ڈیڑھ سال قبل میری بڑی بہن وفات پاگئیں وہ لاولد تھیں اور ان کے شوہر بھی وفات پاچکے تھے۔ انہوں نے دارالامان سے ایک لاوارث بچی کسی کے ذریعے کئی سال پہلے لی تاکہ ان کی تنہائی دور ہوجائے اور بچی کو بھی سہارا مل جائے۔ان کے بعداس بچی کا دنیا میں کوئی نہ تھا۔ نہ بھائی’ نہ بہن’ نہ والدین اور نہ ہی کوئی چچا تایا۔ (بقول بچی کے وہ بچپن میں گم ہوگئی تھی اس لیے اسے اپنے والدین کے بارے کچھ علم نہیں) یہ بچی دونوں کانوں سے اونچا بھی سنتی ہے۔ مگر پانچ وقت کی نمازی ہے۔ روزانہ تلاوت قرآن اس کا معمول ہے۔ جب میری بہن وفات پانے لگیں تو بار بار میری طرف دیکھتیں اور بچی کا نام لیتی۔ یہاں تک کہ میں نے آگے بڑھ کر بچی کو گلے لگالیا اور آپا سے کہا کہ آپا میں اس کی ذمہ داری لیتی ہوں۔ اسکے بعد میری بہن مطمئن ہوکر خاموش ہوگئیں۔ تین ماہ قبل میرے شوہر بھی فوت ہوچکے تھے۔ میں اپنی بہن کو اپنے پاس لے آئی غرضیکہ کہ اس بچی نے میری بہن کی بے حد خدمت کی اور تین مہینے ان کی بیماری (کینسر) میں ان کے پلنگ کی پٹی سے لگی رہی۔ ان کی ایک آواز پہ بے قرار ہوکر اٹھتی اور ان کو بستر پر ٹٹولنے لگتی۔اتفاق سے یہ بچی آٹھویں جماعت تک پڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اسے نویں اور دسویں جماعت کی کتابیں لے کردیں تاکہ اس کا دل پڑھائی میں لگ جائے۔ دوسری طرف اسے ہم نے گھر کا کام کرنا بھی سکھا دیا۔ اب یہ بچی گھر کا سارا کام سیکھ گئی’ گھر میں چھوٹے بچے بھی اس سے بہت مانوس ہوگئے۔ ایک ماں کی طرح آہستہ آہستہ میں نے اس کی اخلاقی تربیت بھی کرنا شروع کردی یہ بچی بچپن کے حالات کی وجہ سے کچھ زیادہ بولتی تھی۔ میں نے اسے کبھی پیار’ کبھی ڈانٹ کر سمجھایا۔ اس کی عمر 18,17 سال ہوگئی۔اس کیلئے بہت سی جگہ رشتے کی کوشش کی لیکن لوگوں کو لالچ کے سوا اس بچی سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ کوئی مکان مانگتا تو کوئی حیثیت پوچھتا۔ کوئی کہتا ہمیں تو کرایہ کا مکان لے دو۔ (گویا میں ساری عمر کرایہ ہی دیتی رہتی) بہرحال میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا کہ جس نے پیدا کیا ہے وہ اسباب بنائے گا۔ بچی کو بھی میں نے ہر طرح سمجھا دیا کہ دیکھو بیٹا ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے جب اس کا حکم ہوگا تو وہ کوئی سبب ضرور بنادیگا کیونکہ اللہ نے ہر چیز کے جوڑے بھی بنائے ہیں۔ غرض اللہ پر توکل کرلیا اور اس کو بھی صبر اور توکل کی تاکید کی۔ بچی کو ہر نماز کے بعد سورہ بقرہ کی آیت نمبر 136 پڑھنے کو کہہ دیا۔ یقین کریں اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا سنی اور دو مہینوں کے اندر اندر ہی اس کا رشتہ طے پاکر شادی ہوگئی۔ ہوا یوں کہ میری بہو کے رشتہ داروں میں ایک صاحب تھے جن کی شادی کے ایک سال بعد بیوی دوران زچگی چل بسی۔ میری بہو کی والدہ نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے اپنی رشتہ دار سے کہا کہ اگر آپ رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں تو اس طرح ایک بچی میری بیٹی کے سسرال میں موجود ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بچی کے بارے میں سب بتا دیا کہ وہ کانوں سے اونچا سنتی ہے اور دارالامان سے لی گئی ہے اس کا کوئی یارومددگار نہ ہے۔ آپ بیٹے سے مشورہ کرلیں اگر وہ تیار ہو تو ایک گھر بس سکتا ہے۔ بیٹا جو کہ کسی فیکٹری میں معمولی ملازمت کرتاتھا راضی ہوگیا تو انہوں نے رشتہ دیکھنے کی خواہش کی۔لڑکاچونکہ رشتہ میں میری بہوکا چچازاد بھائی لگتا ہے اس لیے ہم نے سوچا دیکھا بھالا بھی ہے اور سب کو اس کے بارے میں علم ہے’ ہاں کردی اور ان کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اب میں نے دل میں خالص نیت کی کہ اے اللہ آپ جانتے ہیں یہ کام میں صرف اور صرف آپ کی خوشنودی کیلئے کررہی ہوں اس میں میرا ذرا بھر بھی فائدہ نہیں اور نہ مجھے کوئی لالچ ہے پس آپ میری مدد فرمائیں۔ خیر جب ہاں کی تو میرے پاس فقط چند سو روپے ہونگے اور آپ یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد یوں آئی کہ میں خود حیران ہوں کہ ہر روز مجھے کہیں نہ کہیں سے پیسے ملتے۔ (میں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا) ہر رشتہ دار نے بند مٹھی میں پیسے پکڑائے۔ ایسے لگتا جیسے پیسوں کی بارش ہورہی ہے۔ ہر روز میں بازار جاتی اور اس کے جہیز کا سامان لے آتی۔ ابھی ایک چیز لاتی تو اگلی چیز کیلئے رقم کا انتظام ہوجاتا۔ ہر رشتہ دارنے بڑھ چڑھ کر اس نیکی میں حصہ ڈالا۔ بڑے بہنوئی نے کھانے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ غرض میں نے کھلے دل سے ہر چیز بنائی’ بہترین کھانا براتیوں کو کھلایا اور لڑکی کی رخصتی کردی۔ اللہ کی مدد یوں تھی کہ میں گھر سے جس کام کیلئے نکلتی اس کیساتھ دو تین کام اور بھی مکمل پاجاتے۔ گویا فرشتے میرا ہر کام کردیتے۔اب وہ بچی اپنے گھر میں خو ش ہے اور میں بھی خوش کہ اللہ نے کس طرح میری مدد فرمائی۔
٭٭٭