جو نِگوں ہی رہے وہی سر دے مجھے
جہاں گھر کرے توُ وہی گھر دے مجھے
تری قدرتوں کا کھلا بھید تو یوں
کبھی خالی کرے کبھی بھر دے مجھے
کروں جس سے تمیزِ حلال و حرام
مرے روزی رساں وہ نظر دے مجھے
مرا دل مرے بس میں نہیں ہے ابھی
بے نیازِ خِرد بھی تو کر دے مجھے
مرے سر سے غموں کی یہ دھوپ ہٹا
سَحرِ شبِ غم کی خبر دے مجھے
مرے نفسِ لعیں کو مَلک نہ بنا
مرے مولا تو اَوجِ بشر دے مجھے
نہ قباحتیں ہوں نہ شہادتیں ہوں
کبھی لُطفِ نمازِ سحر دے مجھے
ترے در پہ جھکوں ترے پاؤں پڑوں
حَرمین کا اذنِ سفر دے مجھے
کبھی حمد لکھوں کبھی نعت لکھوں
مرے مولا کمالِ ہُنر دے مجھے