ہم احمد پور شرقیہ کے قریب گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ ہمارے یہاں تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی لہذا میں نے ابھی پانچویں جماعت بھی پاس نہیں کی تھی کہ مجھے سکول سے اٹھا لیا گیا اور میں گھر بیٹھ کر سلائی کڑھائی سیکھنے لگی۔
سردیاں شروع ہو رہی تھیں کہ صادق آباد سے میری پھوپی کے لڑکے کی شادی کا دعوت نامہ آیا تو میں اپنے ابو کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ میں کسی رشتے دار کے گھر شادی پر جارہی ہوں۔جب ہم ان کے گھر پہنچے تو کچھ مہمان آچکے تھے ۔ میری پھوپھی زاد صغری میری ہی ہم عمر تھی اور ہم دونوں پہلی بار ملے تھے ۔ کچھ وقت میں ہی صغری سے میری اچھی دوستی ہو گئی۔
شام کے وقت ان کے گھر ایک لڑکا آیا اور خاموشی سے مردوں میں بیٹھ گیا۔ یہ لڑکا سب میں نمایاں تھا۔ لمبا قد ، گورا رنگ ، پیشانی پر بکھرے ہوئے بال ، سفید کپڑوں میں وہ مجھے کوئی عجیب مخلوق لگ رہا تھا ۔ میری نظر اسی پر ٹکی ہوئی تھی کہ صغری نے کہنی ماری کہ کیا دیکھ رہی ہو؟ میں اس کو دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گئی لیکن بار بار اس کو دیکھ ضرور لیتی تھی ۔ میں نے صغری کو ساتھ لیا اور کمرے میں چلی گئی ۔ ابھی گاؤں میں بجلی نہیں آئی تھی اس لیے گیس لیمپ جلا رکھے تھے ۔ میں نے صغری سے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ صغری نے بتایا کہ یہ ہمارا دور کا رشتہ دار ہے اور اسی گاؤں میں رہتا ہے ۔ ہمارے یہاں مہینوں بعد آتا ہے ، بڑا مغرور ہے۔ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگی کہ تم کیوں پوچھ رہی ہو تو میں نے کہا کہ ایسے ہی …… بات تو شروع ہو ہی چکی تھی تو میں نے صغری سے پوچھ لیا کہ اس کا نام کیا ہے اور کیا کرتا ہے ، کتنے بہن بھائی ہیں؟ تب اس نے سمجھا یا ریحانہ! تم کو آخر اس میں کیا دلچسپی ہے ، میں تو خود دل ہی دل میں اسے چاہتی ہوں لیکن اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ بے حد مغرور ہے۔ گاؤں کی دو تین لڑکیوں نے اس سے بات کرنا چاہا تو اس نے اس حقارت سے جواب دیا کہ پھر انہوں نے کبھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی دل آزاری سے ڈر کر میری ہمت نہیں ہوتی کہ اسے مخاطب کروں ، اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔
اس نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ مجھے اس پر ترس آگیا ، تبھی میں نے کہا کہ رجو! اگر تم ناراض نہ ہو تو میں اس کو آزماؤں ، دیکھنا اس کا سارا غرور دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ وہ بولی ، وہ کالج میں پڑھتا ہے ، اس کی سات بہنیں ہیں اور بھائی کوئی نہیں ۔ اس لیے ماں باپ کا لاڈلا ہے اور گاؤں میں زمین بھی ہے ، اچھی صورت کے علاوہ اس بات کا بھی اسے بہت غرور ہے۔
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ پھوپھی نے اسے بلالیا۔ وہ باہر نکلی تو وہ جا چکا تھا ، تب مجھ کو افسوس ہوا کہ ہم کیوں اتنی دیر اندر بیٹھے ، کم از کم ایک بار دیکھ تو لیتی ۔ صغری سے تو کہہ دیا تھا کہ میں اس کا غرور توڑ کر رہوں گی مگر یہ سب مجھے مشکل لگ رہا تھا ۔ رات دیر تک مجھے نیند نہ آئی اور میں اس کے بارے میں سوچتی رہی۔
