٭ مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب ‘‘شوام ظرفاء ’’میں شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اْن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مْلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے سفید ڈاڑھی والے شیخ بھی کمشنر کے بالکل آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ کمشنر کی میز پر اْس کے دائیں طرف اْسکی بیوی اور بائیں طرف اْسکی بیٹی بیٹھی ہوئی تھیں۔ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھامگر اس نے چڑانے کے لیے شراب منگوائی ، اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اْنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چْسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں۔کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے ؟ضیافت میں موجود ہر شخص خاموش تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے ۔مگر اس شیخ صاحب کے نہ تو کھانے سے ہاتھ رْکے اور نہ ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا ۔کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ جس طرح شراب انگور سے نکلی ہے اسی طرح یہ تیری بیٹی تیری بیوی سے نکلی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اْٹھانے کا حْکم دے دیا تھا۔٭
(مرسلہ ، احمد علی بخاری، لاہور)