۔ ان میں سے نو تو آگئے مگر وہ نہ آیا جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی تھی۔ جس شان سے وہ رنڈی آئی تھی اسی شان سے یہ لوگ بھی آئے اور وہ بھی سب کے سب تائب ہوگئے۔ اب آپ نے رنڈی سمیت سب سے فرمایا کہ تم لوگ اکبری مسجد میں چلو میں بھی آتاہوں ۔ چنانچہ وہ سب اکبری مسجد میں چلے گئے اور آپ آگے بڑھ گئے۔
اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میاں محمدی تم نے دیکھا کہ یہ ہم نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور دیکھ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ میاں سنو اس قسم کی باتیں یہود و نصاریٰ ،مجوس اور جوگی بھی کیا کرتے ہیں ۔ بعض میں نظر کی قوت ہوتی ہے بعض میں دماغی ، بعض میں قلبی، بعض میں آواز کی قوت ہوتی ہے مگر وہ قوت کَسْبِی ہوتی ہے اور مجھے جو قوت عطاہوئی ہے وہ وہبی ہے اگر تم کسی کے اندر ایسی قوت دیکھو تو میں نصیحت کرتا ہوں کہ فوراً اس کے معتقد نہ ہوجانا اور اس کو بزرگ نہ سمجھ لینا بلکہ جس کو متبع ِ سنت دیکھو تو گو ان قوتوں میں سے کوئی قوت بھی ان کے اندر نہ دیکھو اس کے معتقد ہوجانا ۔ یہ فرماکر آگے چلے اور جنگل میں پہنچ کر فرمایا کہ الحمدللہ میں اللہ کا وہ بندہ ہوں جس کے لیے مچھلیاں پانی میں اور چیونٹیاں سوراخوں میں دُعا کرتی ہیں اور جس طرف کو میں نکل جاتا ہوں وہاں کے درخت اور جانور تک مجھے پہچانتے اور سلام کرتے ہیں۔ (بحوالہ ارواح ثلاثہ ص۱۱۲)
صوفیا کے مجاہدات کی حقیقت
خان صاحب قبلہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک حضرت گنگوہی قدسی سرہٗ دیوبند سے واپسی میں سہارنپور سے رامپور تشریف لے جارہے تھے۔اگلی گاڑی میں حضرت مولانا اور حکیم ضیاء الدین صاحب تھے اور پچھلی گاڑی میں مَیں اور مولوی مسعود احمد صاحب۔ حضرت نے گاڑی کے پیچھے کا پردہ اُٹھا کر مجھ سے باتیں کرنا چاہیں۔مگر چونکہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے بات چیت مشکل تھی اس لیے میں اپنی گاڑی سے اُتر کر حضرت کی گاڑی کا ڈنڈا پکڑ کر ساتھ ساتھ ہولیا۔ حضرت نے فرمایا میاں امیر شاہ خاں ابتداسے اس وقت تک جس قدر ضَرَرْ دین کو صوفیا سے پہنچا ہے اتنا کسی اور فرقہ سے نہیں پہنچا۔ ان سے روایت کے ذریعہ بھی دین کو ضَرَرْ ہوا اور عقائد کے لحاظ سے بھی اور اعمال کے لحاظ سے بھی اور خیالات کے لحاظ سے بھی۔ اس کے بعداس کی قدرے تفصیل فرمائی اور فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی قوتِ روحانی کی یہ حالت تھی کہ بڑے سے بڑے کافر کو لَا اِلٰہَ اَلَّا اللہُ کہتے ہی مرتبۂ احسان حاصل ہوجاتا تھا۔جس کی ایک نظیر یہ ہے کہ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم پاخانہ پیشاب وغیرہ کیسے کریں اور حق تعالیٰ کے سامنے ننگے کیونکر ہوں۔ یہ انتہا ہے اور ان کو مجاہدات و ریاضات کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔اور یہ قوت بفیض نبوی ﷺ صحابہ میں تھی مگر جناب رسول اللہ ﷺ سے کم۔ اور تابعین میں بھی تھی مگر صحابہ سے کم۔ لیکن تبع تا بعین میں یہ قوت بہت ہی کم ہو گئی۔ اور اس کمی کی تلافی کے لیے بزرگوں نے مجاہدات اور ریاضات ایجاد کئے۔یہ مجاہدات اور ریاضتیں ایک زمانے تک تو محض وسائل ِ غیر مقصودہ کے درجہ میں رہیں۔ مگر جوں جوں خیر القرون کو بُعد ہوتا گیا ان میں مقصودیت کی شان پیدا ہوتی رہی اور وقتاً فوقتاً ان میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین میں بے حد بدعات علمی و عملی و اعتقادی داخل ہوگئیں۔ محققین ِ صوفیہ نے ان خرابیوں کی اصلاحیں بھی کیں مگر اس کا نتیجہ صرف اتنا ہوا کہ ان بدعات میں کچھ کمی ہوگئی ، لیکن بالکل ازالہ نہ ہوا۔ حضرت نے مصلحین میں شیخ عبدالقادر جیلانی ؒاور شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ اور مجددالف ثانی ؒ اور سید احمد صاحب قدست اسرارہَم کا نام خصوصیت سے لیا اور فرمایا کہ ان حضرات نے بہت اصلاحیں کی ہیں مگر خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ حق تعالیٰ نے ان حضرات پر طریق ِ سنت منکشف فرمایا تھااور الحمدللہ ،اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وہ ہی طریق منکشف فرمایا ہے۔ پھر فرمایا کہ طریقِ سنت میں یہ بڑی برکت ہے کہ شیطان کو اس میں رہزنی کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ چناچہ ایک کھلی ہوئی بات یہ ہے کہ جن امور کا جناب رسول اللہ ﷺ نے اہتمام فرمایا ہے جیسے نماز باجماعت وغیرہ اگر کوئی سختی کے ساتھ اُن کی پابندی کرے اور فرائض و واجبات و سنن ِ مؤکدہ کا پورا اہتمام کرے ، تو نہ خود اُس کو وسوسہ ہوتا ہے کہ میں کامل اور بزرگ ہوگیا ہوں اور نہ دوسرے اُسے ولی اور بزرگ سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان امور کا اہتمام کرے جن کا جناب رسول اللہ ﷺ نے اہتمام نہیں فرمایا مثلاًچاشت ، اشراق ، صلوٰۃ اوابین وغیرہ کا پابند ہو تو وہ خود بھی سمجھتا ہے کہ اب میں بزرگ ہوگیا اور دوسرے بھی سمجھتے ہیں کہ اب یہ بزرگ ہوگیا ۔ اسی تقریر کے دوران میں حضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ شارع ؑ نے احسان کو مطلوب قرار دیا تھا مگر صوفیہ نے بجائے اس کے استغراق کو مقصود بنالیا۔(بحوالہ ارواح ثلاثہ، ص۲۵۵)
کشف
خان صاحب نے فرمایا، کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مکاشفات کی تین قسمیں ہیں،ایک تحت التکوین، اس میں کافر و مسلم سب برابر ہیں۔ایک لوح محفوظ سے ہوتا ہے وہ خالص مسلمین کے لیے ہے مگر اس کے لیے ہے یمحو اللہ ما یشاء و یثبت و عند ہ ام الکتاب اور ایک خالص علم اللہ سے ، یہ مخصوص انبیا علیہم السلام سے ہے ۔پہلے دو میں کشفی غلطی کا احتمال ہے مگر ثالث میں امکان نہیں کیونکہ پہلے دو میں زمان و مکان کی تعیین تخمین سے ہو سکتی ہے مگر علم الہی میں ماضی و حال اور استقبال برابر ہیں اس لیے انبیا علیہم السلام کے علوم غلطی سے پاک ہیں۔( بحوالہ ارواح ثلاثہ ص ۲۶۹)
٭٭٭