میرے ہوش و حواس میں ابا میاں کا یہ پہلا تبادلہ ہوا تھا ، نئی جگہ میرے لیے بڑی عجیب سی تھی۔ گھر میں ہر طرف سامان بکھرا پڑا تھا۔ جسے اماں ایک چپراسی کی مدد سے کمروں میں لگوانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اماں کی سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ بار بار آرام کرسی پر بیٹھ جاتیں۔ سلمہ آپا ، چھوٹے بھیا صحن میں خوب اودھم مچا رہے تھے۔ جانے کہاں کہاں سے دو دو تین تین مور اڑتے ہوئے آتے اور صحن کی دیواروں پر بیٹھ جاتے۔ گردن مٹکا مٹکا کر ہر طرف دیکھتے۔ بڑے بھیا اور سلمہ آپا کان میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگتے اور پھر موروں کی طرف جھپٹتے مگر وہ بھلا کب ان کے ہاتھ لگتے وہ جیسے ہی آگے بڑھتے مور پھر سے اڑ جاتے۔ موروں کو دیکھ کر مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ ان کے پر تو بڑے خوبصورت تھے لیکن جسم ایسے بڑے بڑے کہ لگتا بس ابھی آگے بڑھ کر مجھے پکڑ لیں گے۔ اماں کو بھی شاید موروں سے ڈر لگ رہا تھا ۔ انہوں نے کئی بار لمبی لمبی سانیں بھریں۔
‘‘ہے اللہ، یہ تو بالکل جنگل ہے۔ دن دھاڑے گھروں میں مور گھسے آتے ہیں۔ اپنی پہلی جگہ کتنی اچھی تھی ، مگر زیادہ دن کب چین سے بیٹھنا ملتا ہے، روز کے تبادلوں نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔’’
‘‘چپراسی اماں کی بات پر مسکرانے لگا۔’’ بی بی جی یہی تو یہاں کی خوب صورتی ہے۔ یہاں بڑے اچھے مندر ہیں او رمور تو چڑیوں کی طرح پھرتے ہیں۔ ایک دو دن میں آپ کا جی لگ جائے گا۔
اماں چپ رہیں مگر میرا جی چاہ رہا تھا کہ اپنی فراک پھاڑ ڈالوں ، بالوں سے ربن نوچ لوں اور خوب زور زور سے روؤں اور اس چپراسی کے کان اتنی زور سے نوچوں کہ خون نکل آئے۔ اتنی گندی جگہ کو اچھا کہتا ہے۔ یہاں تو میرا کلوا بھی نہیں جس سے کھیلوں، اب کون گھوڑا بنے گااور کون میرے ساتھ گیند کھیلے۔ سلمہ آپا ، بڑے بھیا اور چھوٹے بھیا تو پکے کمینے ہیں ۔ ایک منٹ کو ان سے کھیلو تو چپتیں مارتے ہیں ۔ دھکے دے دے کر بھگاتے ہیں۔ اللہ کرے یہ مر جائیں۔ میں نے خوب زور زور سے رونا شروع کر دیا …… ‘‘ہم تو کلوا کے پاس جائیں گے، ہاں’’ ……
‘‘لو اب یہ میرا بھیجا کھائے گی ، میں نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ کسی طرح کلوا کو ساتھ لے چلو ، لونڈیا اسی سے ملی ہوئی ہے او رپھر جاتے ہی کون سا نوکر مل جائے گا، مگر وہ تو بات سننے کے عادی ہی نہیں ۔ اب کہاں سے لاؤں اس کا کلوا……’’ اماں بڑی بیزاری سے مجھے روتا دیکھنے لگیں ۔ میں نے ڈر کر اپنی آواز کم کرلی۔ مجھے پتہ تھا اماں رونے پر دو چار ہاتھ جڑ دیتی ہیں ۔ مگر وہ تو ایک سلمہ آپا، چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا پر برس پڑیں۔
‘‘ارے تم اتنے اتنے بڑے ڈھونگ اچھل رہے ہو مگر کیا مجال ہے جو ذرا دیر اسے بھی ساتھ کھلا لو، اب اس کے ساتھ کے کھیلنے والے بچے کہاں سے لاؤں۔ جی چاہتا ہے کہ مار مار کر دانت توڑ دوں تم تینوں کے۔’’ میرا رونا بالکل کم ہو گیا۔ ان پر ڈانٹ پڑی تو اپنا دل خوش ہو رہا تھا ۔ سلمہ آپا بڑی کچیاہٹ کے ساتھ آئیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیں۔
‘‘چلو مور پکڑیں۔’’ میں ان کے ساتھ ہولی مگر ذرا ہی دیر میں بڑے بھیا نے ایک چپت رسید کر دی اور میں بھوں بھوں روتی اماں کے پاس آگئی۔
