حضرت خواجہ خان محمدؒ اجتماعات کی صدارت فرمایا کرتے آخر میں دعا فرما دیتے باقی سارا وقت گردن جھکا کر بیٹھے رہتے۔ کوئی بلاتا تو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ کسی مقرر کا بیان سنتے ہوئے کبھی کبھی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لیتے یا مجمع کی طرف اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لیتے۔
مفتی منیراحمد اخون جو عرصہ بیس سال سے نیویارک میں مقیم ہیں وہ مولانا یوسف لدھیانویؒ کے داماد ہیں۔ بنوری ٹاؤن کے فارغ التحصیل ہیں انہوں نے مجھے حضرت خان محمد ؒ کی خاموش خطابت کا عجیب واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ دارالعلوم نیو ٹاؤن میں حضرت خواجہ صاحب کی تشریف آوری ہوئی۔ ہم طالب علموں نے ان کا بہت نام سنا تھا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر تھے ہم نے سوچا آج زبردست بیان ہو گا ہم بہت خوش تھے۔ حضرت کی ولایت کی پوری دنیا میں دھوم تھی ہم نے سوچا کہ ایک تو ولی اللہ کا چہرہ دیکھیں گے دوسرا علمی بیان سن کر اپنے علم میں اصافہ کریں گے۔حضرت کو مسجد کے صحن میں کرسی پر بٹھا دیا اور ہم دورے کے طلباء کو انکے سامنے بیٹھنے کا حکم ہوا۔ ہم ادب سے چپ چاپ بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ حضرت کا غنچہء لب اب کھلے گا’اب لب کُشا ہونگے ’اب کچھ ارشاد فرمائیں گے۔ ہم طالب علم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے اور پھر حضرت کی طرف نظر اٹھاتے۔ کافی دیر بعد طالب علموں کی طرف آنکھ اٹھائی اور صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ جو ہماری خموشی سے مستفید نہیں ہوتا ہمارے تکلّم سے کیا فائدہ اٹھائے گا۔اور پھر گردن جھکا لی۔اتنے میں مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا ہم اٹھنے کو ہی تھے کہ سب طالب علموں پر ایک عجیب رقت طاری ہوئی۔ سب رونے لگے سب کے دل ایسے ہلکے ہوئے کہ جیسے کوئی غم کوئی فکر تھی ہی نہیں۔ اللہ اور رسول کی محبت سے دل لبریز ہو گئے اذان تک ہم سب ایک دوسرے سے گلے مل مل کے بس روتے رہے۔
اللہ جانے اللہ والوں کی خاموش نگاہی میں کیا تاثیر ہوتی ہے۔لالہ نجیب احمد حضرت خواجہ کے صاحبزادے ہیں انہوں نے بابا جی کی خاموش کرامت کا ایک اور عجیب واقعہ بھی سنایا۔
فرماتے ہیں 2007کی بات ہے 11 بجے دوپہر کا وقت’ میں باباجی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ حکیم سلطان محمود جو حضرت کے خادم تھے آئے اور مجھے کہا لالہ جی ایک بڑی'' مَیم'' ٹائپ سی خاتون اور ایک بڑے ‘‘صاحب’’ ٹائپ سے صاحب آئے ہیں۔ بابا جی کو ملنے سے قبل آپ اُن سے مل لیں۔ میں نے کہا ساتھ والے کمرے میں بٹھائیں۔ اس نے بٹھا دیا میں جب ان سے دوسرے کمرے میں ملنے گیا تو دیکھا خاتون بہت ہی ماڈرن ہیں اور جینز شرٹ میں ملبوس ہیں برہنہ سر ہیں۔ کہنے لگیں میں کینیڈین نیشنل ہوں وہیں رہتی ہوں’ یہ میرا حُلیہ ’یہ میرا مغربی لباس اسی کلچر کی عطا ہے۔اسوقت لاہور سے آ رہی ہوں مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے جس کے حل کے لئیے بابا جی سے دعا کروانی ہے۔