نیٹ سائنس

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : فروری 2011

خاتون جو خوف کو محسوس نہیں کر سکتی

            انسانوں میں خوف کو محسوس نہ کرنے کے حوالے سے یہ اپنی طرز کا پہلا کیس ہے سائنسدانوں کو ایک ایسی خاتون کا پتا چلا ہے جو دماغ میں ایک مخصوص حصے کی کمی کی وجہ سے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کر سکتی ۔اس دریافت سے سائنسدانوں کو امید ہوئی ہے کہ کسی خوفناک تجربے کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہونے والے مریضوں کے علاج میں مدد ملے گی۔کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک خاتون خوف کی مختلف حالات میں بالکل خوفزدہ نہیں ہوتی ہیں۔ان میں سانپ اور مکڑیوں کا سامنا ہونا، ڈراؤنی فلمیں اور آسیب زدہ گھر میں جانا شامل ہے۔یہ خاتون دوسرے جذبات تو محسوس کر سکتی ہیں لیکن خوف کو محسوس نہیں کر سکتی۔انسانوں میں خوف کو محسوس نہ کرنے کے حوالے سے یہ اپنی طرز کا پہلا کیس ہے۔

            لووا یونیورسٹی کے محققین کے کہنا ہے کہ خوف محسوس کرنے کی اہلیت کے نہ ہونے کی وجہ ان کے دماغ میں ایک حصہ جسے ایمگڈوا کہتے ہیں کی کمی ہے۔دماغ کا یہ حصہ کافی عرصے سے جذبات کو سمجھنے سے حوالے سے منسوب کیا جاتا رہا ہے، اور جانوروں پر تجربات کے دوران جب دماغ کے اس حصے کو ہٹایا گیا تو انھوں نے خوف محسوس کرنا چھوڑ دیا۔لیکن انسانوں میں پہلی مرتبہ اس کا پتا چلا ہے۔یہ خاتون کم عمری میں خوف محسوس کیا کرتی تھیں لیکن بالغ ہونے پر مختلف خوفزدہ کرنے والے حالات جن میں چاقو سے دھمکی دینا اور بندوق کی نوک پر روکنا شامل ہے میں خوف محسوس نہیں کیا۔

            خاتون نے بہت ساری ڈراؤنی فلمیں دیکھی، آسیب زدہ ہونے کے حوالے سے مشہور ایک گھر میں گئی اور ایک منفرد پِٹ ہاؤس لے جایا گیا جہاں مختلف خطرناک سانپوں کو قابو کیا لیکن ان کو ایک زہریلی مکھی کو ہاتھ لگانے سے منع کر دیا گیا کیونکہ اس کے کاٹنے کا بہت زیادہ خطرہ تھا۔لووا یونیورسٹی کے محققین نے اس خاتون کا مشاہدہ کیا اور مختلف حالات جن میں عام لوگ خوف محسوس کرتے ہیں میں ان کا ردعمل ریکارڈ کیا۔جب اس خاتون سے کہا گیا کہ وہ کیوں کسی ایسی چیز کو چھونا چاہتی ہیں جو کہ خطرناک سمجھی جاتی ہے۔اس پر خاتون نے کہا کہ ان پرتجسس غالب آ جاتا ہے۔اس تحقیق کے سربراہ جسٹن فینسٹن کا کہنا ہے کہ ‘ کیونکہ ان کے دماغ میں ایمگڈوا کا حصہ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اس دنیا میں خطرے کی نشاندہی اور اس سے بچنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔کنگز کالج کے ایڈم پرکنز جو خوف اور بے چینی کی بنیادی وجوہات پر تحقیق کرنے کے ماہر ہیں کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق دلچسپ ہے کیونکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایمگڈوا خوف کی اعصابی سیٹ ہے جو خاص طور پر عام جذبات کے برعکس خوف کا احساس پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ خاتون پر تحقیق کی وجہ سے یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ کس طرح دماغ خوف پیدا کرتا ہے۔اس وجہ سے کسی خوفناک تجربے کے بعد ذہنی دباؤ کا شکار ہونے والے مریضوں کے علاج میں مدد ملے گی۔ان میں ایسے فوجی بھی شامل ہیں جو مختلف جنگ زدہ علاقوں میں تعینات ہیں اور خوف نے ان کی زندگیوں کو شدید متاثر کرتا ہے۔

چیونٹی ہاتھی کے خلاف درخت کی محافظ

            ایک حالیہ تحقیق کے مطابق شمالی افریقہ میں پائے جانے والے آکاشیا نامی درخت چیونٹیوں کی وجہ سے ہاتھی کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکہ کے وائی منگ اور فلوریڈا یونیورسٹی کے محقیقین نے کینیا کے شمالی قصبے لیکیپیا اور نیشنل پارک میں جا کر یہ تحقیق کی۔تحقیق کے مطابق آکاشیا نامی درختوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جبکہ ہاتھیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ہاتھیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کھانے کے دوران دھاری دار درختوں کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔تحقیق کار ٹوڈ پالمر کا کہنا ہے کہ سینٹرل کینیا میں حالیہ برسوں میں ہاتھیوں نے درختوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔پروفیسر پالمر اور جیک کوہین اپنی تحقیق کے نتائج کو کرنٹ بیالوجی نامی رسالے میں شائع کریں گے۔آکاشیا نامی درختوں کے بارے میں عام تاثر پایا جاتا ہے کہ اْن کا چیونٹیوں کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔یہ درخت چیونٹیوں کے لیے سایہ اور خوراک مہیا کرتے ہیں اور وہ بدلے میں ان درختوں کو ہاتھیوں سے محفوظ رکھتی ہیں۔

            ہاتھی جیسے ہی ان درختوں کے پتوں کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں چیونٹیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہاتھی ان درختوں کے پتوں کو نہیں کھا سکتے۔ہاتھی اپنی نازک سونڈ پرچیونٹی کے کاٹنے کے ڈر سے ان درختوں کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کرتے ہیں۔

بوڑھی چیونٹیاں ریٹائر ہو جاتی ہیں

            پتے کاٹنے والی چیونٹیوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق ایسی چیونٹیاں جن کے دانتوں کا اثر ختم ہو جاتا ہے وہ ریٹائر ہو جاتی ہیں۔یونیورسٹی آف ایروگن کے سائنسدانوں کے مطابق بوڑھی چیونٹیاں، جوان چیونٹیوں کے برعکس کم پتے کاٹتی ہیں۔

            تحقیق کارورں کے مطابق پتے کاٹنے والی چیونٹیوں کو کیڑے مکوڑوں کی دنیا کا کسان کہا جاتا ہے۔تحقیق کارورں کے مطابق پتے کاٹنے والی ہر ایک چیونٹی اپنے وزن سے پچاس فیصد زیادہ پتے کاٹ سکتی ہے۔یہ چیونٹیاں ایک چھوٹے سے جلوس کی شکل میں ان پتوں کو اپنے گھر لے کر جاتی ہیں جہاں اْن پتوں کو اپنی افزائش بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔تحقیق کاروں کے مطابق بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اِن چیونٹیوں کے دانت کمزور ہو جاتے ہیں یا اْن کی تیزی کم ہو جاتی ہے اور ایسی چیونٹیاں جو زیادہ عمر رسیدہ ہو جاتی ہیں وہ یہ کام مکمل طور پر چھوڑ دیتی ہیں۔عمر رسیدہ چیونٹیاں پتے کاٹنے کا کام نوجوان چیونٹیوں پر چھوڑ دیتی ہیں اور وہ پتوں کو اپنے گھروں لے جانے میں اپنی مدد فراہم کرتی ہیں۔

٭٭٭