‘‘ہائے اللہ! میں کیا کروں؟’’ اماں نے مجھے لپٹا لیا…… ‘‘میں ماروں گی اس منحوس صورت کو ۔’’ وہ میرے آنسو پونچھنے لگیں …… ارے بھئی چپراسی تم بس جلدی سے نوکروں کا انتظام کر دو۔ ایک عورت جو کھانا پکائے اور ایک اوپر کے کام کے لیے لڑکا۔ جو اسے بھی سنبھالے ۔ ورنہ یہ تو میری جان کھا لے گی۔’’ ‘‘بس بی بی جی! ابھی انتظام کر دوں گا ۔ نوکروں کی کوئی کمی ہے۔’’ ‘‘ہمیں تو کلوا لا دو۔’’ میں نے سسکتے ہوئے کہا۔ ‘‘کلوا سے اچھا نوکر لاکر دوں گا بٹیا کے لیے۔’’ چپراسی نے مجھے گود میں اٹھانا چاہا تو میں مچل کر اماں سے لپٹ گئی ۔ رونے میں پھر شدت پیدا ہو گئی ۔ بڑے بھیا زور زور سے تالیا ں بجا رہے تھے۔
رضیہ اپنے کالے منہ والے کو یاد کر رہی ہے ۔ اس کا منہ یوں تھا۔ بڑے بھیا نے کلوا کے منہ کی نقل کی اور میں نے کوسنا شروع کیا۔ ‘‘اللہ کرے مر جائے ، اللہ کرے لاش نکلے۔ اللہ کرے……’’
بھاگو یہاں سے ، اماں کو اپنے لاڈلے بیٹے پر لاڈ آرہا تھا ، وہ ہنسنے لگیں ، چپراسی بھی ہنس رہا تھا ۔ میرا جی چاہا کہ سب کے منہ نوچ لوں مگر اماں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ انہوں نے دھیرے دھیرے سر پر سہلایا تو میں جانے کب سوگئی۔ اب کلوا میرے پاس تھا۔ میں نے بڑے بھیا کی شکایت کی کہ وہ اس کی نقل کرتے ہیں۔ وہ دانت نکال کر ہنسنے لگا ۔ میں نے جی بھر کر گھوڑے سواری کی اور خوب گیند کھیلا۔ جب آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی۔ کلوا کہیں بھی نہ تھا۔ ہاں ایک آدمی میرے پلنگ کے نزدیک کھڑا تھا ۔ لمبی سی ڈاڑھی ۔ ہونٹوں کے پاس کئی بال سفید ہو رہے تھے ۔ اس کی آنکھیں بالکل چھوٹی تھیں اور منہ پھولا ہوا تھا اور وہ بڑا موٹا اور لمبا تھا۔
‘‘لو اسے اٹھا لو اور ذرا باہر سیر کرالاؤ۔’’ اماں نے اس سے کہا۔ ‘‘چلو چھوٹی بی بی ، میں تم کو باہر گھما لاؤں۔’’ میں اٹھ کر اماں کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ۔ ‘‘ایں بھاگ جا۔’’ ‘‘کم بخت پانچ برس کی ہو گئی مگر ہر وقت میری بوٹیاں نوچتی ہے …… ’’ اماں نے مجھے دھکا دیا ۔ ‘‘آخر اور بھی تو بچے ہیں سارا دن مزے سے کھیلتے ہیں۔’’
میں نے بڑے دررناک طریقے سے رونا شروع کر دیا۔ وہ آدمی میری طرف بڑھا اور اپنے بڑے بڑے ہاتھوں میں مجھے دبوچ کر باہر آگیا۔ ‘‘کیسی بیٹا رانی، ہم تتلی پکڑ کر دیں گے اور سرخ سرخ بیر بہوٹیاں دکھائیں گے اور بازار سے مٹھائی لائیں گے …… اس نے اپنی جیب سے پیسے کھنکائے……’’ اور بیٹا کو کھیل دکھائیں گے ‘‘…… اس نے مجھے گھاس پر کھڑا کر دیا ۔ پھر ایک دم بلی کی بولی بولنے لگی۔ بندر کی طرح آنکھیں مٹکائیں اور زمین پر قلابازی کھاتے ہوئے بھدے سے چت گر گیا۔ میں رونا بھول گئی۔ اس کی ان حرکتوں سے بڑا مزہ آیا۔ میں زور سے ہنسنے لگی۔ ‘‘یوں نہیں ۔ گھوڑا بنو۔’’
وہ گھوڑا بن گیا اور میں اس کی پیٹھ پر سوار ہو گئی۔ ‘‘ارے یہ لو بیٹا۔’’ اس نے مجھے پیٹھ سے اتار کر چھوٹی سی سرخ بیر بہوٹی دکھائی۔ ‘‘ہمارا کلوا تو ہمیں اتنی بہت سی پکڑ کر دیتا تھا۔’’ بیر بہوٹی مٹھے میں داب کر میں جھوٹ بولی۔ ‘‘ہم بھی پکڑ کر دیں گے ، کلوا کون تھا؟’’ ‘‘ہمارا نوکر……’’ میں نے بڑے غرور سے گردن اکڑائی …… ‘‘وہ ہمیں اپنے پیسوں سے مٹھائی کھلاتا تھا اور ہمارے ساتھ گیند کھیلتا تھا۔’’ ‘‘ہم بھی تو نوکر ہیں تمہارے ، اور چلو ابھی مٹھائی لاتے ہیں۔’’ ‘‘ہوں بڑے لاؤ گے ، اماں تھوڑی دیں گی پیسے ، وہ کہتی ہیں بازار کی چیزیں گندی ہوتی ہیں۔’’ ‘‘پیسے تو ہمارے پاس ہیں۔’’ اس نے جیب سے دو پیسے نکال کر دکھائے۔
