ایک ڈاکٹر کے شب و روز

مصنف : ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : مارچ2016

نقطہ نظر
ایک ڈاکٹر کے شب و روز
تصویر کا دوسرا رخ
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

میرا تجربہ میو اور لیڈی ولنگڈن ہسپتال کا ہے۔ آپ ہمیشہ بات کرتے ہیں ڈاکٹر کی، میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں ڈاکٹر میں چھپے انسان کی کہانی۔ لیڈی ولنگڈن میں آغاز نائٹ ڈیوٹی سے ہوا۔ پہلی نائٹ پر 16 میجر آپریشن میں مدد گار کے طور پر اور 20 25 نارمل ڈیلیوریز خود کروائیں۔ میں ہاؤس سرجن تھی، میرے ساتھ ایک میڈیکل آفیسر اور ایک سینئر رجسٹرار تھیں۔ ہم 3 ڈاکٹرز اور 2 نرسیں لیبر روم میں اور تھیٹر کا عملہ۔ یہ میرا پہلا دن تھا سو اصولی طور پر فائنل ائیر پاس کرنے کے لئے 20 نارمل ڈیلیوریز جو کام کے لوڈ کی وجہ سے 200 تک بھی جا پہنچتی ہیں لیکن لکھی 20 ہی جاتی ہیں اور ایک آپریشن کی اسسٹنٹ چاہئے ہوتی ہے لیکن اس کا حال بھی نارمل کیسز والا ہی ہو جاتا ہے۔
خیر پہلی ڈیوٹی، اکلوتی ہاوس سرجن اور 16 میجر آپریشنز۔ جذبے اور ہمت کی فراوانی۔ اگلی صبح بغیر بریک کے دوپہر دو بجے تک ڈیوٹی اور رات کے داخل شدہ مریضوں کو سنبھالنا۔ دوپہر دو بجے سے شام 7 بجے تک آف ٹائم۔ اس میں آپ کھانا کھا لیں، نیند پوری کر لیں اور نہا دھو کر صاف کپڑے تبدیل کر لیں اور پانچ گھنٹے کے بعد دوبارہ آپ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی پر حاضر ہو جائیں۔ یاد رکھیں جذبہ ختم نہیں ہوتا، ہاں نیند پوری نہیں ہوتی۔ بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کے لئے اگر ڈاکٹر چائے پی لے تو خبر لگتی ہے ’’مریض تڑپ رہا تھا، ڈاکٹر ٹی پارٹی کر رہے تھے‘‘ ایک ایک بیڈ پر چار چار خواتین۔ درد زہ میں مبتلا خواتین محض بیٹھ سکتی تھیں کیونکہ بیڈ تو کم تھے اور رش زیادہ۔ لیبر روم میں، گیلری میں، واش روم میں گویا ہر جگہ ڈاکٹرز بچے پیدا کروا رہی ہوتی ہیں۔
میو بچہ وارڈ ایمرجنسی میں ہر 24 گھنٹے میں تین سو سے چار سو بلکتے تڑپتے شدید بیمار بچوں اور ان کے نہایت پریشان لواحقین سے با اخلاق طریقے سے پیش آنا نوجوان ڈاکٹروں کا ہی کرشمہ ہے لیکن آپ میں سے کوئی تمام دن اور رات اور اگلا دن مسلسل خون، چیخوں کراہوں، موت اور خوف کے درمیان گزارے اور پھر مسکرا کر دکھا دے۔
پرائیویٹ سیٹ اپ میں آپ کا اپنا سسٹم ہوتا ہے۔ کام کے اوقات اپنی مرضی اور مارکیٹ ٹرینڈ کے مطابق ایڈجسٹ کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں آپ اپنے کام کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں اور کسی اور پر یا سسٹم کی خرابی پر الزام دھر کر بری الزمہ نہیں ہو سکتے۔ اس لئے تمام کام نہائیت سخت مانیٹر اور پریسائز ڈیٹیلز کے ساتھ کرنا ہمارے پروفیشنل ازم کا تقاضہ ہے تا کہ پیچیدگیوں کے امکان کو حتیٰ الوسع کم کیا جا سکے۔ نیز معاشرے میں پھل پھول سکنے والی بیماریوں میں کم از کم ہم حصہ دار نہ بنیں۔
