زمیں کے لوگ ہوں یا اہلِ عالمِ بالا
ہر اک زباں پہ ہے سبحان ربی الاعلیٰ
ترے قلم کی گواہی مرقّعِ عالم
فضائیں آئنہ ہیں، دل ہو دیکھنے والا
دیے حسین خد و خال تو نے مٹی کو
ترے جمال کے سانچوں نے آدمی ڈھالا
تھماتی مہر کو لیل و نہار کی ڈور
صبا کو سونپ دی آرائشِ گل و لالہ
زمینِ تیرہ کے منھ سے لگا دیا تو نے
مہ و نجوم بھرا آسمان کا پیالہ
پڑھے قصیدۂ وحدت ہجوم کون و مکاں
تو سب کا رب ہے کسی نے تجھے نہیں پالا
مجھے ہی تو نے دیا اختیار لغزش بھی
مجھی پہ اپنی خلافت کا بوجھ بھی ڈالا
اتار کر مرے سینے میں آگہی کے چاند
بصیرتوں کا مرے گرد کھینچ دے ہالا
ہر ایک سانس کو میری بنا چراغ حرم
نہ ہو ذرا بھی مرا نامۂ اعمال کالا