‘‘ہوں ، بس دو پیسے، ہمارا کلوا تو ہمیں دو دو آنے کی مٹھائی کھلاتا تھا ۔’’ میں پھر جھوٹ بولی ۔ کلوا تو بس جبھی مٹھائی کھلاتا جب اسے تنخواہ ملتی اور وہ بھی دو پیسے کی۔ اس میں سے بھی آدھی خود کھا جاتا تھا۔ ‘‘دو آنے کی بھی کھلائیں گے بٹیا رانی کو ۔’’ وہ میری انگلی کو پکڑ کر بازار کی طرف چل دیا ، اب اندھیرا ہو رہا تھا اور مینڈکوں کے بولنے کی آواز آرہی تھی ، ایک گھر سے کسی عورت کے گانے کی آواز آرہی تھی ۔ وہ بار بار پربھو پربھو کر رہی تھی۔
‘‘یہ کون گا رہا ہے ؟’’ ‘‘پتا نہیں بیٹا۔ یہ گھر ایک بنیے کا ہے۔’’
ہم ایک بڑے سے پھاٹک سے گزرے تو مٹھائی کی دوکانیں آگئیں۔ اس نے مجھے دو پیسے کی جلیبیاں لے کر دیں ۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے کھانی چاہیں تو اس نے روک دیا۔ ‘‘نہیں بیٹا یہاں نہیں کھاتے بڑے آدمیوں کے بچے ، گھر چل کر کھائیں گے۔’’ راستے میں جلیبیاں کھالیں ۔ مجھے ڈر تھا کہ کلوا کی طرح وہ بھی حصہ بٹائے گا مگر اس نے ایک دفعہ مانگی تک نہیں ۔ ‘‘اماں سے نہ کہنا۔’’ ‘‘نہیں ، میں نہیں کہوں گا۔’’
گھر پہنچے تو ابا میاں آچکے تھے ۔ سلمہ آپا ، چھوٹے بھیا اور بڑے بھیا شریفوں کی طرح انکے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ ابا میاں نے مجھے دیکھتے ہی ہاتھ پھیلا دیے ۔ میں دوڈ کر ان سے لپٹ گئی۔ ‘‘اچھا تو یہ نوکر لایا ہے چپراسی ؟’’ ابا میاں نے آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے اماں سے پوچھا ۔ وہ سر جھکائے چپ چاپ کھڑا تھا ۔ ‘‘ہاں یہی لایا ہے تمہارا چپراسی۔’’ اماں ہنسیں ۔ ‘‘بھئی یہ تو بالکل بورکا معلوم ہوتا ہے۔ یہ کام بھی کر لے گا ۔ کیا نام ہے تمہارا؟’’ ‘‘رحیم!’’
‘‘ابا میاں یہ تو بہت اچھا ہے ۔’’ میں نے جلدی سے تعریف کی ۔ اب تک ہونٹ میٹھے ہو رہے تھے ۔ ‘‘ہا ہا یہ تو بورکا ہے ۔’’ بڑے بھیا نے فوراً تالی بجائی ۔ اماں اور ابا میاں ایک دم ہنس پڑے ۔ رحیم نے سر اٹھا کر سب کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی ۔ ‘‘دیکھو ، یہاں گھاس بہت ہے ۔ بچی کو رات باہر نہ لے جایا کرو ۔ کوئی کیڑا ویڑہ کاٹ لے گا، سمجھ گئے۔’’ ابا میاں نے سمجھایا۔ ‘‘جی!’’
‘‘اے بورکا! ہمیں پانی پلا دو۔’’ بڑے بھیا نے کہا۔ وہ باورچی خانے کی طرف بڑھا۔ ‘‘بورکا! ہمیں بھی دینا۔’’ سلمہ آپا کو بھی پیاس لگ گئی۔ ‘‘بورکا! ہم بھی پیےں گے۔’’ چھوٹے بھیا نے حکم لگایا۔ ‘‘بری بات ، اس کا نام رحیم ہے۔’’ ابا میاں نے پیار سے ڈانٹا اور ہنسنے لگے۔ ‘‘لو ، تو کیا ہوا کہنے دو بچے ہیں۔ آخر تو یہ بھی نام ہے۔’’ اماں کی تیوری پر بل پڑگئے۔
‘‘ارے بور کا! یہ میز پر سے چائے کے برتن اٹھا کر باورچی خانے میں لے جاؤ۔’’ اماں کھکھلا کر ہنسیں۔ ابا نے بھی زور کا قہقہہ لگایا۔ رحیم نے جانے کیسی نظروں سے سب کی طرف دیکھا اور پھر خود بھی ہنس دیا۔
‘‘بھئی کیا حرج ہے جو ہم تمہارا نام ہی بورکا رکھ دیں۔’’ اماں نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔ ‘‘رکھ دیں بی بی جی آپ مائی باپ ہیں۔’’ رحیم برتن لے کر چلاگیا۔
