حرکت اور تندرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ متحرک و فعال آدمی بالعموم فائدے میں رہتے ہیں۔ وہ نہ صرف اچھا محسوس کرتے ہیں بلکہ بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ بقرا ط نے کہا تھا کہ اگر اعضائے جسم کو استعمال نہ کیا جائے تو نشوونما صحیح نہیں ہوتی اور بڑھاپا جلد آتا ہے۔
میں آپ کیلئے ایسا نسخہ تجویز کرتا ہوں جس کے استعمال سے آپ بہتر محسوس کریں گے، بے خوابی کم ہوگی، کرب و فکر کا ازالہ ہوگا، بھوک میں کمی آئے گی، وزن کم کرنے میں مدد ملے گی، پٹھوں میں قوت آئے گی، بڑھاپے کی رفتار میں کمی ہوگی، کام کرنے کی اہلیت بڑھے گی، اعتماد صلاحیت میں اضافہ ہوگا، عارضہ قلب اور ذیابیطس کا سدباب ہوگا۔ اس وقت آپ خواہ کیسا ہی محسوس کرتے ہوں، اس وقت آپ اچھا محسوس کرنے لگیں گے۔‘‘اس سے بہتر کیا بات ہوسکتی ہے مگر یہ نسخہ تو بہت گراں ہوگا؟،، ‘‘نہیں! یہ بالکل مفت ہے، یعنی صرف 40-35 منٹ کی روزانہ صبح سویرے تیز قدم سیر۔
صدر امریکہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل جب وہ دو ایوان نمائندگان کے رکن تھے، ہیری ٹرومین کی صحت اچھی نہیں رہتی تھی، آئے دن کی بیماریوں سے تنگ آکر انہوں نے ایوان کے معالج سے مشورہ کیا اس کی ہدایت تھی ‘‘مسٹر ہیری آپ کو چہل قدمی کرنا ہوگی۔،،
اگر لوگ اپنے وقت کا صرف پانچ فیصد حصہ صحت درست کرنے کی مساعی میں خرچ کریں تو انہیں اپنے وقت کا 100 فیصد حصہ شفاخانے اور مرض سے افاقہ حاصل کرنے میں صرف نہیں کرنا پڑے گا۔ ٹرومین نے اس نصیحت پر عمل کیا، انہیں لوگ صبح سویرے چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھتے تھے، ان کا یہ معمول آخر عمر تک رہا اور 83 سال کی عمر پائی۔ امریکی قومی ادارہ صحت کا سربراہ جب موسم درست ہوتا ہے تو دفتر سائیکل پر جاتا ہے۔
ایک طبیب لکھتے ہیں‘‘ مجھے ہمیشہ سے چلنے پھرنے کا شوق رہا ہے۔ مدرسے تک جو نصف ساعت کی مسافت پر تھا، پیدل جایا کرتا تھا، علی گڑھ سے ہوسٹل سے کالج تک کی آمدورفت میں خاصی ورزش ہوجاتی تھی۔ لاہور میں ہوسٹل سے میڈیکل کالج تک صبح، عصر اور رات میں کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر جایا کرتا تھا۔ شام کی روزانہ سیر براستہ مال، لارنس باغ تک اس زمانے کا معمول تھا جس کی دلچسپ یاد آج بھی باقی ہے۔ انگلستان میں پیدل چلنے کیلئے مواقع نکال لیتا تھا اور دور دور تک جایا کرتا تھا۔ اب بھی چلنے کیلئے بہانے تلاش کرتا ہوں۔ اگر دل چسپی لی جائے تو چلنا باعث لطف ہے کہ دل چسپی ذہنی رویے کا نام ہے۔ ورزش کے ساتھ سزا کا تصور نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ اٹھک بیٹھک کرانے سے ہوتا ہے اور جس سے خوف و بیزاری پیدا ہوتی ہے۔،، (ایک طبیب کی یاداشتیں)
عمر کے ساتھ سال خوردگی کی رفتار کا تعلق بھی فعالیت سے ہے۔ مشہور کتاب ‘‘دریائے کوائی کے پل،، میں ایک ایسے کماندار کا ذکر ہے جسے جاپانیوں نے دوران جنگ عظیم دوم ایک تنگ جگہ میں مقید کررکھا تھا۔ ہمیشہ نشینی کی وجہ سے اس کی فعالیت صرف پندرہ دن میں اس قدر کم ہوگئی کہ وہ کھڑا نہیں ہوسکتا تھا کھڑا ہوتا تو چل نہیں سکتا تھا۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اگر کسی حصہ جسم کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ بے کار اور جامد ہوسکتا ہے۔
