تقدیر کے فیصلے

مصنف : عذرا بتول

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جنوری 2011

دیکھ فانی تیری تدبیر کی میت نہ ہو
اک جنازہ جا رہا ہے دوش بر تقدیر کے 

             نجمہ میری پیاری سہیلی تھی۔ ہمارے گھر ایک ہی محلے میں تھے ، ہم دونوں میں بہت محبت تھی ۔ ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اور ہم جماعت بھی تھے ۔ نجمہ ایک نیک طنیت لڑکی تھی ۔ وہ لڑکوں سے دوستی پر یقین نہ رکھتی تھی ۔ اپنی پڑھائی میں مگن رہتی تھی ۔ والدین کی بے حد فرمانبردار تھی ۔ اس کی تربیت ہی ایسی ہوئی تھی کہ اپنے والدین اور بڑے بہن بھائیوں سے ڈرتی تھی۔

            یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نہم میں تھے کہ نجمہ پریشان رہنے لگی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اتنی پریشان کیوں ہو تو اس نے کہا میری امی میری منگنی میرے کزن سے کرنی لگی ہیں جبکہ میں ابھی شادی کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتی۔ میں نے اسے کہا کہ منگنی ہونے دو ، پریشان کیوں ہوتی ہو ، شادی تو بعد میں ہی ہو گی۔ تم سمجھ نہیں رہی ہو ، جب منگنی ہو جا ئے گی تو پھر لڑکے والے شادی کا تقاضا شروع کر دیں گے اور امی ابو انکار نہیں کر سکیں گے تو میری تعلیم ادھوری رہ جائے گی۔

            اس بات سے میں بھی افسردہ ہو گئی کیونکہ میں اپنی سہیلی کو پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کس سے منگنی ہو رہی ہے؟ اس نے بتایا کہ خالد میرے چچا کا بیٹا ہے او روہ ابھی ملازم ہوا ہے۔ چلو تمہارے خاندان کا ہے ، پھر تمہیں کیا پریشانی ہے ، آپس میں بات منوالی جاتی ہے جبکہ غیروں کا تو خیال کرنا پڑتا ہے۔

            اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد نجمہ کی خالد سے منگنی ہو گئی۔ خالد اچھی ملازمت پر تھا ، اس کے علاوہ زمینداری بھی تھی اور وہ خوبصورت بھی تھا ۔ منگنی کے دن میں نے خالد کو دیکھا تو نجمہ کو مبارکباد دی کہ واہ تیرا دولہا تو بہت اچھا او رخوبصورت ہے ، تم خوش قسمت ہو ، ایسے رشتے تو تقدیر سے ملتے ہیں۔ کہنے لگی ، خالد مجھے بھی پسند ہے مگر مجھے تعلیم سے بھی عشق ہے ۔ میں نے گریجوایشن کا خواب دیکھا ہے ، منگنی سے وہ خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ میں نے اسے تسلی دی کہ تم میٹرک کر لو ، جب لڑکے والے شادی کا تقاضا کریں گے تب سوچیں گے لیکن اس کا کہا سچ ثابت ہوا۔ منگنی کو چار ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ انہوں نے شادی کا تقاضا شروع کر دیا۔ اب نجمہ پریشانی میں ٹھیک طرح سے امتحان کی تیاری بھی نہ کر پارہی تھی ۔ اسے ڈر تھا کہ اس کے چچا چچی دباؤ ڈال کر اپنی بات نہ منوا لیں ، اس طرح تو اس کا میٹرک بھی رہ جائے گا ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس کی چچی نے ضد شروع کر دی کہ شادی دو ماہ کے اندر ہوجانی چاہیے ۔ میں بیمار ہوں ، زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ، میں جلد از جلد خالد کا سہرا دیکھنا چاہتا ہوں۔ نجمہ کی امی نے لاکھ کہا کہ بچی کو میٹرک کر لینے دیں تب تک ہم بھی شادی کی تیاری کر لیں گے مگر چچی اپنی موقف سے نہ ہٹی ۔ شاید اس کے دل میں کچھ اور تھا ۔ وہ اپنے شوہر کو بھی یہی کہتی تھی کہ میں نے دو ماہ کے اندر بہو لانی ہے ورنہ میں رشتہ توڑ دوں گی۔

            نجمہ کا رو رو کر برا حال تھا۔ یہ نہیں کہ وہ یہ شادی کرنا نہیں چاہتی تھی بلکہ وہ صرف مہلت چاہتی تھی جو اس کی چچی دینے کو تیار نہیں تھیں۔ اس کو اپنا منگیتر پسند تھا۔ وہ چپکے چپکے اس کو چاہتی تھی مگر زبان پر نہ لاتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ خالد کو کھونا چاہتی تھی نہ تعلیم کو چھوڑنا۔ جب ماں باپ نے نجمہ کو روتے دیکھا تو انہوں نے چچا چچی سے کہہ دیا کہ اگر آپ صبر نہیں کر سکتے تو بے شک آپ خالد کے لیے کوئی اور رشتہ دیکھ لیں ۔ نجمہ جب تک تعلیم مکمل نہ کرے گی اس کی شادی نہ کریں گے ۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے ، پندرہ برس کی بچی ہے آخر گھر داری کیسے سنبھال سکے گی ؟