رحیم کا نام بورکا ہو گیا۔ گھر میں سب لوگ بڑی بے تکلفی سی بورکا کہتے اور وہ سر جھکا کر ‘‘جی’’ کہتا ہوا بڑھتا۔ میں بھی اب اس کو اسی نام سے پکارنے لگی ۔ وہ مجھ سے بڑے پیار سے بولتا ۔ مجھے چپکے چپکے مٹھائی کھلاتا۔ میں سلمہ آپا اور دونوں بھائیوں کی برائیاں کرتی تو وہ بھی میرا ساتھ دیتا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھاتا کہ میں ان سے کچھ نہ کہوں ورنہ بی بی جی سن کر ناراض ہوں گی۔ بھلا مجھے کیا پڑی تھی جو کسی سے شکایت کرتی اپنے بورکا کی۔ اتنے بڑے بڑے ہو کر اول نمبر کے بدتمیز تھے ہر وقت میرے پیچھے پڑے رہتے کہ میں تو بس بورکا سے کھیلتی ہوں ۔ وہ بورکا کے منہ کی ہزار ہزار نقلیں اتارتے۔ میں زمین پر لوٹ لوٹ کر روتی مگر بڑے بھیا ذرا بھی نہ مانتے۔ مجھے تو اپنے بھائی بہنوں سے نفرت ہونے لگی تھی۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر وہ اس کے چہرے اور نام کا مذاق کیوں اڑاتے ہیں ۔ آخر تو یہ نام امی اور ابا میاں بھی لیتے تھے۔ سخت بدتمیز ہیں یہ تینوں۔ میں نے تو اب ان سے بات کرنی بھی چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد بھی وہ مجھ سے لڑتے اور کوستے ۔ بورکا کو بھی کوستے…… اللہ کرے اس کا بورکا مرجائے……’’ اس بات پر تو میرا دل چاہتا کہ پیاز کاٹنے والی چھری سے بڑے بھیا کی زبان کاٹ لوں۔ رحیم ان باتوں سے ذرا بھی نہ بگڑتا ۔ اس سے تو یہ بھی نہ ہوتا کہ بڑے بھیا کے کام کرنا چھوڑ دے۔
ایک دن میں نے بورکا کو سخت غصے میں دیکھا ۔ بات صرف اتنی تھی کہ خانسامن نے اسے بورکا کہہ کر آواز دی تھی ۔ وہ غصے سے چیخنے لگا ۔ ‘‘بورکا ہو گا تیرا باپ ، تیرا دادا’’…… خانسامن نے بھی اس کے باپ دادا کو خوب گالیاں دیں اور پھر روتی ہوئی اماں کے پاس چلی گئی اور بورکا کی شکایت کرنے لگی…… ساری باتیں سن کر اماں ہنس دیں۔ ‘‘دیکھو خانسامن اب تم اسے بورکا مت کہنا اور دیکھو بورکا اتنی جلدی کسی کے باپ دادا تک نہیں پہنچا کرتے۔ ’’ اماں نے سمجھایا۔ ‘‘پر بی بی جی اس نے کہا کیوں، میں کون سا اس کا دیا کھاتا ہوں۔’’ ‘‘چلو اب چھوڑ دو دونوں میل کرلو۔’’ اماں برابر ہنس رہی تھیں۔ خانسامن آنسو پونچھتی باورچی خانے میں چلی گئی اور بورکا مجھے لیکر باہر آگیا۔ وہ اب تک غصے میں تھا ۔ اس کا منہ چقندر کی طرح لال ہو رہا تھا۔
‘‘بورکا! تم ہم سے تو ناراض نہیں ہو گے ، ہم بھی تو بورکا کہتے ہیں۔’’ ‘‘نہیں بیٹا رانی ، تم تو شہزادی ہو ۔ ہم تمہارے نوکر ہیں تم جو چاہو کہو۔’’ اس نے مجھے گلے لگایا۔
اس قصے کے بعد جانے کیا ہوا کہ پھر بورکا نے خانسامن سے بات نہ کی نہ کبھی اس کے باورچی خانے میں جا کر بیٹھا۔ اور نہ وہ مجھے بازار لے جاتا۔ میں روز ضد کرتی تو وہ سمجھاتا کہ اچھی بیٹیاں بازار نہیں جاتیں۔ ایک دن میں نے بہت ضد کی تو کہنے لگا کہ اچھا لے چلتا ہوں مگر دیکھو بٹیا رانی بازار میں بورکا نہ کہنا ۔ وہاں تم مجھے رحیم بابا کہنا۔ ورنہ مٹھائی لے کر نہ دوں گا۔ میں نے وعدہ کر لیا اور وہ مجھے با زار لے گیا ۔ بار بار میری زبان پر بورکا کا نام آتا مگر میں فوراً رحیم بابا کہنے لگتی ۔ مٹھائی کھلا کر اس نے واپسی میں مجھے اپنے کندھوں پر بٹھالیا۔ ‘‘بٹیا رانی! تم مجھے بورکا نہ کہا کرو، تم مجھے رحیم بابا کہا کرو۔ ایں!’’