مجھے پتہ چلا ہے کہ ان بابا جی کی ہر دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے اس لیے آئی ہوں۔ میں نے کہا بتائیں کیا مسئلہ ہے۔خاتون نے کہا میں شادی شدہ عورت ہوں میرا شوہر اس وقت کینیڈا میں ہی ہے جو مجھے بالکل پسند نہیں اور یہ جو میرے ساتھ ہیں ان کو مجھ سے اور مجھے ان سے شدید محبت ہے میں چاہتی ہوں کہ میرا شوہر مجھے طلاق دے دے اور میں ان سے شادی کرلوں۔میں نے خاتون سے کہا اس طرح تو بابا جی سے میں بات نہیں کر سکتا بس اتنا عرض کروں گا کہ ان کو کوئی شدید مشکل درپیش ہے دعا کریں اللہ پاک حل کر دے۔میں نے خاتون سے کہا آپ کے پاس بیگ میں دوپٹہ یا چادر ہے تو وہ اوڑھ لیں اس نے کہا میرے پاس تو نہیں ہے میں نے اپنے گھر سے ایک چادر منگوا کر اس کو کہا آپ یہ اچھی طرح سر اور بدن پر لپیٹ لیں۔میں ان دونوں کو بابا جی کی خدمت میں لے گیا اور عرض کیا کہ اس خاتون کو کوئی مشکل پیش ہے دعا کے لئے حاضر ہوئے ہیں ۔باباجی کو جب دعا کے لئے کہا جاتا تو ان کی عادت تھی آپ فرماتے اللہ رحم کرے گا اللہ آسانیاں کرے گا۔ لیکن میں نے جب اس خاتون کیلئے دعا کا کہا تو بابا جی خاموش رہے جواب نہیں دیا۔ میں نے دوسری مرتبہ عرض کیا بابا جی ان کی مشکل کے حل کے لئیے دعا کر دیں بابا جی نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے تیسری مرتبہ عرض کیا تو بابا جی نے اُس خاتون پر نظر ڈالی مگر خاموش رہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ بابا جی پر خاتون کے حالات منکشف ہو گئے ہیں اور معلوم ہو چکا ہے کہ اصل ماجرا کیا ہے اس لیے دعا نہیں فرمائی۔ میں نے انہیں اٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ لوگ چلے گئے اس خاتون نے جاتے وقت مجھ سے میرا فون نمبر مانگا میں نے اس کو دے دیا۔۷ یا۸ دن بعد مجھے کال آئی دوسری طرف ایک عورت تھی اس نے پوچھا’ آپ نجیب صاحب بول رہے ہیں میں نے کہا جی میں نجیب احمد ہی ہوں۔اس نے پوچھا مجھے آپ نے پہچانا یا نہیں۔میں نے کہا نہیں پہچانا آپ بتائیں کون ہیں۔ اس نے کہا میں وہ کینیڈا والی بی بی ہوں جو ہفتہ پہلے بابا جی سے دعا کروانے آئی تھی آپ نے میری ملاقات کرائی تھی میں نے کہا جی پہچان لیا۔لالہ جی کہتے ہیں میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ کہے گی میرا کام ہوگیا ہے میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے۔جب اس نے ساری بات بتائی میں حیران رہ گیا۔ اس نے کہا جب بابا جی نے میری طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو میرے دل کی کیفیت اُسی وقت عجیب ہونے لگی لاہور پہنچنے تک میرے دل کا حال مکمل بدل چکا تھا۔جس سے میں محبت کرتی تھی اور جس سے شادی کرنا چاہتی تھی اور اتنا لمبا سفر طے کر کے بابا جی سے ملنے اوردعا کروانے آپ کے پاس آئی تھی ۔بابا جی کی ایک نگاہ نے میرے دل کی دنیا بدل ڈالی مجھے اس بندے سے نفرت ہونے لگی۔ لاہور پہنچنے تک میں مکمل بدل چکی تھی اور میں نے فوراً واپسی کی ٹکٹ کرائی ۔واپس کینیڈا آ گئی اور اپنے شوہر ساس اور سسر کو اکھٹا کیا ساری بات بتائی ان سب سے معافی مانگی۔ شوہر سے کہا میں نے سچّی توبہ کرلی ہے اب آپ کی مرضی ہے آپ مجھے معاف کر کے رکھنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے میری خوش قسمتی ہو گی اور اگر آپ کا دل مطمئن نہیں تو میں اپنا معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑتی ہوں۔شوہر نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے آپ نے سچی توبہ کرلی ہے تو مجھے آپ سے بڑھ کر اور کون ہے لہذا اب میں بہت خوش ہوں۔وہ پھر کینیڈا سے آئی بابا جی سے بیعت کی اور اپنی زندگی دِین کے مطابق گزارنے لگی سچ ہے کہ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خاموش لوگ بلا کے خطیب بوتے ہیں۔
ایک واقعہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رح کی خاموش تقریر کا بھی سن لیجے۔
میرے والد بزرگوار نے اپنے شہر شیخوپورہ میں 1953 کی تحریک کے بعد ختم نبوت کانفرنس منعقد کی۔اس میں خطیبِ خوش اِلحان مولانا لقمان علی پوری کو بھی دعوت دی تھی۔انہوں نے کذّابِ قادیان کو جوشِ خطابت میں اُلّو کا پٹّھا کِہہ دیا۔قادیانی جماعت نے اُن کے خلاف 16 MPO کے تحت تھانہ میں مقدمہ درج کروا دیا۔
والد صاحب نے عدالت سے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی۔ عدالت نے ضمانت کنفرم کروانے کے لیئے مولوی صاحب کو سیشن کورٹ میں آنے کی تاکید کے ساتھ مرزا قادیانی کو الو کا پٹھا ثابت کرنے کے لئیے دلائل پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔ابا جی فرماتے ہیں میں نے ملتان سے مجلس تحفظ ختم نبوت والوں سے ایک مُبلّغ مع کُتبِ حوالہ جات مقررہ تاریخ کو عدالت بھیجنے کی درخواست کی۔ دوسرا میں نے لاہور جا کر حضرت لاہوریؒ سے گزارش کی کہ اگر فتویٰ کی ضرورت پڑی تو آپ مرزا کے کُفر کا فتویٰ دے دیجے ہم آپ کو لے جائیں گے اور واپس لاہور بھی پہنچا دیں گے۔حضرت نے فرمایا میں اپنے طور پر اس تاریخ کو صبح سیشن کورٹ شیخوپورہ حاضر ہو جاؤں گا۔چنانچہ وہی ہواحضرت بھی تشریف فرما ہو گئے مُبلّغ صاحب بھی کتابیں لے کر رات وکیل کی تیاری کروانے آ گئے ۔مولانا لقمان بھی کورٹ پہنچ چکے تھے۔کارروائی شروع ہوئی قادیانی وکیل اور ان کی جماعت کے سارے عہدیدار موجود تھے اِدھر میں حضرت لاہوری اور مبلّغِ ختم نبوت اپنے وکیل کے ساتھ حاضر تھے۔ہمارے وکیل نے مرزا کی کتاب کا حوالہ نکالا اور کہا کہ ہمارے مخالف وکیل اپنے نبی کی کتاب میں درج اس عبارت کو صرف پڑھ کر سنا دیں۔ قادیانی وکیل نے مرزا کی عبارت دیکھی تو ماتھے پر پسینہ آگیا اور بولا میں نہیں پڑھ سکتا ان کے امیر جماعت سے کہا آپ پڑھ دیں اس نے تحریر دیکھی تو وہ بھی پریشان ہوا اور کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔حضرت لاہوری سامنے کرسی پر تشریف فرما تھے اور کارروائی پر نظر تھی۔جج نے کڑک کے پوچھا آپ کے نبی کی کتاب ہے اور آپ اس کتاب کی عبارت کیوں نہیں پڑھتے پھر اس نے ہمارے وکیل کو کہا یہ تو پڑھنے سے انکاری ہیں آپ ہی پڑھ دیں مگر کوئی نہ مانا اور جج صاحب وہ کتاب خود پکڑ کر پڑھنے لگے دو ایک جملے پڑھے تھے کہ حالت دیدنی ہو گئی اور حیرت و تعجب سے بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا لا حول ولا قوِۃ الا باللہ عجیب پاگل شخص تھا اُلو کا پٹّھا’ابا جی کہتے ہیں ہمارے وکیل نے جَھٹ کہا جناب میرے موکل مولانا لقمان علی پوری نے بھی یہی الفاظ کہے تھے۔سیشن جج نے اسی وقت ضمانت پکی کر دی۔نہ مزید حوالوں کی ضرورت پڑی نہ کتابوں کی نہ حضرت کے فتویٰ کی۔حضرت لاہوری نے جج پر خاموشی سے توجہ ڈال دی پھر اس کی زبان سے اللہ تعالٰی نے وہی الفاظ نکلوائے جو مولانا نے تقریر میں ادا کئیے تھے۔