دوسرے روز بھی وہ نہ آیا ، میں بار بار صغری سے پوچھتی کہ گورایہ آیا کہ نہیں ، وہ کہتی کہ کالج گیا ہو گا ، شام کو شہر سے واپس آئے گا اور پتا نہیں آتا بھی ہے کہ نہیں کل تو پتا نہیں کیسے آگیا تھا ۔ میں شام تک انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا۔
اسی شام پھوپھی کے بیٹے کفایت کو مہندی لگی تھی ۔ لڑکیاں تیاری کر رہی تھیں لیکن میں چپ چاپ بیٹھی تھی ۔ صغری نے مجھے بھی تیار ہونے کے لیے کہا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دوبارہ اصرار کیا تو میں اٹھ کر باہر چلی گئی۔ مہمانوں کو کھانا کھلایا جا رہا تھا ۔ پھوپھا نے چھوٹے بیٹے ولایت کو کہا کہ گورایہ کو بلا کر لاؤ ، کچھ چیزیں لکھنی ہیں اور شہر سے لانی ہیں۔ جیسے ہی پھوپھا کی آواز سنی مجھ کو لگا جیسے بہار آگئی ہو ۔ جلدی جلدی نلکے پر منہ ہاتھ دھونے لگی اور تیاری کرنے لگی۔ ایک ایک ایک سیکنڈ بڑی مشکل سے گزر رہا تھا۔ تبھی ولایت واپس آگیا اور کہا کہ وہ دوستوں میں مصروف ہے اور کہہ رہا ہے کہ ابھی آتا ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میں بیتاب ہو رہی تھی ۔ کبھی دروازے پر جاتی اور کبھی اندر آتی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ آیا اور سیدھا مردوں میں جا کر بیٹھ گیا۔
میں بہانہ ڈھونڈنے لگی کہ کس طرح میرا اس سے آمنا سامنا ہو تو کوئی بات ہو۔ اندر سے ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں بے عزتی نہ کر دے۔ اگر لگن سچی ہو تو رنگ لے ہی آتی ہے ۔ جب وہ فارغ ہو کر جانے لگا تو پھوپھا کے بیٹے نے اسے روک لیا کہ کہاں جا رہے ہو ، ابھی ٹھہرو…… بھائی کو مہندی لگنے والی ہے ؟ آخر بھائی شہزور نے اسے روک لیا اور اندر زبردستی عورتوں میں لے آیا کہ پھوپھی بلا رہی ہے ۔وہ آہستگی سے چلتا ہوا کمرے میں آگیا۔ جب پھوپھی نے گورایہ کو دیکھ تو اٹھ کر اسے گلے لگا لیا او رگلہ کیا کہ آتے ہو تو باہر ہی سے چلے جاتے ہو ۔ وہ چپ کھڑا مسکراتا رہا ۔ میں اس وقت باہر کھڑی تھی۔ پھوپھی نے اسے چارپائی پر بٹھایا اور خود کسی کام سے باہر نکل گئیں۔ میں بالکل اس کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور شہزور سے بات کرنے لگا۔ اتنی دیر میں صغری مہندی لے کر آگئی کہ میرے ہاتھ پر انگلش میں نام لکھ دو۔ اس نے ایک باریک سی تیلی سے صغری کے ہاتھ پر اس کا نام لکھ دیا۔ میں بھی جلدی سے اٹھی کہ نام لکھواؤں ۔ بھائی شہزور اٹھ کر باہر چلا گیا اور تمام لڑکیاں باری باری نام لکھواتی رہیں۔ جب میری باری آئی تو کمر ے میں دو تین لڑکیاں رہ گئی تھیں ، میں نے ہاتھ آگے کیا تو اس نے میرا نام پوچھا۔ میں نے جان بوجھ کر اپنا نام رجو بتایا تو اس نے کہا اصل نام بتاؤ۔ اس نے سب لڑکیوں کے نام لکھے مگر کسی کا ہاتھ نہ پکڑا۔ جب میرا نام لکھنے لگا تو میرا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ میری طرف دیکھ کر وہ ہنس پڑا اور کہا ڈر کیوں رہی ہو، نہ لکھواؤ اگر ڈرتی ہو تو ……! میں ہاتھ آگے کر کے چپ کھڑی رہی ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا بیٹھ جاؤ کہیں گر نہ جانا۔ میں جلدی سے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی گورایہ نے میرا نام بہت سکون اور خوبصورتی سے لکھا اور کہا اب جاؤ، اور جلدی سے اٹھ کر چلا گیا۔ میں خوش خوش پھرتی رہی کہ چلو گورایہ سے بات تو ہوئی ۔
