اپنے اپنے مضامین میں ایم اے ، ایم ایس سی ، اور ایم فل کی ڈگریاں رکھنے والے اساتذہ کرام کے مابین بعض امور زیر بحث تھے ۔ اسی اثنا میں کسی نے احمدیت یعنی قادیانیت کی بحث چھیڑ دی۔بعض نے تو اس نام کے بارے میں بالکل لاعلمی کا اظہار کیاالبتہ بعض نے کہا کہ اُنہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قادیانی حضرات کو غیر مسلم کیوں کہا جاتا ہے؟ جبکہ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں ، روزہ بھی رکھتے ہیں، نبی کریم ﷺ پر ایمان رکھنے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور کلمہ بھی وہی پڑھتے ہیں جو ہم سب مسلمان پڑھتے ہیں۔راقم نے عرض کیا کہ ‘اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں’۔ اجازت ملنے پر راقم نے عرض کیا کہ ‘کیا آپ سب موسیٰ علیہ السلام پر ایما ن رکھتے ہیں یعنی انہیں اللہ کا سچاپیغمبر تسلیم کرتے ہیں ؟’ سب نے کہا ، بے شک ۔ ‘لیکن اس کے باوجود یہودی آپ کو غیر یہودی کہتے ہیں؟’۔ ‘کیا آپ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا سچارسول تسلیم کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں ؟ ’سب نے کہا بالکل ‘لیکن اس کے باوجود عیسائی آپ کو غیر عیسائی تصور کرتے ہیں؟’۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے پیغمبر کو سچا رسول ماننے کے باوجود جوں ہی ایک انسان بعد میں آنے والے پیغمبر کو تسلیم کر لیتا ہے تو وہ پچھلے پیغمبر کی امت سے نکل کر نئے پیغمبر کی امت میں داخل ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کو ماننے کے باوجود جو عیسیٰ علیہ السلام پر ا یمان لے آیا وہ یہودی نہ رہا ، عیسائی بن گیا اور اسی طرح موسیٰ اور عیسیٰ علیہماالسلام پر ایمان رکھنے کے باوجود جو شخص محمد ﷺ پر ایمان لے آیا وہ یہودی اور عیسائی نہ رہا بلکہ مسلمان بن گیا۔
نئے نبی پر ایمان لاتے ہی انسا ن کا مرکزِمحبت اور اطاعت تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اب اس پر پچھلے نبی کاانکار نہیں بلکہ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ نئے نبی سے محبت کرے اور اس کی ہی اطاعت کرے۔یہی وجہ ہے کہ جب احمدی یا قادیانی حضرات نے حضورﷺ کے بعد مرزا غلام احمد کو نبی مان لیا تو وہ امت محمدی ﷺ سے نکل کر ایک نئے دائرہ اطاعت ومحبت میں داخل ہو گئے اس لیے ضروری ہے کہ ان کو ایک الگ گروہ تسلیم کیا جائے اور یہ اصول اتنا بدیہی ہے کہ خود قادیانی بھی غیر قادیانی حضرات کو کافر ماننے پر مجبور ہیں جس کاثبوت مرزا صاحب کی تحریریں اور ان کے حالات زندگی ہیں۔اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مرزا صاحب کو کس قسم کا نبی سمجھتے ہیں، ظلی یا بروزی ، تشریعی یا غیر تشریعی ۔نبی بہر حال نبی ہوتاہے اور اس کی اطاعت عین دین ہوتی ہے۔ایک استاد نے کہا ، لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب خود حضورﷺ کی مہرسے تصدیق پا کر نبی بنے ہیں۔راقم نے عرض کیا کہ یہ تاویل انہوں نے لفظ ِخاتم کی کی ہے ۔ اور یہ ایک ایسی تاویل ہے کہ جس کی مثال نہ تو اسلامی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ عربی زبان وادب میں۔ خاتم النبیین کامطلب بالکل واضح ہے او ر مزید برآں یہ کہ اس لفظ میں کسی تاویل کی گنجایش موجود ہی نہیں رہتی جبکہ خود حضو ر ﷺ نے اس کی تشریح فرما دی ہو جیسا کہ فرمایا‘ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (احمد و الترمذی) رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔ جئت فختمت الانبیاعلیھم السلام (مسلم) میں آیا ،پس میں نے نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم کر دیا۔ ختم بی الانبیا علیھم الصلاۃ والسلام (بخاری)مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ انا العاقب الذی لیس بعدہ نبی (صحیحین) میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ انا محمد النبی الامی ولا نبی بعدی (احمد) میں محمد ہوں اُمی پیغمبر اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
ایک استاد نے فرمایا کہ آخر آج کے زمانے میں نئے نبی کی ضرورت کیوں نہیں؟ کیا ہمیں ہدایت کی ضرورت نہیں؟راقم نے عر ض کیا کہ ایک پیغمبر کے آنے کے بعدد وسرا پیغمبر آنے کی چار ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔یا تو پہلے پیغمبر کی تعلیمات مٹ چکی ہوں اور ان کو پھرسے پیش کرنے کی ضرورت ہو۔یاپہلے پیغمبر کی تعلیمات میں ترمیم یا اضافے کی ضرورت ہو۔یاپہلے پیغمبر کی تعلیمات صرف ایک قوم تک محدود ہوں اور دوسری اقوام کے لیے ایک الگ پیغمبر کی ضرورت ہو۔ یا ایک پیغمبر کی موجود گی میں اس کی مدد کے لیے دوسرا پیغمبر بھیجا جائے، ان میں سے کوئی وجہ بھی اب باقی نہیں رہی۔آسمانی تعلیمات قرآن کی شکل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دی گئیں،ان کو مکمل بھی کر دیا گیااور ان کوکسی قوم کے لیے خاص بھی نہیں کیا گیا، اس لیے نئے نبی کی ضرورت بھی نہیں۔
ایک استاد نے فرمایا، لیکن بعض حضرات تو ختم نبوت کو ہی پورادین قراردے دیتے ہیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ راقم نے عرض کیا کہ ان کی بات ایک اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے ۔ دین کا ماخذ ، منبع و مرکز اول و آخر نبی ہی ہوتا ہے ۔ اگر اسی سے تعلق کی بنیاد ختم ہو گئی تو پھر دین کہاں رہا؟اگرکسی اور کی آمدکو مان لیا گیا یا اس کا انتظار رہا یا کسی اور طرف نگاہ اٹھ گئی تو گویا یہ تسلیم کر لیا کہ حضورﷺ کی تعلیمات میں بہتری ، اضافے یا ترمیم کی گنجایش تھی جسے اس نئے آنے والے نے پورا کیا ہے یا کرنا ہے اور یہ بات اکمال ِدین اور ختم نبوت کے صریحاً خلاف ہے ۔اور پھر یہ بات محض عقیدت کی نہیں حقیقت کی ہے کہ اگر حضور ﷺ کے بعد کسی اور نبی نے آنا ہوتا تو قرآن مجید اور رسول پاک ؐخود بھی صراحتاً اسے بتا کر جاتے جیسا کہ پچھلی تمام کتابوں اور تمام رسولوں کا دستور رہا۔ جب کہ قرآن مجید نے اور رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اس کے برعکس بیان کیا تا کہ کسی شک و شبہ کی گنجایش نہ رہے۔
