امرتسر شہر کے مشہور قصبے ہوشیار نگر کو جاتے ہوئے راستے میں سکھ زمینداروں کا ایک گاؤں کھاپڑکھیڑی پڑتا ہے۔ اس گاؤں میں ایک سکھ زمیندار کرم سنگھ کافی زرعی زمین کا مالک تھا۔ اس نے گاؤں کی آبادی سے باہر ہی ایک مکان بنا کر رہائش اختیار کررکھی تھی اور تین چار گھر بسا کر اپنی بستی بنارکھی تھی۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور میرے والد بزرگوار مرحوم جو حکیم تھے اور میرا چھوٹا بھائی، ہم تینوں امرتسر سے بساکھی کی منڈی کے بعد اپنے گاؤں راجہ تال کی طرف آرہے تھے۔ ہماری اچھی خاصی زمینداری تھی۔ والد صاحب نے منڈی امرتسر سے ایک عمدہ بیل خریدا اور مشورہ ہوا کہ ہم تینوں بیل کو لے کر پیدل ہی گاؤں کو چلیں ۔چنانچہ تیسرے پہر ہم امرتسر سے روانہ ہوئے شام کے قریب ہم مع بیل کے کرم سنگھ زمیندار کی بستی میں پہنچ گئے والد صاحب اور کرم سنگھ کی کچھ پہلے ہی جان پہچان تھی۔ کہنے لگے کہ آؤ آج رات یہیں ٹھہریں اور تمہیں ایک سکھ مسلمان دکھلائیں۔ہم کرم سنگھ کی حویلی میں پہنچ گئے۔ دو تین جوڑی بیل چند بھینسیں اور اونٹ بندھے ہوئے تھے ہم نے بھی اپنا بیل وہیں باندھ دیا۔ اتنے میں کرم سنگھ بھی باہر آگئے۔ سلام دعا کے بعد ہمارے بیل کو چارہ ڈال کر وہ ہمیں اپنے رہائشی مکان میں لے گئے۔ شام کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ ہم نے نماز پڑھنے کی بات کی تو کرم سنگھ فوراً ایک پیتل کا نیا لوٹا پانی سے بھر کر لے آیا۔ کہنے لگا کہ لو وضو کرو اور یہیں نماز پڑھو۔ ہم ذرا ہچکچائے کہ سکھ کے گھر میں نماز! کرم سنگھ ہماری جھجھک دیکھ کر کہنے لگا کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ میرے گھر میں بہت مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اتنے میں اس کی بیوی بڑے بکس میں سے نئی دھلی ہوئی سفید چادر نکال کر لائی اور کہنے لگی لو اس پاک پوتر کپڑے پر نماز پڑھو۔ پھر چادر ایک صاف ستھرے چبوترے پر بچھادی۔ ہم نماز سے فارغ ہوئے تو کرم سنگھ اپنے مکان میں سے قرآن شریف دوتین رومالوں میں لپٹا ہوا نکال کر لایا اور بڑے ادب سے ہمارے سامنے رکھ دیا۔ کہنے لگا آپ جو کچھ میرے گھر میں دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ اس قرآن شریف کی بدولت ہے۔ جب سے یہ قرآن شریف ہمارے گھر میں آیا ہے تمام تکلیفیں دور ہوگئی ہیں، باہر کھیتوں میں اناج کے ڈھیر لگتے ہیں مال مویشی کی بہتات ہے۔ بھینسوں کا دودھ سنبھالے نہیں سنبھلتا اور گھر میں اناج کی بوریاں بھری رہتی ہیں۔ جب والد صاحب نے اس سے پوچھا کہ یہ برکت والا نسخہ قرآن شریف آپ کے گھر میں کس طرح آیا تو کرم سنگھ کی بیوی نے بتایا کہ سردار جی نے اپنی بستی میں ایک جولاہا بھی بسایا ہوا تھا اس کی لڑکی بیاہی گئی تو وہ اکیلا رہ گیا۔ آخر وہ تھوڑے عرصے بعد بیمار ہوکر مرگیا۔ اس کے گھر کا سامان وغیرہ اس کے رشتہ دار جو دوسرے گاؤں میں رہتے تھے سب لے گئے۔ اس کا کوٹھا جو ہم نے اسے دیا ہوا تھا کافی عرصے تک خالی پڑا رہا۔ عرصے کے بعد ایک دن میں یونہی کوٹھے کے اندر پھررہی تھی کہ کچی دیوار میں ایک طاق میں گردوغبار سے لٹا ہوا ایک بوسیدہ سا رومال نظر آیا جس میں کچھ لپٹا ہوا معلوم ہوتا تھا میں وہ لپٹی چیز اٹھا کر گھر لے آئی گردوغبارجھاڑ کر رومال کھولا تو دیکھا کہ ایک کتاب ہے۔ سردارجی باہر سے آئے تو کتاب دیکھتے ہی کہنے لگے یہ تو مسلمانوں کا قرآن ہے۔ پھر ہم دونوں کو قدرتاً اس قرآن شریف کی طرف زیادہ خیال ہوگیا۔ ہم نے اسے کھول کر ایک ایک ورق کو گردوغبار سے صاف کیا۔ دو نئے ریشمی رومال لاکر ان میں لپیٹا، خوشبو لگائی اور مکان میں اونچی جگہ پر بڑے ادب سے رکھ دیا۔ ہماری شیروار بھینس بڑی کڑوی تھی دودھ دوھنے نہیں دیتی تھی۔ دوسرے تیسرے دن پکڑ کر باندھ کر دودھ نکالتے۔ مگر شام کو آرام سے بھینس نے دودھ دے دیا اور پہلے سے کافی زیادہ دودھ دیا، بھینس متواتر آرام سے، باقاعدہ اور زیادہ دودھ دینے لگی۔ ہمارا قرآن شریف پر یقین پختہ ہوگیا۔ ہم ہر ہفتے قرآن شریف کو نیچے اتار کر رومال کھول کر صاف کرتے۔ خوشبو لگاتے اور ادب کے ساتھ وہیں اونچی جگہ رکھ دیتے تھے۔ اس وقت سے آج تک ہمارا یہی دستور ہے اب ہمارے گھر میں ہن برس رہا ہے۔ اس قدر برکت اور رونق ہوئی ہے کہ کسی چیز کی کمی نہیں رہی۔ یہ برکت والا قرآن شریف مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ ہم ایک لاکھ روپے کی عوض بھی کسی کو یہ نعمت دینے پر تیار نہیں۔ (کاش مسلمان باعمل ہوتے اور اس سکھ کو کوئی سمجھانے والا ہوتا تو وہ یقینا اسلام قبول کر لیتا)