جب میں ایک عزیز کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچاتو وہاں کمرہ انتظار میں ایک صاحب کو دیکھاجو اپنی بچی کو لیے بیٹھے تھے بچی کی عمر کوئی چار سال ہو گی او روہ بہت ہی خوبصورت بچی تھی۔ میں نے اس کا نام پوچھا تو اس کے والد نے بتایا کہ نوری۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک ورکشاپ مکینک ہے اور اس کی اہلیہ ہسپتال میں داخل ہیں اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ابھی ایک ہفتہ اور علاج چلے گا۔میں اس کی یہ ساری بات سن ہی رہا تھا کہ نوری نے کہا‘اماں’اور اپنے والد کی طرف دیکھنے لگی ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے میرے اوپراس منظر کا بہت اثر ہوا۔ میں باہر گیا اور ایک دکان سے ایک کھلونا خریدا اور ایک چاکلیٹ کا پیکٹ۔ میں نے نوری کی طرف کھلونا بڑھایا ، اس نے ایک نظر کھلونے کو دیکھا لیکن ہاتھ نہیں بڑھایا۔پھر اپنے والد سے لپٹ گئی اور کہا‘اماں’۔ میں اس کے ضبط پر حیرا ن رہ گیا ۔ پھر میں نے اس کی طرف چاکلیٹ کاپیکٹ کیا ۔ نوری نے پھر غور سے اس کو دیکھالیکن ہاتھ نہیں بڑھایا۔پھر اس نے زور سے کہا ‘اماں’ اور باپ سے لپٹ کر رونے لگی۔ماں کے بغیر اسے نہ کوئی کھلونا اچھا لگتاتھا اور نہ چاکلیٹ۔اس کے والد نے بتایا کہ جب سے اس کی ماں ہسپتال میں داخل ہوئی ہے یہ ایسی ہی ہو گئی ہے ۔ اس کی ساری ہنسی ، اس کی ساری مسکراہٹ اور اس کی ساری شوخی اپنی ماں ہی سے وابستہ ہے ۔اس کا نہ کھیلنے کو دل کر تا ہے اور نہ کچھ کھانے کو۔یہ سن کر اور یہ منظر دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میری زبان سے یہ الفاظ نکلے کاش مجھے بھی اپنے رب سے ایسی ہی محبت ہوتی ۔رات کو میں نے تہجد میں دعا کی، میرے پروردگار نوری کی ماں کو صحت عطا کر او رمجھے کم از کم اتنی ہی محبت دے دے کہ جتنی نوری کو اپنی ما ں سے ہے ۔ ( مرسلہ ابوطارق حجازی )