            جب چچی نے یہ جواب سنا تو اس کو بڑا تاؤ آیا کہ میرے بیٹے کو رشتوں کی کوئی کمی ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ خالد کی شادی اپنی بھانجی ماہم سے کرنا چاہتی تھی ۔ اس نے جھٹ منگنی توڑنے کا اعلان کیا اور پٹ اپنی بھانجی سے اپنے بیٹے کا رشتہ طے کر دیا۔

            خالد کی قسمت میں اس کی خالہ زاد لکھی تھی سو وہ اس کو مل گئی اور نجمہ کو اس بات کا بہت دکھ پہنچا ۔ وہ پریشان رہنے لگی ۔ کہتی تھی اے کاش! میں پڑھائی کے لیے ضد نہ کرتی مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میں نے نجمہ سے کہا تھا خالد سے خود بات کرلو کہ تم اس کو پسند کرتی ہو شاید وہ خود ہی کوئی سٹینڈ لے لیتا ۔ نجمہ نے جواب دیا ، میں ایسا کیسے کر سکتی تھی ۔ میں نے آج تک کسی سے بات کرنی کی ہمت نہیں کی ، خواہ وہ منگیتر ہو یا کوئی کزن ۔ خود سے بات کرنا بہت معیوب ہوتا ، اگر وہ انکار کر دیتا تو میری کیا عزت رہ جاتی ۔

            خدا کی کرنی تھی کہ انہی دنوں اس کے والد صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا او روہ آناً فاناً اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اب گھر کا سربراہ نہ رہا تو ان کے مالی حالات بھی ابتر ہونے لگے ۔ چھوٹی بہنیں پڑھ رہی تھیں ، کوئی اور کمانے والا نہ تھا ۔ نجمہ کی امی نے محلے سے کپڑے لا کر سینے شروع کر دیے کیونکہ وہ سلائی بہت اچھی جانتی تھیں ۔ ہمارے محلے میں ایک اجمل نام کا درزی رہتا تھا ۔جب اس تک آنٹی فضیلہ کی اچھی سلائی کی شہرت پہنچی تو وہ ایک دن ان کے دروازے پر آیا اور بولا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میری دکان کے کپڑے سی دیا کریں ۔ میرے پاس کام بہت ہے اور کاریگر مل نہیں رہے۔ میں آپ کو معقول معاوضہ دے دیا کروں گا۔ آنٹی نے سوچا گھر بیٹھے روزی کا ذریعہ بن رہا ہے ، انہوں نے فوراً حامی بھر لی۔ یوں اجمل درزی اپنے شاگردوں کے ہاتھ کٹائی کر کے کپڑے بھجوا دیتا تھا اور آنٹی مقررہ وقت پر کپڑے پہنچا دیتیں ۔ اجمل چونکہ محلے داری کے باعث ان کے حالات جانتا تھا اس لیے وہ ان کو معقول معاوضہ دیا کرتا تھا۔ اجمل درزی کے کام دینے سے ان کا گزارہ اچھا ہونے لگا ۔ آنٹی کا بیٹا چھوٹا اور آٹھویں میں پڑھتا تھا ۔ آنٹی کی تمنا تھی کہ وہ ڈاکٹر بن جائے۔

            اجمل کی دکان ہمارے سکول کے راستے میں تھی۔ جب ہم اس کی دکان کے سامنے سے گزرتے وہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ۔ ایک سال تک وہ خاموشی سے دیکھتا رہا اور کبھی بات نہیں کی۔ لیکن جب ہم نے کالج میں داخلہ لیا تو نیا یونیفارم سلوانے کی ضرورت پڑ گئی ، تب نجمہ نے مجھے کہا کیوں نہ ہم اپنا یونیفارم اجمل سے سلوا لیں ۔ تب ہم اس کی دکان پر گئے ، وہ ہم سے بات کر کے بہت خوش ہوا۔ شاید وہ ہم سے بات کرنے کا خواہش مند تھا ۔ وہ تھا بھی خوبصورت …… خیر جب ہم نے بتایا کہ ہم یونیفارم سلوانے آئی ہیں تو اس نے کہا آپ اپنا ناپ لائی ہیں؟ نہیں…… ہم دونوں کے منہ سے نکلا ۔ ایسا کریں یہ سلائی والے کپڑے اور اجرت لے جائیں اور اپنی امی کو دے دینا اور ناپ لیتی آنا۔ میں آپ کا یونیفارم کل شام تک سی دوں گا ۔ نجمہ نے کٹے ہوئے جوڑے اور رقم لے لی ۔ گھر واپس آکر کپڑے او ررقم آنٹی کو دی اور ایک کاغذ پر آنٹی سے اپنا ناپ لکھوا کر اجمل کو دے دیا کیونکہ ہمیں کل یونیفارم چاہیے تھا ۔ پرسوں ہم نے کالج جانا تھا۔

