ہمارے معاشرے کے رستے ناسور، عورتوں پر ہونے ظلم کی سچی داستانیں
عائشہ کی کہانی
(عائشہ کی عمر صرف پندرہ برس ہے لیکن صرف پچھلے چند ماہ میں اس پر گزرنے والے حالات نے اسے بہت بہادر اور عمر سے بڑا بنا دیا ہے۔)
مجھے کچھ نہیں سمجھ آتی کہ کیا ہوا؟ اچانک اتنی ساری مصیبتیں کیسے آگئیں؟ ایسے سب کچھ کیسے بدل سکتا ہے؟ ہم پانچ بہنیں ہیں اور ایک چھوٹا بھائی، حسّام، جو امّی کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔ مجھے ریحانہ باجی بھی بہت یاد آتی ہیں، وہ یوں تو مجھ سے صرف پانچ برس بڑی ہیں لیکن وہ میری دوست بھی تھیں اور بہن بھی۔ پھر خالہ اور سب سے بڑھ کر امّی۔ یہ رمضان سے ایک دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ ہم سب کراچی سے مستقل لاہور جانے والے تھے۔ ابّو لاہور میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر اپنا کام شرع کرنے والے تھے۔ ابّو کراچی کے ایک ادارے میں ڈرائیوروں کے سپروائزر تھے جہاں سے انہوں نے استعفیٰ دیا تھا۔ انہیں وہاں سے بہت عرصہ کام کرنے کی وجہ سے کچھ رقم بھی ملی تھی لیکن وہ زیادہ تر قرض چکانے میں خرچ ہوگئی تھی۔ میری بڑی بہن ریحانہ نے میٹرک کرلیا تھا اور اس کا کالج میں ایڈمشن ہونا تھا۔میں سکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔ مجھے پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا خاص طور پر بائیو(بائیالوجی)۔ سکول میں سپورٹس بھی بہت اچھی لگتی تھیں اور میں دوڑ میں ہمیشہ شامل ہوتی تھی۔ میری تینوں چھوٹی بہنیں سعدیہ، افشاں اور رابعہ بھی سکول جاتی تھیں۔ ہمارے گھر کا ماحول اچھا تھا جیسے سب گھروں کا ہوتا ہے۔ فیملی بڑی تھی گزارا مشکل سے ہوتا تھا لیکن زندگی اچھی ہی گزر رہی تھی۔ امّی ابّو کی سال میں ایک آدھ بار لڑائی بھی ہوجاتی لیکن ایسا تو سب گھروں میں ہوتا ہے۔ میری خالہ کی دو مہینے پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔ ہم ان کے گھر کبھی نہیں گئے تھے لیکن کیونکہ ہم لاہور جانے والے تھے، اس لیے انہوں نے ہمیں اپنے گھر بلایا۔ یہ دو رمضان کی بات ہے۔ روزہ کھولنے اور چائے پینے کے بعد ابّو کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، انہیں چکّر آیا اور وہ تقریباً گر گئے۔ ابّو کا خیال تھا کہ یہ شاید روزے کی وجہ سے ہے۔ پھر انہیں باتھ روم جانا تھا تو خالو انہیں باتھ روم کی طرف لے کر چلے گئے۔ خالو ٹیپ ریکارڈر بہت اونچی آواز میں سنتے تھے اور اس دن بھی ٹیپ بہت اونچا بج رہا تھا۔ ہمیں ابّو کی کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ جب وہ بہت زور سے چیخے تو تب ہم بھاگے اور دیکھا کہ خالو انہیں چھریوں سے مار رہے تھے۔ ہم لوگوں نے بہت شور مچایا اور ابّو کو بچانے کی کوشش کی۔ خالو نے ریحانہ اور امی کو بھی کچھ چھریاں ماریں اور پھر ہم سب کو کچن میں بند کردیا۔ یہ سب اس طرح ہورہا تھا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ بس ایک چیخ و پکار اور بھاگ دوڑ یاد ہے۔ معلوم نہیں کہ میں یہ سب صحیح طرح سے کبھی یاد کر پاؤں گی یا نہیں۔۔۔۔ خالو نے ہمیں دھمکیاں دیں کہ اگر ہم نے کسی کوبتایا تو وہ اپنے بیان میں کہہ دیں گے انہں نے ابّو کو ہمارے کہنے پر مارا ہے۔ ہم اتنے ڈرے ہوے تھے کہ جب ہم نے جاکر ابّو کے قتل کا اپنے ماموں اور نانی کو بتایا تو تب بھی انہیں نہیں بتایا کہ یہ کس نے کیا ہے؟ ابّو کی لاش خالو نے اپنے گھر کے پیچھے قبرستان میں پھینک دی۔ جب پولیس نے خالو کو گرفتار کیا تو خالو نے خالہ، ریحانہ اور امی پر الزام لگایا کہ انہوں نے ابّو کے ان کے اکسانے پر مارا۔ نانی ور ماموں نے گھبرا کر، جن کے پاس ہم اس وقت تھے، ہمیں لاہور بھیج دیا۔ پولیس ہمارا پتہ چلا کر لاہور پہنچی اور ہمیں گرفتار کرکے کراچی سینٹرل جیل لے آئی۔ امّی اور ریحانہ کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ہمیں ماموں اور نانی اپنے ساتھ لے آئے۔
لیکن یہاں ماموں ہمیں بہت مارتے پیٹتے تھے تو ایک دن ہم بھاگ کر امی کو ملنے جیل پہنچے۔ یہاں امی نے جیلر صاحبہ سے بات کی تو انہوں نے ہمیں یہاں (ادارہ پناہ )بھجوا دیا۔
(یہ کہانی مجھی عائشہ اور اس کی بہن افشاں نے ٹکڑوں ٹکڑوں میں بیان کی۔ ان کے لیے اس کہانی کی جزیئات کو یاد کرنا خاصا مشکل تھا اور وہ رو پڑتی تھیں جس کی وجہ سے درمیان کی کچھ تفضیلات حذف ہوگئیں۔)
ہوش آیا تو سارے کپڑے خون سے تر تھے
میرا نام سسوئی ہے۔ میری عمر دس برس کے قریب ہوگی اور میں اپنے ماں باپ کی ایک ہی اولاد ہوں۔ ہم رند بلوچ ہیں اور ہمارے بلوچ جیکب آباد میں ہیں۔ میرے باپ کی بڑے بھائی سے لڑائی ہوگئی تو ہم لوگ ادھر شکار پور میں آگئے۔ جب میں چھوٹی تھی تو کچھ لوگ میرا رشتہ مانگنے آئے۔ وہ شر قبیلے سے تھے۔ میرے ماں باپ نے ان سے کہا کہ جب ہماری بیٹی بالغ ہوگی تو ہم اس کا ہاتھ تمہیں دے دیں گے۔ بعد میں وہ پھر آئے، وہ تین لوگ تھے، انہوں نے میرے ماں باپ کو مارا اور مجھے اٹھا لیا۔ وہ مجھے ایک جگہ لے آئے اور یہاں ایک گلاس میں نشے کی گولیاں ڈال کر مجھے پینے کو کہا۔ جب میں نے انکار کیا تو انہوں نے مجھے مارا۔ پھر میں نے پی لیا۔ صبح جب مجھے ہوش آیا تو میرے سارے کپڑے خون سے تر تھے۔ مجھے تقریباً بیس دن وہاں رکھا۔ جب میری ماں آتی تھی تو اسے بولتے تھے کہ تم آؤ گی تو چپ کرکے آؤ۔ بیٹی کے کپڑے دھو کے جاؤ۔ زیادہ بکواس کی تو تمہاری بیٹی کو مار ڈالیں گے، تمہیں بھی مار ڈالیں گے۔ میری ماں اور باپ بہت مجبور ہوئے۔ پھر انہوں نے شکار پور میں کیس داخل کروایا۔ پولیس آئی اور پولیس نے مجھے ان لوگوں کے گھر سے نکال لیا۔ پھر میں کورٹ پہنچی اور جج نے مجھے اپنے ماں باپ کو دے دیا۔ جج نے میرے باپ کو بولا جاؤ، ضامن لے آؤ، بیٹی تمہاری ہے۔ میرا باپ ضامن لینے گیا تو واپس نہیں آیا۔ اسے انہوں نے مارا۔ جج نے ہمیں سینٹر (ادارہ پناہ )بھیج دیا۔ دس دن بعد میرا باپ واپس کراچی پہنچا۔ ابھی تک میرا کیس ختم نہیں ہوا۔ میری ایک وکیل ہے جو مجھے لینے آتی ہے اور اسی نے مجھے یہاں پہنچایا ہے۔ وہ جب شکار پور کیس پر جاتی ہے تو جج کہتا ہے کہ ابھی کیس ختم نہیں ہوا۔ ان میں سے دو جیل میں ہیں اور تیسرا روپوش ہے مگر میرے ماں باپ کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ جب ہم باہر آئیں گے تو تمہیں مار ڈالیں گے، ان کا سردار ایک ڈاکٹر ہے، وہ بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔ جب ہمارا کیس ختم ہوگا تو میرا باپ لینے آئے گا، تب جاؤں گی اور کسی کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ پھر میں دور چلی جاؤں گی۔ ’ (سسی بالکل بچی سی ہے لیکن اس کا اعتماد حیرت انگیز ہے۔ اپنی کہانی بیان کرتے وقت اس کی ماں اس کے ساتھ تھی اور وہ بار بار روپڑتی جبکہ سسوئی اسے حوصلہ دیتی رہتی۔)