کچھ دیر تک لڑکی والے مہندی لیکر آگئے اور صغری نے لڑکیوں کو سمجھا دیا کہ گورایہ کو جانے مت دینا ۔ جیسے ہی وہ جان چھڑاتا کوئی دوسری لڑکی اسے گھیر لیتی اور میں اس کے چہرے کو بار بار تکتی کہ کسی لڑکی کے لیے اس کے چہرے پر کسی قسم کے جذبات تو نہیں تھے مگر اس کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔ لڑ کیاں گیت گانے لگیں۔ اس کے گھر والے بھی آگئے تھے اس لیے وہ بیٹھا رہا۔ سب لڑکیاں گیت گانے میں مصروف تھیں اور میں خاموشی سے اس کے پاس بیٹھی تھی ۔ ایک دو بار اسے کہا بھی کہ اپنے پسند کا گانا بتائیے مگر وہ خاموش بیٹھا رہا۔
سب جانے لگے تو میں بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ گورایہ باہر نکلا تو میں چپکے سے اس کے آگے باہر گلی میں آگئی۔ یہاں کافی اندھیرا تھا ۔ وہ اکیلا تھا ، جب میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا میری بات سنو ۔ پہلے تو وہ میری ہمت پر ششدر ہوا ، پھر گھبرا گیا اور کہا ۔ بیوقوف مت بنو، جاؤ جا کر اپنا کام کرو اور چلا گیا۔
دوسرے دن بارات جانی تھی ۔ وہ نظر نہ آیا تو میں پر یشان پھرتی رہی۔ ولیمے والے دن وہ آیا مگر میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ میں نے ہزار کوشش کی کہ اس سے بات کر سکوں لیکن نہ کر سکی۔
شادی ختم ہو گئی تو ایک دن میں صغریٰ کے ساتھ اس کے گھر گئی ۔ وہ گھر پر ہی تھا، ہم سے ملا او راپنے کمرے میں چلا گیا ۔ موقع ملتے ہی میں نے ایک رقعہ اس کی کتابوں میں رکھ دیا کہ اگر تم آج رات کو نہ ملے تو میں خود کو گولی مار کر تمہیں بدنام کر دوں گی۔ مجھے رقعہ رکھتے اس نے دیکھ لیا۔ مقررہ وقت پر جب میں مقررہ جگہ آئی تو وہ بیٹھا پستول لوڈ کر رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر اٹھا اور کہا ، بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟ ورنہ میں تم کو گولی مار دوں گا۔ اس کے بپھرے تیور دیکھ کر میں اس کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگی۔ وہ نرم پڑ گیا اور میرے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا : ‘‘بتاؤ کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ، رجو! اپنی عزت سنبھالو، اپنی ماں کی لاج رکھو، جو کچھ تم کر رہی ہو ، صحیح نہیں ہے۔’’
میں نے کہا…… گورایہ صبح ہم چلے جائیں گے اور دوبارہ نہیں آئیں گے ۔ اپنی سہیلی سے ایک شرط لگائی تھی کہ تم سے بات کر کے دکھاؤں گی ، اسی شرط کی لاج رکھ لو اور میرے ساتھ دو بول بول دو گے تو تمہارا کیا جائے گا۔ یہ کہتے کہتے میں رو دی ۔ اس نے میرا منہ اوپر کیا اور آنسو صاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں تم سے کچھ کہہ بھی دوں تو کیا ہو گا ، چند دن میں یہ جذبات ختم ہو جائیں گے اور تم بھول جاؤ گی لیکن میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے ۔ اس نے پستول ایک طرف رکھ دیا اور ہم باتیں کرتے رہے ۔ میں نے اس سے اس کا ایڈریس لے لیا کہ تمہیں خط لکھوں گی۔