             یہ نجمہ کی اجمل سے پہلی ملاقات تھی اگلے دن نجمہ میرے گھر آئی اور کہا کہ چلو اجمل سے یونیفارم لے آتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ وہ اپنے شاگرد کے ہاتھ بھجوا دے گا تو اس نے کہا نہیں ، اس کے شاگرد فارغ نہیں ہوتے ، کوئی کمی بیشی ہو گئی تو صحیح کروالیں گے ہم دونوں اس کی دکان پر گئے ، وہ جیسے ہمارا ہی منتظر تھا۔ میرا یونیفارم مجھے اور نجمہ کا یونیفارم اسے تھما دیا۔ کہنے لگا سلائی کی پرچیاں تھیلے ہی میں ہیں ، گھر جا کر دھیان سے کھولنا۔ یہ بات خصوصی طور پر اس نے نجمہ سے کہی ۔ ہم دونوں اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ گھر جاکر نجمہ نے بڑے اشتیاق سے یونیفارم نکالا تو وہ استری شدہ تھا اور شاپر میں نیچے ایک لفافہ بھی موجود تھا ۔

            وہ ایک خط تھا جو اجمل نے نجمہ کو لکھا تھا کہ میں کئی سال سے آپ کو سکول آتے جاتے دیکھتا تھا ۔ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں مگر مخاطب کرنے کی جرات اس لیے نہ کی کہ آپ برا نہ مان جائیں ۔ پھر آپ کی والدہ سے کپڑوں کے سلسلے میں رابطہ ہوا پھر بھی مخاطب کرنے کی ہمت نہ ہوئی مگر جب آپ خود میری دکان پر آئیں تو دل نے کہا کہ ہمت کر کے دل کی بات کہہ دے ، قسمت نے یاوری کی تو نصیب جاگ جائیں گے ورنہ صبر کرلیں گے ۔ اب آپ مجھ ‘‘ہاں یہ نہ’’ میں جواب دیں ۔ اگر اپنا رشتہ آپ کی والدہ کے پاس بھیجوں تو کیا وہ منظور کر لیں گی یا نہیں ……؟ اس خط کا جواب ضروری دینا۔

            اگلے روز نجمہ نے مجھے وہ خط پڑھوایا ۔ میں نے پوچھا کیا ارادہ ہے تو کہنے لگی کہ دل سے خالد کی یاد اترتی نہیں ، کسی اور سے ازدواجی رشتہ جوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ تب میں نے کہا کہ اس نے جواب ‘‘ہاں یا نہ’’ میں مانگا ہے تو ‘‘نہ’’ کر دو ۔ وہ بولی ، مجھے ایسے کسی کا دل توڑنا اچھا نہیں لگتا ، پھر وہ برا آدمی بھی نہیں ہے۔ ہم کئی برس سے اس کی دکان کے سامنے سے گزر رہے ہیں ، اس نے کبھی کوئی غلط حرکت نہیں کی۔ پھر یہ کیا کم ہے کہ وہ ہمارے لیے روزی کا ذریعہ بنا ہوا ہے ورنہ اماں بے چاری گھروں میں مارے مارے پھرتی تھیں اور محلے والیاں رلا رلا کر پیسے دیتی تھیں ۔ یہ نہ صرف وقت پر بلکہ اچھی اجرت گھر پہنچا دیتا ہے۔

            اچھا تو پھر تم اس کی خوبیوں کی وجہ سے اس کو کیا جواب دو گی؟ میں یہ بہانہ کر دیتی ہوں کہ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی کیونکہ میں نے اپنے بھائی او ربہنوں کو پڑھانا ہے ، ان کی شادیاں کرنی ہیں ، اس کے بعد میں آپ کے بارے میں سوچوں گی کیونکہ ابو تو ہیں نہیں ……! اگر آپ اس وقت کا ا نتظار کر سکتے ہیں تو کر لیں۔

            ایسا کچھ لکھ کر نجمہ نے خط کا جواب دے دیا ۔ اس نے جواب میں لکھا کہ میں تمہارا ا نتظار کروں گا خواہ ساری زندگی ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ اس خط کے بعد اس نے دوبارہ نجمہ کو کوئی خط نہیں لکھا ۔