تاروں کے کوڑے بنا کر مارتا تھا
میرا نام سلطانہ ہے اور میری عمر چونتیس سال ہے۔ میرے تین بچے ہیں جو یہاں ‘پناہ’ میں میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ میرے ابو نہیں تھے اور نہ ہی کوئی بھائی۔ بس ایک بہن ہے اور بہنوئی بھی بہت سخت ہے۔ وہ بے چاری بھی مجبور تو اس لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ امی میری بھی اب معذور ہوگئی ہیں۔ ان کے بازو میں رسولی تھی، آپریشن کروانا پڑا۔ میرا سسر میرا رشتہ لے کر آیا تھا۔ (شوہر) بچپن سے ہی ہیروئن پیتا تھا مگر ہمیں پتہ نہیں تھا۔ ہم نے ان کے رشتہ داروں سے معلومات کی تھی مگر انہوں نے کچھ نہ بتایا۔ شادی کے تیسرے دن سے ہی مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ اتنا مارتا تھا کہ جو بھی بولتا میں مان جاتی تھی۔ تاروں کے کوڑے بنا کر اس سے مارتا تھا۔ جب دس مہینے بعد میری بیٹی ہوگئی تو اس کے بعد نشے کا پتہ چلا۔ تب دھمکیاں دیتا تھا کہ میں یہ بیٹی لے لوں گا تم سے۔ میرا شوہر ہیروئن پیتا ہے، ٹیکے لگاتا ہے۔اس کا بہت علاج کروایا ہے میرے سسر نے، مگر اس کے جسم میں وہ دھنس گیا ہے، اگر چھوڑے تو مرجائے گا۔ وہ مجھے مارتا تھا، تشدد کرتا تھا۔ گھر کی چیزیں بیچتا تھا۔ فرنیچر، زیور سب بیچ دیا۔ پھر میرے شوہر نے کہا کہ اپنی امی سے پیسے لا کر دو۔ پھر میں بھاگ گئی۔ میں پانچ سال سے امی کے گھر میں تھی۔ پھر جرگے وغیرہ ہوئے۔ میں سسرال ایبٹ آباد چلی گئی۔ میں نے سوچا کہ چلو یہ تو کچھ نہیں کماتا، شاید ساس سسر سر پر ہاتھ رکھ لیں۔ وہاں ساس ہر وقت سسر سے لڑتی تھی کہ ہمارے بچے خود بھوک سے مر رہے ہیں تو ہم انہیں کہاں پالیں۔ ہر وقت طعنے دیتے تھے، نندیں بچوں کو بھی مارتی تھیں۔ پھر میرے شوہر نے بولا کہ میں تمہیں سنبھالوں گا۔ ہم علیحدہ ہوگئے لیکن نہ وہ کما کے لائے نہ کچھ۔ بچے بھوک سے مریں۔ سسر سے میں نے بولا کہ مجھے راشن دے دیں تو ساس اس سے لڑنے لگ گئی کہ بیٹا خود دے مگر بیٹا کیا دیتا، وہ مارتا، بجلی کے کرنٹ لگاتا کہ ادھار مانگ کے لاؤ۔ ماموں کے گھر سے لاؤ۔ کراچی میں میرا کچھ فرنیچر بچ گیا تھا۔ کہنے لگا کراچی چلو، فرنیچر دو۔ میں نے سوچا میں لا کے دے دوں تو بھی تھوڑے دن کھائے گا پھر تنگ کرے گا۔ ماموں کے گھر میرا ایک سونے کا سیٹ رکھا تھا، اسے پتہ تھا۔ میں نے کہا اچھا مجھے میرے ماموں کے گھر چھوڑ دو، وہاں سے میں لا کے دوں گی۔ وہ مجھے چھوڑ گیا تو پھر وہاں سے میں چھپ کے یہاں کراچی آگئی۔ دوسرے دن پیچھے سے آگیا کہ میں تمہیں قتل کردوں گا، بچوں کو اغوا کرکے لے جاؤں گا، بیچ دوں گا، ماردوں گا مگر تمہیں نہیں دوں گا تو پھر میں نے ‘مددگار’ والوں کو فون کیا اور انہوں نے یہاں پناہ میں مجھے بھجوایا۔پھر میں نے کیس کیا۔ جب ان کے ہاں عدالت سے نوٹس گیا تو پھر انہیں پتہ چلا لیکن غائب ہوگیا۔ عدالت میں پیش نہیں ہوتا۔ اب عدالت نے کہا ہے کہ ہم اخبار میں نوٹس دیں گے۔ اگر نہ آیا تو ہم تمہیں یک طرفہ فیصلہ دے دیں گے۔ ورنہ پستول بھی ہے اس کے پاس۔ پچھلی بار آیا تھا تو بڑی بیٹی کو لے کر چلا گیا تھا۔ میں چاہتی ہوں طلاق ہوجائے، چلو میں کسی طرح محنت کرکے خود کو اور بچوں کو پال لوں گی لیکن اس کا حق نہ رہے ورنہ وہ کبھی بھی لے کر چلا جائے گا اور خدا جانے کیا کرے گا۔
(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)