ورزش اپنی اہمیت میں غذا سے کم اہم نہیں، گو اس کی افادیت سے اکثر لوگ بے خبر ہیں جس طرح محبت کرنے سے محبت میں اضافہ اور کسی کام کے کرنے سے کارکردگی بہتر ہوتی ہے اسی طرح ورزش کرنے سے اہلیت جسم بہتر ہوجاتی ہے۔ ورزش کرنے والے تندرست رہتے ہیں اور بغیر تھکے ہوئے زیادہ دیر تک کام کرسکتے ہیں۔
اول اول 1950ء میں حملہ قلب اور ناگہانی اموات کے سدباب میں ورزش کے مفید اثرات کا علم ہوا۔ یہ ہمیشہ سے معلوم ہے کہ ڈاکیے، ساحلی مزدور اور بڑی موٹرگاڑیوں کے رہدار (کنڈیکٹر) عارضہ قلب میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں ورزش کے ضمن میں ہمارے خیالات و افعال میں انقلابی تبدیلی آئی ہے اورروشن خیال افراد میں اب ورزش طریق زندگی میں شامل ہوتی جارہی ہے جس طرح ذہن کیلئے پڑھنا ضروری ہے اسی طرح بدن کیلئے ورزش اہم ہے۔ مشہور عالمی ماہر قلب پال وہائٹ کے بقول ‘‘جدید طرز زندگی کا سب سے بڑا نقصان ہمیں سڑک سے اٹھا کر موٹرگاڑی میں بٹھانا ہے۔،، اس کا نسخہ صحت ہے: میں ہر شخص کو سائیکل سوار بنانا چاہتا ہوں۔ یہ عارضہ قلب کو روکنے کا اہم طریقہ ہے اگر کوئی شخص روزانہ پانچ میل سیر کرے تو ایک ناخوش آدمی کو اس قدر فائدہ ہوگا جس قدر تمام ادویہ اور علم النفس کے طریقوں سے نہیں ہوسکتا۔،،
ورزش نہ کرنے والوں کے مقابلے میں ورزش کرنے والوں میں ایک سال میں دل ایک کروڑ مرتبہ کم دھڑکتا ہے، کم رفتار سے دھڑکتا ہے اور تھکتا نہیں ہے۔ آہستہ رفتار دل میں خون بھی زیادہ آتا ہے اور ایسا دل اپنا کام بھی زیادہ چابکدستی سے کرتا ہے۔ ورزش سے رگوں کی صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ پٹھوں کی چھوٹی رگوں میں اضافہ زیادہ ہوکر گردش خون اور آکسیجن کی رسد زیادہ ہوجاتی ہے۔ جسم کے تمام پٹھوں میں ورزش کرنے سے توانائی پہنچانے والی خلیاتی خیتی ریزے (مائیو کانڈریا) زیادہ ہوجاتے ہیں اور پٹھوں کی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ورزش کرنے سے کولیسٹرول خون کی سطح درست رہتی ہے خراب کولیسٹرول (ایل ڈی ایل جو عارضہ رگ دل میں اہم کردار کرتا ہے) کم ہوجاتی ہے اس کے برعکس اچھی کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل جو عارضہ رگ دل سے تحفظ فراہم کرتا ہے) زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ مفید اثرات صرف غذائی اصلاح سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ ورزش کرنے سے مضر افراط حلوین (ٹرائی گلیسرائڈ) بھی کم ہوتی ہے۔ خون میں سدے ساخت ہونے کا امکان گھٹتا ہے جس کے نتیجے میں حملہ قلب کے امکان میں کمی آتی ہے۔ چنانچہ عارضہ رگ دل کے سدباب شکایات قلب کی کمی اور عارضہ قلب کے بعد ورزش کی افادیت مسلم ہے۔ روزانہ پابندی سے 40 منٹ تیز قدموں سے سیر کرنے سے عارضہ رگ دل کا خطرہ 30سے 60 فیصد کم ہوجاتا ہے اور ناگہانی اموات کا امکان گھٹتا ہے۔ ورزش سے جسم کی مضافاتی رگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ جن افراد کو چلنے پھرنے سے ٹانگوں میں درد ہوتا ہے آہستہ آہستہ اضافہ کی جانے والی چہل قدمی سے ٹانگوں کے درد میں کمی آسکتی ہے۔