‘‘اچھا ! اب میں یہی کہوں گی ۔’’‘‘اب ہم اپنی بٹیا کو بہت سی مٹھائی کھلائیں گے ۔’’‘‘میں بڑے بھیا ۔چھوٹے بھیا اور سلمہ آپا سے بھی کہوں گی کہ وہ رحیم بابا کہیں ایں نا؟’’‘‘اچھا !’’وہ کچھ سوچنے لگا ۔
گھر جا کر میں نے اسے رحیم بابا کہا تو بڑے بھیا اور سلمہ آپا ہنس کر لوٹ گئے ۔‘‘رضیہ کا بابابور کا ،رضیہ کا بابا بورکا ۔’’رضیہ بورکی ،رضیہ بورکی ۔’’میں نے زمین پر لیٹ کر رونا چیخنا شروع کردیا ۔اماں نے لاکھ دھمکایا کہ اگر اسے بورکی کہا تو زبان جلا دوں گی مگر بڑے بھیا نہ مانے ۔‘‘تو پھر یہ بورکا بابا کیوں کہتی ہے ،ہم تو اسے بورکی کہیں گے ۔’’بورکا مجھے سمجھا بجھا کر پھر باہر اٹھا لے گیا ۔
‘‘بیٹا ! اب تم مجھے رحیم بابا مت کہنا نہیں تو سارے بچے تم کو بورکی کہیں گے ۔’’اس نے میرے آنسو پونچھتے ہوئے سمجھایا ۔
‘‘کیا بورکا بری بات ہوتی ہے ؟’’نہیں بیٹا بس نام ہوتا ہے ۔’’وہ کھسیا کر ہنسنے لگا ۔
ایک دن شام کو بورکا گھر پر کام کر رہا تھا ۔اس لئے ابا میاں میری انگلی پکڑ کر باہر ٹہلنے کے لئے اپنے ساتھ لے آئے ۔ان کے ساتھ ٹہلتے ہوئے مجھے ذرا بھی اچھا نہ لگ رہا تھا ۔بھلا ابا میاں بچوں سے کھیلنا کیا جانیں میں بار بار گھر میں جانے کی کوشش کرتی۔مگر ابا میاں انگلی نہ چھوڑتے ۔۔مجھے بورکا کے بغیر تو ایک منٹ بھی اچھا نہ لگتا ۔ابھی ہم ٹہل رہے تھے کہ دو آدمی بڑی بڑی پگڑیاں باندھے اور ہاتھوں میں موٹے موٹے لٹھ پکڑے آگئے انھوں نے جھک کر ابا میاں کو سلام کئے ۔مجھے ان کی لاٹھیوں سے ایسا ڈر لگا کہ ابا میاں کے پیچھے چھپ گئی ۔‘‘کیابات ہے ؟’’‘‘رحیم سے ملنا ہے ۔ہم اس کے گاؤں سے آئے ہیں ۔اپنا یار ہے ۔’’‘‘ارے میاں بورکا ’’۔ابامیاں نے زور سے آواز دی ۔‘‘آیا بابوجی ’’۔اندر سے اس نے جواب دیا اور دوڑتا ہوا باہر آگیا دونوں آدمیوں کو سامنے دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔
‘‘دیکھو بورکا یہ تمھارے ملنے والے آئے ہیں ۔ان کے لئے اندر سے پلنگ اٹھا لاؤ اور خانسامن سے کہوں کہ تمھارے دوستوں کے لئے چائے بنائے ۔’’ابا اندر چلے گئے میں نے بورکا کا ہاتھ پکڑ لیا ۔‘‘ابے کیا نام رکھ لیا ،بورکا ۔’’وہ دونوں آدمی زور زور سے ہنسنے لگے ۔بورکا بالکل چپ رہا ۔اندر سے جا کر پلنگ اٹھا لایا وہ دونوں اس پر بیٹھ گئے انہوں نے بہت سی باتیں کیں مگر بورکا چپ چاپ بیٹھا رہا ۔‘‘کچھ طبیعت خراب ہے تمھاری ۔ابے چپ بیٹھے ہو ۔’’‘‘سر میں بہت درد ہے ’’ ۔بورکا نے دونوں ہاتھوں سے سر دبا کر چھوڑدیا ۔پھر گاؤں والوں کی خیریت پوچھتا رہا ۔چائے پینے کے بعد وہ دونوں آدمی کھڑے ہوگئے ۔
‘‘اچھا تو میاں بورکا اب چلے پھر آئیں گے ۔’’وہ پھر ہنسنے لگے ۔بورکا ذرا بھی نہ ہنسا ۔ان سے ہاتھ ملا کر جلدی سے میری انگلی پکڑی اور پھر گھر میں آگیا ۔وہ آدمی ابھی گئے نہ تھے کیوں کہ انکی ہنسی کی آواز آرہی تھی اس دن میں ضد کرتے کرتے سو گئی لیکن بورکا نے نہ تو مجھے کہانی سنائی اور نہ باتیں کیں ۔
ایک دن جانے کیوں مجھے بورکا کے گھر کا خیال آگیا ۔‘‘بورکا !تمھارا گھر ہے ؟’’ ‘‘ہے بٹیا رانی !’’ ‘‘اور ہماری جیسی کوئی لڑکی بھی ہے ؟’’‘‘نہیں !’’بورکا لمبی لمبی سانسیں بھرنے لگا ۔‘‘تمھاری بیوی بھی ہے ،ایسے ہی جیسے ہمارے ابامیاں کی بیوی ،ہماری اماں ‘‘ہے !’’بورکا ہنستے ہنستے لوٹ گیا میں ناراض ہوگئی ۔اس نے بڑی مشکل سے منایا ۔‘‘ہمیں اپنے گھر لے چلو ۔’’‘‘لے چلیں گے اور بٹیا رانی کی دعوت بھی کریں گے ۔’’
