جواب۔ صدر الشریعہ فرماتے ہیں، رسوم کی بنا عرف پر ہے، یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ شرعاً واجب ہے یا سنت یا مستحب ہیں لہذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو اس وقت تک اسے حرام یا ناجائز نہیں کہہ سکتے ، مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اس حد تک کر ے کہ کسی حرام فعل میں مبتلا نہ ہو۔ بعض لوگ اس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے توبھی پرواہ نہیں مگر رسم کا چھو ڑنا گوارہ نہیں۔ مثلا لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہوگا کہ رسمیں چھوڑدیں اورنکاح کردیں کہ سبکدوش ہوں اور فتنہ کا دروازہ بند ہو۔ اب رسوم کے پورا کرنے کو بھیک مانگتے ، طرح طرح کی فکریں کرتے ہیں اس خیال میں کہ کہیں سے قرض مل جائے تو شادی کریں۔ برسوں گزار دیتے ہیں ا ور یوں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ (بہار شریعت حصہ ہفتم ص ۹۶)اب ہم ان امور کا جائزہ لیتے ہیں جو سوال میں مذکور ہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے رسوم کے متعلق دو اہم قواعد بیان فرمائے ہیں۔ جن کا سمجھنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، شرع شرف کا قاعدہ ہے کہ جس چیز کو خدا اور رسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے برا فرمائیں وہ بری ، اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع میں نہ اسکی خوبی بیان ہوئی نہ برائی، وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل و ترک میں ثواب نہ عتاب۔ دوم۔ کسی سے مشابہت کی بنا پرکسی فعل کی ممانعت اسی وقت صحیح ہے کہ جب فاعل کا ارادہ مشابہت کا ہو، یا وہ فعل اہل باطل کا شعار و علامت خاصہ ہو۔ جسکے سبب وہ پہچانے جاتے ہوں۔ یا اگر خود اس فعل کی مذمت شرع سے ثابت ہو تو اسے برا کہا جائے گا ورنہ ہر گز نہیں ،اور پھولوں کا سہرا ان سب باتوں سے پاک ہے لہذا جائز ہے۔ دولہا دلہن کو ابٹن لگانا، مائیو بٹھانا جائز ہے۔ (بشرطیکہ کوئی اور خلاف شرع امور جیسے گانا بجانا اور نا محرموں سے اختلاط وغیرہ نہ پائے جائیں)۔ دولھا کو مہندی لگانا، نا جائز ہے اور ریشمی کپڑے پہننا پہنانا حرام ہے۔ (بہار شریعت حصہ ہفتم ۱۷)فی زمانہ صرف مہندی کی رسم پر لاکھوں خرچ کردیے جاتے ہیں جوکہ اسراف و حرام ہے۔ پھر اس موقع پر عورتوں کا بن سنور کر بے پرد ہ نا محرموں کے سامنے آنا حرام مزید یہ کہ گانا بجانا ہوتا ہے وہ بھی حرام ستم بالائے ستم یہ کہ ان تمام خرافات کی وڈیو فلم بنائی جاتی ہے تاکہ بے پردہ عورتوں کے ناچ گانے اور دیگر بے حیائیاں جب دل چاہے دیکھی جائیں، ظاہر ہے کہ یہ ویڈیو فلم بنانا اور بنوانا بھی حرام و سخت گناہ کا باعث ہیں۔ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، نکاح کے اعلان کی خاطر بندوق سے چند فائر کرنا جائز ہے۔ جبکہ کھیل کود یا فخر و مستی کے طور پر جائز نہیں۔ آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برات میں رائج ہے بیشک حرام ہے اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا، ارشاد ہوا، ( اور فضول نہ اڑا ، بیشک (مال) اڑانے والے سیطانوں کے بھائی ہیں)۔ (بنی اسرائیل) شیخ عبد الحق محدث دہلوی، ماثبت بالسنہ میں فرماتے ہیں ، (ہندوستان کے اکثر شہروں میں لوگ کھیل تماشے کے لیے آتشبازی کرتے ہیں اور پٹاخے چھوڑتے ہیں، یہ بہت بری بدعتوں میں سے ہے)۔ ناچ اور گانے بجانے کی رسم کے متعلق صدر الشریعہ مولانا امجد علی قادری قدس سرہ فرماتے ہیں، اکثر جاہل گھرانوں میں رواج ہے کہ محلہ کی یا رشتہ دار عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے۔ اول ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا ، مزید برآں عورتوں کی آواز نا محرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور وہ بھی عشق و ہجر و وصال کے اشعار۔(بہار شریعت حصہ ہفتم ص ۰۷)شیخ الاسلام اعلی حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں، ایک ناپاک ملعون رسم جو بے تمیز احمق جاہل گھرانوں نے ہندوؤں سے سیکھی یعنی فحش گالیوں کے گیت گوانا اور مجلس میں حاضر مرودوں اور عورتوں کو لچھے دار سنانا، سمدھیانہ کی عفیف پاکدامن عورتوں کو زنا کے الفاظ سے تعبیر کرنا کرانا خصوصا اس ملعون بے حیا رسم کا عورتوں کے مجمع میں ہونا، ان کا اس ناپاک فاحشہ حرکت پر ہنسنا قہقہے اڑانا، اپنی کنواری لڑکیوں کو یہ سب کچھ سنا کر بد لحاظیاں سکھانا ، بے حیا بے غیرت خبیث بے حمیت مردوں کا اس شہدے پن کو جائز رکھنا، کبھی برائے نام لوگوں کے دکھاوے کو جھوٹ سچ ایک آدھ بار جھڑک دینا مگر قطعی بندوبست نہ کرنا۔ یہ وہ گندی و مردود رسم ہے جس پر اللہ عزوجل کی صد ہا لعنتیں اترتی ہیں، اس کے کرنے والے، اس پر راضی ہونے والے، اس کی مناسب روک تھام نہ کرنے والے سب فاسق و فاجر، مرتکب کبائر ، مستحق غضب جبار و عذاب نار ہیں۔ جس شادی میں ایسی حرکیتں ہوں مسلمانوں پرلازم ہے کہ اس میں ہر گز نہ شریک ہوں ، اگر نادانستہ شریک ہوگئے ہوں تو فوراً اسی وقت اٹھ جائیں اور اپنی بیوی بیٹی ماں بہن کو گالیں نہ دلوائیں، فحش نہ سنوائیں ورنہ یہ بھی ان ناپاکیوں میں شریک ہونگے اور غضب الہی میں حصہ لیں گے۔ (والعیاذ باللہ تعالی) ہرگز ہرگز اس معاملہ میں حقیقی بہن بھائی بلکہ ماں باپ کی بھی رعایت و مروت روا نہ رکھیں کیونکہ (خدا کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری نہیں)۔ناچ کے متعلق صدر الشریعہ رقمطراز ہیں ، ناچ میں جن فواحش و بدکاریوں اور محزب اخلاق باتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ ان کے بیان کی حاجت نہیں۔ ایسی ہی مجلسوں میں اکثر نوجوان آوارہ ہو جاتے ہیں، دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں، بازاریوں سے تعلق اور برے برے نتائج رونما ہوتے ہیں اگر کوئی ان بدکاریوں سے محفوظ رہا تو اتنا تو ضرو ر ہو تا ہے کہ حیا و غیرت اٹھا کر طاق پر رکھ دیتا ہے۔ (بہار شریعت ، ہفتم ص ۱۷)مذکورہ بالا ناجائز رسموں کو ایسا لازم سمجھ لیا گیا ہے کہ گویا ان کے بغیر شادی ہی نہ ہوگی۔ صدر الشریعہ رقمطراز ہیں، ناچ ، باجے اور آتشبازی حرام ہیں، کون انکی حرمت سے واقف نہیں مگر بعض لوگ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بیباک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ حرام کام نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازہ سے تعبیر کرتے ہیں (خدا کی پناہ) یہ خیال نہیں کرتے کہ بری رسم ایک تو گناہ اور شرعت کی مخالفت ہے دوسرے مال ضائع کرنا ہے تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے گناہوں کے مجموعہ کے برابر اس اکیلے پر گناہ کا بوجھ ہے (کہ اگر یہ اپنے گھر گناہوں کے سامان نہ پھیلاتاتو آنے والے ان گناہوں میں مبتلا نہ ہوتے)۔
(حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمیؒ)