گردش ایام از ام لائبہ
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے چنانچہ تاریخ میں ہمیں زمانے کے ایسے ایسے انقلابات نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگ جو عزت و افتخار کے بلند مقام پر فائز تھے۔ انقلاب زمانہ سے وہ ایسے گرے کہ نمائش گاہ عالم بن کر رہ گئے۔ ایسے لوگ جن کی داد و دہش سے ہر انسان فائدہ اٹھاتا تھا۔ وہ ایسے مفلس و قلاش ہوئے کہ نان جویں کے محتاج ہو گئے۔ تاریخ کے حوالے سے دو واقعات نذر قارئین کیے جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا ، سامنے بھنی ہوئی مرغی بھی رکھی ہوئی تھی۔ اچانک ایک فقیر نے دروازے پر آ کر صدا لگائی وہ شخص دروازے کی طرف گیا اور اس فقیر کو خوب جھڑکا۔ فقیر یونہی واپس چلا گیا ، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصے بعد یہ شخص خود فقیر ہو گیا ، سب نعمتیں ختم ہو گئیں۔ بیوی کو بھی طلاق دے دی ، اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ یہ میاں بیوی اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور بھنی ہوئی مرغی سامنے تھی کہ کسی فقیر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میاں نے بیوی سے کہا یہ مرغی اس فقیر کو دے آؤ ، چنانچہ وہ مرغی لے کر دروازے کی طرف گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ فقیر اس کا پہلا شوہر ہے۔ خیر ، مرغی اسے دے کر واپس لوٹی تو رو رہی تھی…… میاں نے پوچھا کیوں رو رہی ہو بولی فقیر تو میرا پہلا میاں تھا غرض پھر سارا قصہ اسے سنایا جو ایک فقیر کو جھڑکنے سے پیش آیا تھا۔ اس کا میاں بولا : ‘‘ خدا کی قسم وہ فقیر مَیں ہی تھا۔ ’’
‘‘ جعفر بن یحییٰ خلیفہ ہارون رشید کا وزیراعظم تھا ، جعفر کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ بڑے بڑے امراء اور سردار اس کے ہاں حاضری کو فخر سمجھتے تھے ، ان کی زرپاشیوں نے دجلہ کے بالمقابل سونے اور چاندی کا دریا بہا دیا تھا۔ ان کا محل فقیروں اور مسکینوں کا ملجا تھا ، علماء و شعراء اور دوسرے ارباب کمال ان کی مہربانیوں سے مالا مال تھے۔ انقلاب زمانہ دیکھئے۔ جعفر کی ماں عبادہ جس کی خدمت میں 400 کنیزیں رہتی تھیں ، عین عید کے دن پھٹے پرانے کپڑوں میں محمد بن عبدالرحمن امام مسجد کوفہ کے گھر معمولی امداد کے لیے نظر آتی ہے۔ چنانچہ محمد بن عبدالرحمن کہتے ہیں ‘‘ مَیں بقر عید کے دن والدہ سے ملنے گیا تو دیکھا ایک شریف عورت پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس والدہ سے بات چیت کر رہی ہے۔
والدہ بولیں کہ اس عورت کو جانتے ہو ؟ مَیں نے کہا نہیں ، کہنے لگیں یہ جعفر بن یحییٰ کی والدہ عبادہ ہیں۔ مَیں نے اس سے بات چیت کی اور اس کی تعظیم کے خیال سے اپنا رخ اس کی طرف کر لیا اور کہا کہ اماں جی ! آپ کا یہ عجیب حال مَیں کیا دیکھ رہا ہوں ؟ وہ بولی ‘‘ بیٹا ایک وقت وہ تھا کہ عید آتی تھی تو چار چار سو کنیزیں میرے سرہانے کھڑی ہوتی تھیں ، مَیں پھر بھی اپنے بیٹے کو اپنا نافرمان شمار کرتی تھی اور ایک اب یہ عید آئی ہے جس میں میری تمنا فقط یہ ہے کہ دو بکروں کی کھالیں مل جائیں تو ان میں سے ایک کو گدا اور دوسری کو رضائی بنا لوں۔ محمد بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے 500 روپے دئیے۔ وہ اتنی خوش ہوئی…… قریب تھا کہ خوشی کہ مارے مر جاتی پھر وہ ہمارے ہاں آتی جاتی رہی حتیٰ کہ موت نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی۔
ان دو واقعات سے ہماری ماؤں ، بہنوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ اگر خدا ہمیں کوئی منصب ، کوئی عہدہ یا مال و دولت دے تو اس پر غرور نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ یہ سب چیزیں آنی جانی ہیں۔ آج ہیں کل نہیں ، خدا جانے آج جو حالات ہیں وہ کل تک باقی رہتے ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے آج کا ترقی یافتہ ملک کل پسماندہ ہو جائے اور آج کا پسماندہ ملک کل ترقی یافتہ ہو جائے کیونکہ ہر عروج کے بعد زوال اور ہر زوال کے بعد عروج ہوتا ہے۔