اس شام جب ابا میاں آئے تو بورکا ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا ۔‘‘بابوجی ! میں بٹیا رانی کو کل اپنے گھر لے جاؤ ں ۔ان کی دعوت ہے ہمارے گھر ۔’’‘‘ارے تمھاری بیوی بھی ہے بورکا ؟’’اماں ہنسیں ۔‘‘جی !بی بی جی ! تین بیویاں تو اللہ کو پیاری ہوگئیں ۔اب تھوڑے دن ہوئے شادی کی ہے۔’’
‘‘لے جانا مگر جلدی لے آنا ۔’’ابا میاں نے اجازت دے دی ۔مارے خوشی کے میں نے چھوٹے بھیا کو زبان چڑ ا دی ۔بورکا کمرے سے چلا گیا تو ابامیاں اماں کو دیکھ کر ہنسنے لگے ۔
‘‘میرا خیال ہے کہ بورکا کی بیویاں اس کی صورت دیکھ کر مر گئی ہوں گی ،بھئی کس غضب کی صورت پائی ہے ۔اس پر یہ لمبی داڑھی ’’مجھے ابامیاں کی یہ باتیں ذرا اچھی نہ لگتیں میں چپکے چپکے بد بداتی رہی ،بڑے آئے ہمارے بورکا کو برا کہنے والے ۔
دوسرے دن بورکا نے مجھے بتایا کہ اس کی بیوی نے میرے لئے بڑی اچھی گڑیا بنائی ہے اور آج دوپہر کو میری دعوت بھی ہے اس نے خود اپنی پسند سے مجھے لال رنگ کی فراک پہنائی ۔بہت سا پاؤڈر لگایا ۔جوتوں پر خوب رگڑ رگڑ کر پالش کی ۔بڑے بھیا اور سلمہ آپا مجھ سے خوب جلیں ۔انہوں نے مجھے اتنا ستایا کہ میرا سارا پاؤڈر آنسوؤں میں بہہ گیا اماں کے منع کرنے کے باوجود بڑے بھیا یہی کہتے رہے کہ بورکا کے گھر کا کھانا کھاکر بورکی ہو جاؤں گی ۔بورکا اسی حالت میں مجھے اٹھا کر باہر لے آیا ۔میرے آنسو پو نچھے اور اپنے ساتھ لے چلا ۔راستے میں اس نے مجھے سمجھایا کہ میں اسکی بیوی کے سامنے اسے رحیم بابا کہوں ۔‘‘اور اگر وہاں بورکا کہا ،تو کیا ہوگا رحیم بابا ؟’’ ‘‘وہ مجھے مارے گی اور گھر سے نکال دے گی ۔’’‘‘میں کیوں کہنے لگی ،میں تو رحیم بابا کہوں گی ۔’’جب گھر پاس آیا تو وہ رک گیا ۔کیا کہو گی مجھے ؟‘‘بور۔رے ۔رحیم بابا ۔’’
‘‘رحیم بابا ۔’’
جب ہم دروازے پر پہنچے تو ٹاٹ کے پردے کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی خوب گوری چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی ۔اس نے آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگایا ۔
‘‘یہ ہیں چھوٹی بی بی ۔’’اس نے مجھے صحن میں بچھے ہوئے پلنگ پر بٹھا دیا جس پر بٹھا دیا جس پر بڑی صاف چادر بچھی ہوئی تھی
‘‘یہ روز تمھاری باتیں کرتے تھے ’’ وہ میرے پاس بیٹھ گئی ۔‘‘بڑی اچھی بٹیا رانی ،وہ میرے فراک کا گلا دیکھنے لگی ۔’’کس نے بنائی ہے یہ فراک ؟‘‘درزی نے ’’
‘‘ اچھا اب جاکر کھانا تولا اور گڑیا بھی لے آ بٹیا کے لئے ۔’’بورکا میرے پاس ہی پلتی مار کر بیٹھ گیا ۔‘‘ارے بور ۔رحیم بابا یہ تمھاری بیوی ہے ؟’’جب وہ چلی گئی تو میں نے چپکے سے پوچھا :‘‘ہوں ،دیکھو بٹیا رانی بورکا نہ کہنا ۔’’
‘‘بالکل نہیں کہوں گی ۔’’اس کی بیوی شرماتی ہوئی آئی اور گڑیا میرے ہاتھوں میں تھما دی ،کتنی اچھی گڑیا تھی ۔بڑی بڑی آنکھوں والی اور ریشمی کپڑے پہنے تھی ۔میں گڑیا کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی اور بورکا خوش ہوہو کر مجھے دیکھ رہا تھا ۔اس کی بیوی صحن کے کونے میں بنے ہوئے چولہے کے پاس بیٹھی اور چینی کی پلیٹوں میں کھانا نکال رہی تھی ۔
‘‘ارے جی !میں نے کہا کہ بچے بھی کتنے بھلے لگتے ہیں ۔گھر میں اجالا رہتا ہے ۔اس کی بیوی نے دو پلیٹیں میرے سامنے رکھ کر بورکا کو دیکھا اور پھر جانے کیوں دوپٹے کے پلو سے منہ چھپا کر کھڑی ہوگئی ۔بور کا نے اشارے سے کیا کہا ۔میں تومیٹھے اور کھیر کھانے میں جٹی ہوئی تھی ۔آج تو میری ضد پر بورکا نے بھی میرے ساتھ ہی کھانا کھایا ۔کھانے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔‘‘بٹیا رانی !میں ذرا باہر سے حقہ پی آؤں ،میرا حقہ ٹوٹ گیا ہے ،تم جب تک اپنی گڑیا سے کھیلو۔’’‘‘جلدی آجانا ۔’’ ‘‘بس ابھی آیا ۔’’