حضرت لاہوری رح کا دوسرا واقعہ بھی اسی روز کا ہے والد صاحب مرحوم کی خواہش تھی کہ شیخوپورہ کی سب سے بڑی مسجد کے خطیب مولانا سید امین الحق کو حضرت شیخ سے ملواؤں تاکہ وہ انہیں ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنے پر آمادہ کریں اور ہمارے ساتھ عملی تعاون کریں۔مولانا اگرچہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ اور ڈابھیل میں محدث عصر علامہ انور شاہ ؒ کے شاگرد رہے تھے ۔علامہ شمس الحق افغانی کے ہم سبق تھے اس کے باوجود طبیعت میں جُبن تھا’جیل سے ڈرتے تھے فرماتے میں کُکڑ (مرغ) کھانے والا مولوی ہوں مجھ سے جیل کی پالک اور مسُور کی دال نہیں کھائی جاتی۔محکمہ اوقاف کے تحت جب ان کی مسجد آگئی تو اور زیادہ احتیاط برتنے لگ گئے۔ڈسٹرکٹ کے بعد صوبائی خطیب بنے
ابا جی نے کہا حضرت لاہوری آ رہے ہیں آپ ان سے مِلیں وہ کہنے لگے امین چھوڑو تم بھی جس مولوی کی جتنی لمبی ڈاڑھی دیکھتے ہو اتنا بڑا پِیر مان لیتے ہو۔میں نے اطلاع بھجوائی ہم کورٹ سے فارغ ہو چکے ہیں ابھی آپ کے پاس پہنچنے والے ہیں چائے کی تیاری کر لیں۔ادھر ابا جی نے حضرت سے مولانا کا تعارف کروا دیا تھا۔خیر میں حضرت کو لے کر پہنچا تو مولانا کو محوِ انتظار پایا۔مولانا پٹھان تھے ضلع مردان میں قصبہ طورو سے تعلق تھا 1936میں شیخوپورہ میں آکر آباد ہو گئے تھے۔مولانا نے دورانِ چائے نوشی اپنا ایک خواب سنایا جس کی تعبیر کئی مہینوں سے مختلف بزرگوں سے پوچھتے رہے مگر تسلی نہ ہوئی۔حضرت لاہوری سے دریافت کی تو انہوں نے فوراََ اس خواب کی وہ تعبیر بتائی کہ انکا شرحِ صدر ہو گیا اور تعبیر سُنتے ہی رونے لگے ہِچکی بندھ گئی اور قدموں میں گِر پڑے۔والد صاحب کہتے ہیں مَیں حضرت کے پہلو میں تھوڑا پیچھے
ہٹ کر بیٹھا ہوا تھا اور خاموشی سے دونوں کی گفتگو سُن رہا تھا۔میرے دل میں یہ خیال بار بار آ رہا تھا کہ حضرت لاہوری ایک نَو مسلم سِکھ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہیں اور روحانی مرتبہ جنت الفردوس کے بالا خانوں میں دیکھ رہا ہوں۔میں ایک سیّد زادہ ہو کر اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنّم کے کنارے پر کھڑا ہوں۔کہتے ہیں جب یہ خیال عَود کرے تو حضرت لاہوری مجھے پیچھے مُڑ کر دیکھیں مَیں اِس وسوسے اور خیال کو جھٹکُوں تو وسوسہ اور خیال مزید شدت سے دل میں داخل ہوں جب تیسری بار یہی معاملہ درپیش ہوا تو اب حضرت سے نہ رہا گیا اور انگلی کے اشارہ کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا نہیں امین بیٹا نہیں ایسے خیال دل میں مت سوچو نہیں نہیں اللہ کسی کو جہنم میں نہیں پھینکنا چاہتے وہ تو انسان خود محنت کر کے جہنّم کا ایندھن بنتا ہے۔تم یہ باتیں بالکل نہ سوچو.اللہ کے فضل سے مولانا امین الحق رح نے حضرتؒ کی بیعت کی اور پھر مجاز بھی ہوئے۔اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند کرے۔٭٭٭