حسن خلق از محمود الحسن غضنفر
عادت نفس انسانی میں ایک راسخ کیفیت کا نام ہے جس سے اختیاری اچھے یا برے کام سرزد ہوتے رہتے ہیں اور طبعی لحاظ سے اس میں اچھی یا بری تربیت کا اثر ہوتا ہے۔ اگر اس میں نیکی اور بھلائی کو فوقیت دی جائے اور اسی کو شیوہ بنا لیا جائے تو تمام افعال خیر آسانی سے ہو جاتے ہیں انہی افعال کو اخلاق حسنہ کہا جاتا ہے جیسا کہ صبر و تحمل کرم و شجاعت بردباری اور عدل و احسان ، اخلاق فاضلہ وغیرہ وغیرہ۔ اگر انسانی نفس کی عادات کی مناسب تربیت نہ کی جائے یا اس کی تربیت بری ہو جائے تو اسے بری چیز محبوب اور اچھی چیز ناپسند محسوس ہونے لگتی ہے پھر جو افعال و اقوال اس سے سرزد ہوتے ہیں انہیں اخلاق سیۂ کہا جاتا ہے۔ جیسے خیانت ، زیادتی ، فحش ، بے حیائی ، بے صبری ، زیادتی وغیرہ۔ اسلام اچھی عادات اپنانے اور احسن تربیت کا حکم دیتا ہے۔ رب کائنات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا : ‘‘ اور یقینا تو بڑے اخلاق پر فائز ہے۔ ’’ ( القلم )
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے اخلاق و عادات کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ‘‘ اچھے طریقہ سے مدافعت کر ، پس ( تو دیکھے گا کہ وہ شخص ) جس کے اور تیرے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ ( حم السجدہ : 34 ) فضائل حمیدہ اور اوصاف جمیلہ کو جنت حاصل کرنے کا سبب قرار دیتے ہوئے رب کائنات نے ارشاد فرمایا : ‘‘ اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو لوگ آسانی میں سختی کے موقعہ پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔ ( آل عمران ) کائنات کے خالق اور مالک نے انہی اخلاق فاضلہ کی تکمیل کیلئے نبی الرحم? صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ‘‘ میں اخلاق کریمانہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ ’’ ( الادب المفرد للبخاری و مسند احمد حدیث صحیح ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاسن اخلاق کی فضیلت و اہمیت اس طرح بیان فرمائی ہے : ‘ میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیزبھاری نہیں۔ ’’ اور فرمایا : ‘‘ نیکی اچھے اخلاق ( کا نام ) ہے۔ ’’ ( احمد و ابوداؤد )
نیز فرمایا : ‘‘ ایمان والوں میں کامل ایمان والے اچھے اخلاق والے ہیں۔ ’’
سرور کائنات نے مزید ارشاد فرمایا :
‘‘ بے شک مجھے تم میں سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اچھے اخلاق والے ہیں۔ ’’ ( صحیح بخاری )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ اچھی عادت ’’ پھر پوچھا گیا کہ جنت میں جانے کا کونسا عمل سب سے زیادہ سبب بنے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘‘ اللہ کا ڈر اور اچھی عادت ’’ ( سنن ترمذی و صحیحہ ) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا : ‘‘ بندہ اپنے محاسن اخلاق کے ذریعے آخرت کے بلند مراتب اور اونچا مقام حاصل کر لیتاہے حالانکہ وہ عبادت میں کمزور ہے۔ ’’ ( معجم طبرانی )
حسن خلق کے بارے میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ‘‘ چہرے کی تازگی ، سخاوت اور ایذا نہ دینا حسن خلق ہے۔ ’’
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مندرجہ ذیل تین صفات کا نام حسن خلق ہے۔ ‘‘ حرام کاموں سے اجتناب ’’ ‘‘ حلال کی تلاش ’’ اور عیال کیلئے خرچ و خوراک میں فراخی۔ احسن اخلاق کے مالک میں عام طور پر یہ صفات جمیلہ بیان کی جاتی ہیں۔ با حیا ہو ، باکردار ہو ، سچی زبان والا ، نیک کام کرنے والا ، صبر کرنے والا ، حلیم الطبع ، قدردان ، تعلقات جوڑنے والا ، رزائل سے اجتناب کرنے والا ، گالی گلوچ سے بچنے والا ، بغض حسد و عناد اور کینہ سے نفرت کرنے والا اور ہشاش بشاش رہنے والا ہو۔ اس کی محبت و ناراضگی میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود و مطلوب ہو۔
(بشکریہ ہفت روزہ اہل حدیث)
٭٭٭