پہنچتا ہے ہر اک میکش کے آگے دور جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا
گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب جھوٹے ، ہے سچا ایک نام اس کا
ہر اک ذرہ فضا کا داستاں اس کی سناتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا آ کے دیتا ہے پیام اس کا
میں کعبہ و بت خانے میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کی اندر ہے مقام اس کا
سراپا معصیت میں ہوں ، سراپا مغفرت وہ ہے
خطا کوشی روش میری ، خطا پوشی ہے کام اس کا