دوسرے دن وہ ہمیں بس اسٹاپ تک چھوڑنے آیا۔ میں خوش بھی تھی اور اداس بھی۔ کافی عرصہ ہماری خط و کتابت چلتی رہی لیکن صغری کو میں نے نہ بتایا۔
ایک روز اچانک صغر یٰ کے پیٹ میں درد ہوا ، ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے آپریشن بتایا ۔ پھوپھی نے میرے والد کو بلوانے کے لیے گورایہ کو بھیجا۔ جب وہ ہمارے گھر آیا تو جی چاہا کہ بھاگ کر اس کے گلے لگ جاؤں لیکن ایسا نہ کر سکی۔ رات کو وہ ہمارے پاس رہا۔ میں رات کو اٹھ کر اس کے کمرے میں چلی گئی اور ہم نے ساری رات باتیں کرتے جاگ کر گزار دی۔ دوسرے روز وہ والد صاحب کو ساتھ لے گیا۔ صغری کا آپریشن ہوا تو پتہ چلا کہ اسے کینسر ہے۔ کچھ دن بعد وہ دوبارہ والد صاحب کو لینے آگیا کیونکہ صغری کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی ۔ اگلے روز الیکشن تھے اور ٹرانسپورٹ بند تھی اس لیے وہ لوگ نہ جا سکے۔ اس رات بھی ہم نے خوب باتیں کیں۔ میں نے کہا کہ اگر میں تم کواچھی لگتی ہوں تو میرا رشتہ مانگو۔ وہ چپ رہا۔ صغریٰ کچھ دن اسپتال رہی لیکن اس کی زندگی نے ساتھ نہ دیا اور وہ چلی گئی۔ اب میں کس کو بتاتی کہ وہی مغرور لڑکا میری زندگی کا حاصل بن چکا ہے۔ میرے لیے کافی رشتے آرہے تھے اور گورایہ سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا تھا ۔ اس نے بھی دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا یہاں تک کہ میرے والدین نے ایک رشتہ پسند کر لیا اور میری شادی لیاقت پور میں کردی۔
شادی کے بعد بھی گورایہ کو بھلا نہ سکی ، ہر وقت اسے یاد کرتی رہتی تھی۔ اتفاقاً ہم صادق آباد ایک شادی پر گئے جہاں گورایہ بھی آیا ہوا تھا ۔ وہ اب پہلے سے زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔ میں نے ایک عورت سے پوچھا کہ گورایہ اب کیا کر رہا ہے، شادی ہو گئی یا نہیں؟ اس نے بتایا کہ شادی نہیں ہوئی ، بی کام کر کے اب کسی کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔
میں اس سے ملنا چاہتی تھی سو موقع نکال کر میں اس سے ملی، وہ ناراض ہونے لگا کہ تم نے میرا انتظار نہیں کیا۔ میں مجبور تھی ، گھر والوں نے شادی کردی ، تم نے رشتہ کیوں نہ مانگا؟ اس نے کہا کہ اس وقت میں زیر تعلیم تھا ، شادی کیسے کر سکتا تھا ۔ اب میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوں لیکن اب تمہیں اپنا نہیں سکتا کیونکہ تم شادی کر چکی ہو۔
ابھی میری شادی کو ایک سال بھی نہ ہوا کہ مجھے پھر گورایہ کی یاد ستانے لگی ۔ تب میں نے روز اپنے خاوند سے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ایک دن تنگ آکر اس نے مجھے بہت مارا ، میں ناراض ہو کر والدین کے گھر چلی گئی ۔ سسرال والے میری منتیں کرتے رہے مگر میں نہ مانی ۔ میں نے کہا بس طلاق لینی ہے ، میرے والدین نے بھی سمجھایا لیکن میں نے کہا
اگر مجھے وہاں بھیجا تو میں کچھ کھا کے مر جاؤں گی۔ والد صاحب ڈر گئے۔ میں نے اپنے والدین کو راضی کر کے خلع کے لیے درخواست دے دی۔ ادھر سے صلح کے لیے دباؤ جاری رہا۔ وہ لوگ کچھ معزز آدمیوں کو لیکر ہمارے گھر آگئے کہ ایک دفعہ راضی ہو جاؤ لیکن میں راضی نہ ہوئی بلکہ پنچائت میں ا پنے خاوند کی بے عزتی کر دی ، پھر بھی اس نے طلاق نہ دی ۔ کیس کافی دیر چلتا رہا ، آخر کار مجھے طلاق ہو گئی۔