اس کے جانے کے بعد اس کی بیوی میرے پاس بیٹھ گئی ۔‘‘ہم تمھاری اماں کے پاس آئیں گے ،ایک دن ان سے کہوں گی کہ لے چلیں ۔’’‘‘ضرور آنا ۔’’
‘‘تم بڑی اچھی بٹیا رانی ہو ۔’’وہ مجھ سے بڑے پیار سے باتیں رہی تھی ،پھر بھی نہ جانے کیوں وہ مجھے اچھی نہ لگ رہی تھی بورکا کی غیر موجودگی میں ذرا ہی دیر بعد میں گھبرانے لگی ،مجھے اماں کی یاد آنے لگی ۔
‘‘ابھی تک نہیں آیا بورکا ؟’’گھبراہٹ میں بھول ہی گئی کہ یہاں اسے بورکا نہیں کہنا چاہیے تھا ۔‘‘کون بورکا ؟’’اس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا ۔
‘‘وہ نا ،جو رحیم بابا ہے ،ہم تو اسے رحیم بابا کہتے ہیں ۔بورکا بڑے بھیا ،چھوٹے بھیا ،سلمہ آپا ،ابا میاں اور امی کہتی ہیں ،ہم نے تو بھولے سے کہہ دیا ۔’’
‘‘ارے واہ بٹیا رانی !تم نے دیکھا ہے بورکا ۔’’اور اسکی بیوی ہنستے ہنستے بستر پر لوٹنے لگی۔ بورکا ۔بورکا ۔وہ بے تحاشا ہنسے جارہی تھی ۔میں ڈری ہوئی بیٹھی تھی کہ اب یہ کہیں ہمارے بورکا کو گھر سے نہ نکال دے اور کہیں اسے مارے نا ۔وہ ہنس رہی تھی کہ اتنے میں بورکا آگیا ۔
‘‘کیا کہتے ہیں تم کو سب لوگ ،بورکا ؟’’بورکا نے میری طرف دیکھا اور پھر اپنی بیوی کو گھورا ۔اس کا منہ سرخ ہو رہا تھا ۔
‘‘ارے واہ گھورتے کیوں ہو ،ہم نہ کہیں بورکا ہم بھی تمھیں بورکا کہیں گے ۔وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی ۔‘‘کیا کہے گی ؟’’وہ اس کی طرف جھپٹا اور خوب زور زور سے مارنے لگا اس کی بیوی ایک دم چپ ہوگئی ۔کھڑے ہو کر اسے گھورنے لگی ۔پھر زور سے چیخی ۔‘‘مجھے مارتا ہے ،لے مار ۔اب تو میں روز کہوں گی بورکا ،بورکا ۔’’ اب وہ پاؤں سے جوتا اتار کر پیٹنے لگا ۔وہ زور زور سے چیخنے لگی ۔‘‘مارلے بورکا !جو تیرے گھر رہ جاؤں تو اپنے باپ سے نہیں ۔’’
میں مارے خوف کے چیخنے لگی ،تو بورکے نے جوتا پاؤں میں ڈال کر مجھے اٹھا لیا اس کی بیوی منہ چھپائے رو رہی تھی ۔بورکا چند منٹ تک اسے دیکھتا رہا ۔
‘‘اب چپ کر جا ،میرے ہاتھ سڑ جائیں ’’۔وہ جلدی سے باہر نکل گیا ۔راستے بھر نہ تو میں ڈر کے مارے کچھ بولی اور نہ بورکا نے کوئی بات کی ۔جب میں گھر کے اندر جانے لگی تو اس نے مجھے روک لیا ۔
‘‘بٹیا رانی !بی بی جی کو کچھ نہ بتانا ،نہیں تو میں چلا جاؤں گا ۔’’
میں نے گھر میں کچھ بھی نہ بتایا سلمہ آپا میری گڑیا دیکھ دیکھ کر کڑہتی رہیں ۔بڑ ے بھیا نے گڑیا کی چوٹی سے پکڑ کر اسے مارا بھی ،میں رونے کے علاوہ کیا کر سکتی تھی ۔اماں نے بڑی مشکل سے میری گڑیا کی جان بچائی ۔
بورکا تین چار گھنٹے کے بعد گھر آیا تو اماں نے اچھی طرح ڈانٹا کہ گھر میں سارا کام پڑا ہے اور تم لاٹ صاحبوں کی طرح گھومتے پھر رہے ہو ۔
‘‘اپنے گھر میں ضروری کام تھا بی بی جی !’’ وہ بڑے بے دلی سے کام کرنے لگا ،اور پھر ذرا دیر میں مجھے اٹھا کر باہر جا بیٹھا ۔اس کی آنکھیں بیر بہوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں اس نے مجھ سے بات بھی نہ کی ۔جب میں نے ضد کی کہ وہ گھوڑا بنے ،تو جانے کیوں مجھے گلے سے لگا کر رونے لگا ۔‘‘کیوں رو رہے ہو ؟’’میں اس کے آنسو پونچھنے لگی ۔‘‘میں نے اپنے بیوی کو مار اتھا نا ۔’’‘‘کیوں مارا تھا بورکا ؟’’‘‘ایسے ہی بٹیا رانی !’’‘‘اب تو مت رو ،نہیں تو میں بھی روؤں گی ۔’’
