نہ چل سکا اگر میں تیرے دین پر تو اور راستہ کہاں سے لاؤں گا
کہوں گا کس کا بندہ اپنے آپ کو میں دوسرا خدا کہاں سے لاؤں گا
نہ میں نکل سکوں تری حدود سے نہ کر سکوں جدا عدم وجود سے
ہر ایک شے ہے جب فنا کی منتظر میں عرصہ بقا کہاں سے لاؤں گا
اگر نہ آخرت پہ ہو میرا یقیں تو مقصد حیات وموت کچھ نہیں
جو تیری سمت لوٹنا نہ ہو مجھے شعور ارتقا کہاں سے لاؤں گا
کروں بیاں فضیلتیں میں کیا تری تری محبتیں بھی ہیں عطا تری
جو شامل عمل نہ ہو ترا کرم عمل کا حوصلہ کہاں سے لاؤں گا
بھروسہ مجھ کو تیری رحمتوں پہ ہے گزارا اب مرا ندامتوں پہ ہے
ندامتیں ہی اے خدا قبول کر کہ زہد و اِتقا کہاں سے لاؤں گا
ترے حبیب ﷺ کا بھی آسرا اسی کے واسطے سے توُ ملا مجھے
قریب جس نے تجھ سے کر دیا مجھے وہ عشق مصطفی ﷺ کہاں سے لاؤں گا
قدم قدم تجھے صدا نہ دوں اگر تو کیسے طے کروں گا عمر کا سفر
جو دیدہ گماں سے دیکھتا رہا یقیں کا ذائقہ کہاں سے لاؤں گا