اصلاح و دعوت
خدا کو دل میں بسانا
پروفیسر محمد عقیل
’’میں خدا کو دل میں بسانا چاہتا ہوں۔‘‘۔ اس نے اپنے آپ سے مکالمہ کیا۔’’خدا کو اپنا شریک پسند نہیں ‘‘۔ اسے اندر سے ضمیر کی آواز سنائی دی۔’’لیکن میں تو موحد ہوں ، خدا کو ایک مانتا ہوں ، میں نے کسی بت کے آگے سجدہ نہیں کیا‘‘۔ اس نے جواب دیا۔’’اچھا ، ذرا اپنے دل میں جھانکو کہ اس میں کون کون رہتا ہے۔ کیا اس میں دولت کی لونڈی راج نہیں کرتی؟ کیا انا کا بت سر تان کر نہیں کھڑا ؟ کیا سفلی خواہشات کی دیواریں موجود نہیں؟ کیا حسد و کینہ کی آگ نہیں جل رہی ؟ ‘‘ ضمیر نے تند لہجے میں سوال کیا۔
ابھی وہ جواب سوچ ہی رہا تھا کہ دوبارہ ضمیر نے بولنا شروع کر دیا:
’’تم جب کسی مہمان کو گھر میں بلاتے ہو گھر کی صفائی کرتے ہو، کمرہ خالی کرتے ہو، اسے سجاتے ہو۔ لیکن خدا کو ایسے گھر میں بلا رہے ہو جو گندگی سے بھرا ہے ، جس میں پہلے ہی دنیا نامی اجنبی عورت رہتی ہے ، جس میں چاروں طرف کینہ و بغض کے جالے ہیں ، جس میں انتقام کے سانپ لوٹ رہے ہیں، جس میں ظلم و زیادتی کے بھیڑ ئیے دانت نکوسے کھڑے ہیں۔ ایسے گھر میں تم خدا کو بلاتے ہو؟ کچھ تو حیا کرو‘‘۔
وہ ششدر رہ گیا۔ اسے علم ہی نہ تھا کہ اس نے کیا کر دیا۔ اس نے ہمت کر کے پوچھا:
’’لیکن میں تو نماز، روزہ، حج زکوٰۃ کا پابند۔۔۔‘‘ ابھی اس کا جملہ مکمل ہی نہیں ہوا تھا کہ ضمیر کی چنگھاڑتی ہوئی آواز آئی:
’’اپنی پاکی اپنے پاس رکھو ‘‘۔
وہ بھیگی ہوئی آنکھوں سے واپس لوٹ گیا۔ رات بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا لیکن کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔ وہ وحشت سے گھبرا کر با ہر نکلا تو چار سو اندھیرا تھا، گہرے بادلوں کی وجہ سے سیاہی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے اندر کی سیاہی کالی رات سے زیادہ گہری تھی۔ اچانک اسے بہت رونا آیا، وہ روتا رہا روتا رہا یہاں تک کہ وہ نقاہت کے باعث گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا، آنکھیں پر نم اور پورا بدن نڈھال۔اسی اثنا میں اس ضمیر کی آواز دوبارہ آئی۔’’خدا کو اپنے من میں بسانا چاہتے ہو تو دل کے گھر کو خالی کر دو۔ اس میں سے وحشی درندوں ، پھنکارتے سانپوں ، نامحرم ساتھیوں کو نکال دو۔ اس کے بعد اسے خدا کے خوف سے آراستہ کرو، عبادت کا رنگ و روغن کرو، نوافل کے بیل بوٹے لگاؤ، رحم دلی کی چوکھٹ لگاؤ اورخوش اخلاقی کی شمع روشن کرو۔ پھر اپنے رب کے سامنے دو زانو ہو کر دعا کر و کہ وہ تمہارے دل میں آ کر بس جائے۔‘‘
’’کیا اس طرح خدا میرے ساتھ رہے گا؟‘‘۔ اس نے سوال کیا۔
’’ہاں ، خدا تمہارے ساتھ رہے گا۔ لیکن یاد رکھو، اسے شراکت پسند نہیں ، جونہی اپنے دل میں کسی اور کو بساؤ گے تو وہ دل سے نکل جائے گا۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے ، وہ تنہا بادشاہ ہے وہ تمہارے دل میں مہمان کی طرح نہیں حاکم کی طرح رہے گا، اسی کی بات ماننی ہے ، اس کے منع کرنے پر رکنا اور حکم پر کام کرنا ہے۔ اگر اس کی حکم عدولی کی تو وہ سزا دے گا اور اگر اس کی بات مانتے رہے تو وقت آنے پر وہ کچھ دے گا جس کا تصور نہیں کرسکتے۔‘‘ ہاتف نے جواب دیا۔
اس نے سر اٹھایا تو دور افق کے پار کرنیں نمودار ہورہی تھیں ، اجالا پھیل رہا تھا۔اس نے اپنے باطن میں جھانکا تو علم ہوا کہ اندر بھی تاریکی چھٹنے لگی تھی۔ وہ اٹھا اور اس عزم کے ساتھ اٹھا کہ ایک عظیم ہستی کو دل میں بسانا ہے۔
***