سیدناعمرؓ کی شہادت

مصنف : ابن منیر ثانی

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اکتوبر 2020

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ابولوؤفیروز مجوسی نے نیزہ مارا تو آپ ؓ کو دودھ پلایا گیا جو پسلیوں کی طرف سے نکل گیا۔طبیب نے کہا: اے امیر المؤمنین! وصیت کر دیجیے اسلیے کہ آپ مزید زندہ نہیں رہ سکتے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور کہا: میرے پاس حذیفہ بن یمان کو لاؤ۔ حذیفہ بن یمان وہ صحابی تھے جن کو رسول اللہﷺ نے منافقین کے ناموں کی لسٹ بتائی تھی، جس کو اللہ، اللہ کے رسول اور حذیفہ کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا۔حذیفہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گویا ہوئے جبکہ خون آپ کی پسلیوں سے رس رہا تھا، حذیفہ! میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا رسول اللہﷺ نے میرا نام منافقین میں لیا ہے کہ نہیں؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ روتے ہوئے کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! یہ میرے پاس رسول اللہﷺ کا راز ہے، میں اس کو مرتے دم تک کسی کو نہیں بتا سکتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: حذیفہ! بلاشبہ یہ رسول اللہﷺ کا راز ہے، بس مجھے اتنا بتا دیجیے کہ رسول اللہﷺ نے میرا نام منافقین کے جدول میں شمار کیا ہے یا نہیں؟ حذیفہ کی ہچکی بندھ گئی، روتے ہوئے کہنے لگے: اے عمر! میں صرف آپ کو یہ بتا رہا ہوں اگر آپ کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میں کبھی بھی اپنی زبان نہ کھولتا، وہ بھی صرف اتنا بتاؤں گا کہ رسول اللہﷺ نے آپ کا نام منافقین کی لسٹ میں شمار نہیں فرمایا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر اپنے بیٹے عبداللہ سے کہنے لگے: عبداللہ اب صرف میرا ایک معاملہ دنیا میں باقی ہے۔ پِسر جانثار کہنے لگا: اباجان بتائیے وہ کون سا معاملہ ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ گویا ہوئے بیٹا، میں رسول اللہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ اے میرے بیٹے! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے اجازت طلب کرو کہ عمر اپنے ساتھیوں کے پہلو میں دفن ہونا چاہتا ہے۔ ہاں بیٹا، عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ نہ کہنا کہ امیر المؤمنین کا حکم ہے بلکہ کہنا کہ آپ کا بیٹا عمر آپ سے درخواست گزار ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں، میں نے یہ جگہ اپنی قبر کے لیے مختص کر رکھی تھی، لیکن آج میں عمر کے لیے اس سے دستبردار ہوتی ہوں۔ عبداللہ مطمئن لوٹے اور اپنے اباجان کو اجاز ت کا بتایا، سیدنا عمرنے یہ سن کر اپنے رخسار کو زمین پر رکھ دیا، آداب فرزندی سے معمور بیٹا آگے بڑھا اور باپ کے چہرے کو اپنے گود میں رکھ لیا، باپ نے بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا اس پیشانی کو زمین سے کیوں اٹھایا۔اس چہرے کو زمین پر واپس رکھ دو، ہلاکت ہوگی عمر کے لیے اگر اس کے رب نے اس کو قیامت کے دن معاف نہ کیا۔! رحمک اللہ یا عمر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیٹے عبدأللہ کو یہ وصیت کرکے اس دار فانی سے کوچ کر گئے: جب میرے جنازے کو اٹھایا جائے اور مسجد نبوی میں میرا جنازہ پڑھا جائے، تو حذیفہ پر نظر رکھنا کیونکہ اس نے وعدہ توڑنے میں تو شاید میرا حیا کیا ہو، لیکن دھیان رکھنا وہ میرا جنازہ بھی پڑھتا ہے یا نہیں؟ اگر تو حذیفہ میرا جنازہ پڑھے تو میری میت کو رسول اللہﷺ کے گھر کی طرف لے کر جانا، اور دروازے پر کھڑے ہو کر کہنا: یا ام المؤمنین! اے مومنوں کی ماں، آپ کے بیٹے عمر کا جسد خاکی آیا ہے۔ ہاں یہاں بھی یاد رکھنا امیر المؤمنین نہ کہنا عائشہ مجھ سے بہت حیا کرتی ہیں اگر تو عائشہ رضی اللہ عنہا اجازت مرحمت فرما دیں تو ٹھیک، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دینا۔ 
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابا جان کا جنازہ اٹھایا گیا تو میری نظریں حذیفہ پر تھیں، حذیفہ آئے اور انھوں نے اباجان کا جنازہ پڑھا۔ میں یہ دیکھ کر مطمئن ہوگیا، اور اباجان کی میت کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف لے کر چلے جہاں اباجان کے دونوں ساتھی آرام فرما تھے۔ دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے کہا: یا أمّنا، ولدک عمر فی الباب ہل تأذنین لہ؟اماں جان! آپ کا بیٹا عمر دروازے پر کھڑا ہے، کیا آپ اس کو دفن کی جازت دیتی ہیں؟ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مرحبا، امیر المؤمنین کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے پر مبارک ہو۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ
اللہ راضی ہو عمر سے جنہوں نے زمین کو عدل
 کے ساتھ بھر دیا، پھر بھی اللہ سے اتنا زیادہ ڈرنے والے، اس کے باوجود کہ رسول اللہﷺ نے عمر کو جنت کی خوشخبری دی۔