‘‘کتنے ہاتھ پاؤں جوڑ کر شادی کی تھی ۔اور اب مارتا ہوں ۔’’وہ اور بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا لیکن کیسے ہی میں نے منہ بسورا وہ ایک دم چپ ہوگیا ۔
ذرا دیر بعد ا س نے مجھے گھر کے اندر بھیج دیا اور خود اماں سے کہے بغیر چلا گیا ۔
صبح کے دس بج گئے ،ابا میاں دفتر چلے گئے مگر بورکا نہ آیا ۔اماں برابر غصے ہوتی رہیں ۔بورکا کے بغیر مجھے ذرا بھی اچھا نہ لگ رہا تھا ۔میں اس کے انتظارمیں باہر دروازے پر کھڑی ہوگئی ۔تھوڑی دیر بعد وہ سامنے سے آتا ہوا نظر پڑا ۔میں دوڑ کر اس سے لپٹ گئی اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیر ااور پھرکندھے پر چڑھا لیا ۔اس کی آنکھیں اب تو او ر بھی زیادہ لال ہو رہی تھیں ۔
‘‘اماں تم سے بہت ناراض ہیں ۔’’
‘‘ہوں ۔’’اس نے مجھے کندھے سے اتار دیا ۔‘‘بٹیا رانی !میں تمھارے لئے مٹھائی لے آؤں ۔’’اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک روپیہ نکال لیا ۔یہ روپیہ ابا نے کل اسے انعام میں دیا تھا ۔روپیہ اس نے میری ہتھیلی پر رکھ دیا ۔‘‘یہ اپنے پاس رکھ لو ۔’’کل اس کی مٹھائی آئے گی ۔’’‘‘اور آج ؟’’روپیہ میں نے مٹھی میں چھپا لیا ۔
‘‘آج کے لئے تو میرے پاس پیسے ہیں ،بس ابھی لایا ۔’’وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا چلا گیا ۔بڑی دیر ہوگئی مگر بورکا مٹھا ئی لے کر نہ آیا ۔کھڑے کھڑے جب تھک گئی تو میں اندر آگئی ۔
اماں کام کرتی جاتیں اور بورکا کو برابھلا کہتی جاتیں ۔ میں ڈر کے مارے نہ بتایا کہ وہ میری مٹھائی لینے گیا ہے ۔
شام ہوگئی مگر وہ مٹھائی لے کر نہ آیا میں نے دروازے کے پچاسوں چکر لگائے مجھے بار بار خیال آرہا تھا کہ آج تو وہ بھی کلوا کی طرح مٹھا ئی کھا گیا ہے ۔اس لئے نہیں آتا ابا میاں کے آنے پر اماں نے شکایت کی کہ بورکا صبح سے غائب ہے اس کی ایک دن کی تنخواہ ضرور کاٹی جائے ۔ابا میاں نے سمجھایا کہ وہ ضرور بیمار ہو گیا ہے پھر انہوں نے خانسامن سے کہا کہ جا کر بورکا کے گھر سے معلوم کر ے کہ وہ کیوں نہیں آیا ۔
خانسامن بڑی دیر میں آئی مگر ابا میاں کے پوچھنے پر بھی کچھ نہ بولی ۔اماں کے پاس بیٹھ کر کھسر پھسر کرنے لگی ۔‘‘ہے !’’ اماں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی اور خانسامن اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی ۔
‘‘کیا بات ہے ؟’’ ابا میاں نے اماں کے قریب جا کر پو چھا ۔
‘‘محلے والوں نے بتایا ہے کہ اس کی بیوی بھاگ گئی ہے اور وہ اس پر غم میں کہیں چلا گیا ۔سامان تک نہیں لے گیا ۔کسی محلے والے نے گھر میں تالا لگا دیا ہے ۔
‘‘تو پھر ہمیں اپنا دوسرا انتظام کر لینا چاہیے ،خانسامن سے کہو کہ رات جاتے ہوئے چپراسی سے کہہ دے کہ صبح تک دوسرا نوکر لے آئے ،بھئی کام خوب کرتا تھا بورکا ،ابھی تو اس کی پوری تنخواہ بھی باقی ہے ۔’’ابا میاں اس طرح باتیں کر رہے تھے جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔میں اپنے بستر پر لیٹی تھی ابا کے خوف سے آواز نہیں نکال سکی ۔بس گھٹ گھٹ کر روتی رہی اور کھانا کھائے بغیر سو گئی ۔
صبح جب آنکھ کھلی تو دوسرا نوکر کام کر رہا تھا اور اماں ماتھا پیٹ پیٹ کر کہہ رہی تھیں۔‘‘ ہے یہ تو بالک بانگڑو ہے ۔اسے تو کوئی کام نہیں آتا ،یہ چپراسی کیا وبال دے گیا ہے!’’ ‘‘بانگڑو ہے۔ بانگڑو ہے’’۔ بڑے بھیا تالیاں پیٹ رہے تھے اور بانگڑو منہ اٹھائے ٹکر ٹکر سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ میری طرف بڑھا تو میں بستر پر مچل گئی ۔‘‘ ہم تو بورکا سے اٹھیں گے ۔’’میں کلیجہ پھاڑ پھاڑ کر رونے لگی۔
٭٭٭