کچھ دن عدت گزارنے کے بعد میں صادق آباد اپنے پھوپھی کے پاس گئی کہ کسی طرح گورایہ سے ملوں ۔ اسے کہوں میں نے طلاق لے لی ہے ، اب تم مجھے اپنا سکتے ہو۔ جب میں اپنے بھائی کے ساتھ وہاں گئی تو معلوم ہوا کہ گورایہ کسی کورس کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا ہے ۔ بڑی مشکل سے میں نے اس کا پتا معلوم کیا اور اس کو خط لکھا کہ تمہاری خاطر میں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے اب تم مجھے اپنا لو۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ میں واپس والدین کے گھر آگئی۔ میری ماں بیمار رہنے لگی تھی ۔ دو ماہ بعد ایک دن میں ہمسائی کے پاس گئی ہوئی تھی کہ ایک بچے نے آکر اطلاع دی کہ آپ کے گھر کوئی مہمان آیا ہے۔
میں گھر گئی تو گورایہ کو دیکھ کر ششدر رہ گئی ۔ میری ماں بیمار تھی ، چارپائی پر لیٹی تھی اور وہ ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس نے رات ہمارے گھر گزاری۔ میں نے اسے رات کو پھر کہا تو وہ کہنے لگا : ‘‘رجو! میں نے کبھی تم کو اپنے خاوند سے طلاق لینے کے لیے نہیں کہا تھا ، یہ تمہارے اپنے غلط فیصلے ہیں جو تمہارے آگے آ رہے ہیں ، میں نے کبھی تمہیں نہیں چاہا۔ پہلے دن میں نے تم سے جان چھڑانے کے لیے پیار کے چند بول کہے ، پھر بعد میں مجھے بھی کچھ دلچسپی پیدا ہو گئی ۔ میں نے تمہاری عزت کی حفاظت کی اور تم کو بھی ثابت قدم پایا تو فیصلہ کیا کہ تم کو اپنا لوں گا لیکن پھر تمہاری شادی ہو گئی اور میں تمہیں بھول گیا۔ اب تم نے طلاق لے لی ہے تو تمہیں کبھی بھی میرے گھر والے قبول نہیں کریں گے ، اب تم مجھے بھول جاؤ اور کہیں اور شادی کر لو۔ ’’
وہ صبح ہوتے ہی چلا گیا لیکن میں دکھوں کے اندھیروں میں ڈوبتی چلی گئی کہ جس کے لیے میں نے یہ قدم اٹھایا تھا وہی چھوڑ گیا۔ پھر بھی مجھے اس کی یاد آتی ہے کیونکہ دل ایک بار ہی کسی کا ہوتا ہے ۔ اب بھی اسی کے خواب دیکھتی ہوں کہ شاید میرے جذبے کی سچائی اسے بدل دے۔ اب میں زندگی سے بیزار ہوں۔ عزیز و اقارب طعنے دیتے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ یہ میں نے کیا کیا؟ اپنے جذباتی فیصلوں پر اپنی زندگی کو دکھوں کا گھر بنا لیا۔ آج اگر صغری زندہ ہوتی تو اسے بتاتی کہ میں آج کس طرح زندہ ہوں کہ جس کو کوئی قبول کرنے پر تیار نہیں اور وہ بے وفا خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ کسی سے شرط باندھ کر خود اپنی زندگی خراب کرنے کے بعد عقل آئی کہ کیا حاصل ہوا……، بغیر سوچے سمجھے طلاق لیکر کیا پایا؟ کسی کی اچھی شکل پر مرنا نہیں چاہیے کہ ضروری نہیں اچھی شکل والا اچھے دل کا بھی مالک ہو۔ جب لڑکی کی شادی ہو جائے اس کو اپنا ماضی فراموش کر دینا چاہیے کیونکہ جو لڑکی ماضی کی یادوں کو ساتھ لیکر شوہر کے گھر جاتی ہے ، وہ اپنا گھر ان یادوں کے سائے سے بچا نہیں پاتی۔ شوہر اچھا ہو تو اس کو کھونا نہیں چاہیے کیونکہ عورت کی زندگی میں دکھ سکھ کا ساتھی اس کا شوہر ہی ہوتا ہے۔