جہاں خانقاہیں تھیں وہاں بارگاہیں بن گئیں۔ اہل خانقاہ گئے تو سجادہ نشین آ گئے ۔رشدو ہدایت کے دروازے ہوئے تو ‘‘فتوحات اور نذرانے ’’اکٹھے ہونے لگے۔ مجھے ایک معمر درویش نے روتے ہوئے بتایا کہ آج سے ستر سال پہلے جہاں ان کے پیرومرشد اپنے مریدوں کے حلقہ میں بیٹھ کر ‘توجہ’ دیا کرتے تھے آج ان کی اولاد نے حویلی بنا کر اپنے گھوڑے اورکتے باندھے ہوئے ہیں۔زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آ گئے ہیں۔ خانقاہیں بارگاہیں بن گئی ہیں۔رشد گاہیں چراگاہوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔اہل دل کی محفلیں اجڑیں تو دنیا داروں کے ڈیرے آباد ہوگئے جوپیر سیکڑوں میل پیدل چل کر خاک نشین مریدوں کی تربیت کیا کرتے تھے آج ان کے صاحبزادے پجارو میں بیٹھ کر مریدوں کے سروں پر خاک پھینکنے لگے ہیں۔جہاں دنیا داروں کو بزرگوں کی مجلس میں حاضری کی مشکل سے اجازت ملا کرتی تھی آج وہی خانقاہیں دنیا داروں کی راہ تکا کرتی ہیں۔ آج پیر زادے اورمشائخ زادے ، وزرا اور امرا کے انتظار میں بوڑھے ہوتے جار ہے ہیں ۔
بیٹھ کر راہ گزر عام میں گزری اپنی
اس تمنا میں کہ شاید وہ ادھر آ نکلیں
(پیر زادہ اقبال احمد فاروقی بحوالہ ماہنامہ جہان رضا لاہورجمادی الاول ۱۴۱۵ھ )