سب اساتذہ نے تسلیم کیا کہ بات واضح ہوگئی ۔ لیکن راقم نے عرض کیا ، اس سے پہلے کہ ہم اپنی بات کو ختم کریں ، دو باتوں کی طرف توجہ دلانا اوربھی ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ ختم نبوت پہ کامل ایمان حبُِ رسول ﷺ کابنیادی تقاضا ہے ۔ختم نبوت کی ایسی تاویل یا انکار قادیانیت ہی پر موقوف نہیں ، جو فرد یا گروہ بھی اپنا مرکز اطاعت و محبت تبدیل کر لے یا آقائے دوعالمؐ کے خصائص کو کسی اور کے لیے بھی تسلیم کرے ، محبت رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ اس فرد یا گروہ کے عقائد سے بھی ایسے ہی پر ہیز کیا جائے ۔سب نے کہا مثلاً؟ راقم نے عرض کیا کہ مثلا ًغیر مشروط سمع و طاعت اور محبت و عقیدت صرف رسولؐ کاحق ہے اگر کوئی بھی فرد اپنے لیے یہ مطالبہ کرے یا کسی اور کا بھی یہ حق سمجھے تو گویا اس کو بھی اس نے چھوٹا سا نبی بنا لیا۔اب توقیامت تک سب کی مشروط اطاعت ہو گی اور وہ مشروط ہو گی نبیؐ کی اطاعت او رتعلیمات کے ساتھ۔ہر ایک کی بات سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر نبی ؐسے نہیں بلکہ دل کے اندر اختلاف کا خیال لانے سے بھی ایمان ختم ہو جائے گا۔اب کوئی یہ سمجھے کہ کوئی اور بھی ہے جس کی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا تو گویا اس نے اسے بھی چھوٹا سا نبی بنا لیا۔ ہر ایک کی آواز سے اونچی آواز کی جاسکتی ہے مگر نبیؐ کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنے پرایمان ہی ختم ہو جاتا ہے اب کوئی سمجھے کہ کسی اور کا بھی یہ حق ہے تو گویا اس نے اسے بھی چھوٹا سا نبی بنا لیا۔ نبیؐ شریعت کا منبع و ماخذہیں ۔ نبیؐ کو اللہ کے حکم سے شریعت میں تبدیلی ، تنسیخ، تغیر و تبدل کی اجازت ہے۔ اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ کسی اور کے پاس بھی یہ حق ہے تو گویا اس نے اسے بھی چھوٹا سا نبی بنا لیا۔جس طرح شرک فی اللہ ہوتا ہے اس طرح شرک فی النبوت بھی ہوتا ہے اور یہ شرک یہی ہے کہ نبی ﷺ کے خصائص کو کسی اور میں بھی تسلیم کر لیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ قادیانی عقائد ہوں یا ختم نبوت کے برعکس عقائد ، ان سے اظہار ِ بیزاری ہونا چاہیے نہ کہ ان سادہ لوح افراد سے جوغلطی سے ایسے گروہوں کے دام تزویر میں پھنس جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اصلاً ایک داعی امت ہے اور انسان سے بیزاری دعوت کا دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے جو اس امت کے مقصد ہی کے خلاف ہے ۔اور پھر یہ کہ ایسے تمام گروہوں میں ایک بڑی اکثریت ہمارے ان بھائیوں کی ہے جو محض لاعلمی کی وجہ سے ان کے چکر میں آجاتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو فی الواقع حب رسول ﷺ میں ایسا کر گئے ہیں کہ انہیں باور کر ا دیا گیا ہے کہ اس طرح وہ نبی ﷺ کی بہتر پیروی کرنے والے بن جائیں گے ایسے افراد کی گلشن محمدی میں واپسی ہماری ذمہ داری ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم ان سے تعلق نہ رکھیں اور ان کے لیے اصلاح و دعوت اور دُعا کا اہتما م نہ کریں ۔ مگرمسئلہ یہ ہے کہ دعوت کے لیے جس غم ، فکر او ر درد کا ہونا ضروری ہے ، وہ ہمارے قریب سے بھی نہیں گزرااور دعا کے لیے جس سوز کا ہونا لازم ہے وہ ہم سے کوسوں دور ہے ۔ اس لیے ختم نبوت اور حب رسول ﷺ کا بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم درد و سوز کی اس متاع گم گشتہ کے حصول کے لیے بھی اللہ کریم کے حضور ویسے ہی گڑگڑائیں جیسے کہ ہم اپنی کسی بھی اشد ضرورت کے لیے آہ و زاری کرتے ہیں۔اور پھر اس سے عطا کی امید بھی رکھیں کہ وہ کریم ہے اور کریم تو بغیر استحقاق کے بھی دے دیا کرتا ہے۔