اب ہوتا کیا ہے۔ ہم لوگ صبح اٹھتے ہیں تو بچے سکول جا چکے ہوتے ہیں۔ ہمارا دن آفس میں مریضوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ بچے گھر پر آ جاتے ہیں۔ میڈ کھانا دے دیتی ہے۔ ٹیوٹر بچوں کو پڑھا کر چلا جاتا ہے۔ ہم رات میں واپس آتے ہیں تو بچے سوچکے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات 2، 2 دن ہم اپنے سوئے بچوں کو دیکھ کر ان کے معصوم گالوں کو چوم کر اپنی تڑپتی ممتا اور پدرانہ شفقت کو بہلا لیتے ہیں۔ اگر ماں ڈاکٹر نہیں ہے تو کم از کم بچوں کو ماں میسر ہے لیکن ایک مکمل گھر کی تصویر ناممکن اگر نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔
سب کہیں گے کہ ڈاکٹر اپنے لالچ کے لئے پریکٹس کرتے ہیں۔ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ ایک اچھا جنرل پریکٹیشنر معاشرے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جب کسی کی جان بچاتا ہے، جب میرے ذریعہ سے کسی بے اولاد کے گھر قلقاریاں گونجتی ہیں۔ جب بچوں کی ماں اپنے جہاد سے سرخرو ہو کر اپنے گھر کو مکمل کرنے کے لئے اپنے خاندان میں واپس جاتی ہے۔ جب بھی میں یا میرے نامدار کسی گھر کو ٹوٹنے سے بچاتے ہیں۔ کسی خاندانی جھگڑے میں ثالث بنتے ہیں۔ تب ہم فیس کے لئے ایسا نہیں کرتے۔ ہمیں وہ دعائیں تازہ دم کر دیتی ہیں جو ان مطمئن دلوں سے نکلتی ہیں۔ میں بھی سرکاری سیٹ اپ میں پرائیویٹ سیکٹر کو پیسہ بنانے کی مشین جانتی تھی۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ڈاکٹر اگر ایک اچھا اور با ضمیر انسان ہے تو وہ ہر لمحہ جہاد کر رہا ہے۔ ہمارا جہاد ہماری طاقت، جوانی، خاندانی زندگی اور معاشرتی زندگی کی قربانی ہے۔
ذرا سوچیں آپ تمام دن ٹی بی، کینسر، زخم،
درد، ٹوٹی ہڈیوں، بہتے آنسوؤں، پائین سپرٹ اور ملٹی وٹامنز کی بدبو کے ساتھ گزارنے کو پیسہ کمانے کی مشین کہیں گے یا قربانی ؟ اور کیا یہ زندگی آپ اپنے لئے پسند فرمائیں گئے ؟ میں جانتی ہوں کہ میں اسی لئے اس دنیا میں آئی ہوں۔ میرا کام ہی میری عبادت ہے۔ لیکن صاحبان گرامی ! میرے بچے بھی پڑھتے ہیں، روٹی ہمیں بھی چاہئے، سردی گرمی ہمیں بھی لگتی ہے، بجلی کے عادی ہم بھی ہیں سو فیس نہ لیں گے تو امریکی یا برٹش گرانٹ تو ہمیں میسر نہیں۔
اب ایک شکایت اور بھی ہے کہ جنرل پبلک کا رویہ بھی بدل رہا ہے۔ مسیحا کی عزت کم کر کے اسے کاروباری سمجھ لیا گیا ہے اور گورنمنٹ کی پالیسیز بھی پریکٹس فرینڈلی نہیں ہیں۔ میڈیا نے بھی ڈاکٹروں کے سفید پاکیزہ کوٹ کو خون آلود کر کے ڈاکٹر کے سر پر دو لال سینگ اُگا دیے ہیں جیسے ہم ہر مریض کو کند چھری سے ذبح کرنے والے جلاد ہیں۔ ہمارے ہاتھ آپ کے پیپ اور خون میں لت پت ہوتے ہیں، ہماری انگلیاں آپ کے زخم سیتی ہیں، ان پر مرہم رکھتی ہیں اور جب یہ زخم بھر جاتے ہیں تو وہ ہماری ہی آنکھیں ہوتی ہیں جو اسے دیکھ کر سب سے پہلے چمک اٹھتی ہیں اور آپ ہمیں اس کا بدلہ ہمارے دل پر زخم کی صورت دیتے ہیں ! ! !
/ژ/ژ/