حضرت بریرۂؓ حضرت عائشہؓ کی باندی تھیں ۔حضرت عائشہؓ نے ان کی شادی حضرت مغیث سے کی تھی ۔حضرت بریرہؓ انتہائی خوبصورت تھیں ۔جب کہ حضرت مغیث اتنے خوبصورت نہ تھے اس لیے آپس میں بنتی نہ تھی۔ حضرت عائشہؓ نے ان کو آزاد کر دیا تھا ۔اور مسئلہ یہ ہے کہ جب منکوحہ باندی آزاد کر دی جاتی ہے تو اسکو اختیار ہوتا ہے نکاح فسخ کرنے کا بھی اور بر قرار رکھنے کا بھی ۔ حضرت بریرہؓ نے اب نکاح فسخ کرنے کا ارادہ کیا اور حضرت مغیث کبھی حضرت صدیقؓ اکبر سے اور کبھی حضرت عمرؓ سے نکاح بر قرار رکھنے کی سفارش کرواتے ہیں ۔لیکن حضرت بریرہ کسی بھی طرح نہیں مانتی ہیں ۔بالآخر حضرت مغیثؓ حضورﷺ کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ یا رسول اللہ جس طرح آپ نے نکاح ہمارا کروایا تھااس طریقہ سے اسے برقرار رکھنے کا بھی حکم بریرہؓکو دیجیے ۔آپﷺ حضرت مغیث ؓ کی محبت دیکھ کر حضرت بریرہ کو طلب کرتے ہیں ۔حضور ؐ نے فرمایا کہ بریرہ نکاح مت توڑو مغیث سے ۔انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ یہ حکم شرعی ہے یا کہ آپ کا مشورہ ۔آپﷺ نے فرمایا یہ ذاتی مشورہ ہے حکم نہیں۔تو حضرت بریرہؓ نے کہا مشورہ ماننا نہ ماننا تو میرے اختیا رمیں ہے اس لیے آپ مجھے نکاح فسخ کرنے دیں اور بالاخر نکاح فسخ کر دیا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جب انبیاء کے سردار کے ذاتی مشورے پر اطاعت واجب نہیں تو ہم اگر ذاتی بات کہیں اور اس پر ضد کریں کہ اس کی اطاعت کی جائے تو یہ کہاں کا دین ہے ؟
محمدعمران علی دارالعلوم مدنیہ لاہور