            جب وہ فرسٹ ایئر کے پرچے دے رہی تھی تو اس کی امی شدید بیمار ہو گئیں۔ اجمل ہی انہیں اسپتال لے کر گیا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور آنٹی کچھ دن بیمار رہ کر فوت ہو گئیں۔ نجمہ بیچاری کی تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی ۔ اس روز وہ بہت روئی لیکن آہستہ آہستہ اس کو صبر آگیا۔

             اب اجمل ہی کا سہارا رہ گیا۔ نجمہ نے ایف اے کر لیا تو اجمل نے اپنے کسی جاننے والے سیٹھ سے کہہ کر نجمہ کو ملازمت دلوادی ۔ وہ نجمہ کے بھائی کی فیس بھی خود ادا کرتا تھا ۔ وہ اتنا شریف انسان تھا کہ اس نے اپنے احسانات کے بدلے کبھی نجمہ سے کچھ نہ مانگا۔ اس سے بات بھی نہ کرتا ، وہ اس کی دکان کے آگے سے گزرتی تو نگاہیں نیچی کرلیتا جس کی وجہ سے نجمہ کے دل نے مان لیا کہ یہ شخص اس سے بے لوث محبت کرتا ہے۔

            نجمہ کو ملازمت سے اچھی تنخواہ ملتی تھی جس سے اس کے گھر کا گزارہ چل جاتا تھا اس وجہ سے بھی نجمہ کے گھر والے اجمل کی بہت عزت کرتے تھے ۔ اصل بات یہ تھی کہ اجمل کا بھی دنیا میں کوئی نہ تھا ۔ باپ بچپن ہی میں فوت ہو گیا ، ماں نے دوسری شادی کر لی ۔ دادی نے پالا پوسا اور جب یہ جوان ہوا تو دادی بھی فوت ہو گئیں۔ اب وہ خود کماتا کھاتا تھا اور اکیلے گھر میں رات گئے جا کر سو جاتا تھا اس کو والدین کے پیار کی چاہ تھی جو نہ ملی۔

            نجمہ نے بی اے کر لیا تو اس کے رشتے آنے شروع ہو گئے ۔ اس نے ہر رشتے سے انکار کیا مگر دونوں بہنوں کی سادگی سے شادی کر دی۔ اس کے بھائی نے میڈیکل میں داخلہ لیا تو اس کو پڑھانے کا ذمہ بھی اجمل نے اٹھایا کیونکہ اس نے سونو کو اپنا بھائی بنالیا تھا ۔ وہ واقعی کمال کا شخص تھا ، اس نے بے لوث اور بغیر غرض کے اس کنبے کی مدد کی۔

            آخرکار نجمہ کا بھائی بھی ڈاکٹر بن گیا۔ پڑھائی کے دوران ہی اس کی دوستی اپنی ایک کلاس فیلو لڑکی سے ہو گئی ، پھر اس نے نجمہ سے پوچھے بغیر ہی سدرہ سے شادی کر لی ۔ اس بات کو نجمہ نے بہت محسوس کیا مگر کیا کرتی ، اس کو بھائی سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ایک بھائی کے سوا اس کا اور کون تھا۔

            شادی کے چند ماہ بعد سونو اور اس کی بیوی علیحدہ ہو گئے اور بھائی نے بہن کی خدمات کو بھلا دیا۔ اب وہ کبھی کبھی رسمی طور پر نجمہ سے ملنے آجاتا۔ نجمہ گھر میں اکیلی رہ گئی تو اس کا شدت سے تنہائی کا احساس ہوا، اب وہ اکثر میرے گھر آجاتی اور کہتی فری سچ کہتی ہوں کہ زندگی تنہا نہیں گزرتی ۔ عورت کے لیے ایک جیون ساتھی کی شدید ضرورت ہوتی ہے جو اس کے دکھ سکھ کا شریک ہو۔

            میں نے کہا اجمل کے بارے میں سوچوجو ابھی تک تمہارے انتظار میں بیٹھا ہے ، اس نے اتنی وفا کی او رتم نے اسے اتنا انتظار کرایا …… تو کیا اب وہ قیامت تک انتظار ہی کرتا رہے گا؟ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی تو کیا میں اب خود جاؤں اس کو کہنے کہ رشتہ بھیجے ۔

            میں جانتی ہوں کہ تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتیں ورنہ جہاں مرضی ہو وہاں راستہ خود بخود نکل ہی آتا ہے ۔ لگتا ہے تمہارے دل سے خالد ابھی تک نہیں گیا۔ چونکہ میری بات صحیح تھی ، اس نے سر جھکا لیا۔میں نے سوچا کہ اب مجھ کو ایک اچھی دوست کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ میں اجمل بھائی کے پاس گئی اور کہا کہ نجمہ اب اکیلی ہے ، اس کی بہنوں کی شادیاں ہو گئی ہیں اور بھائی بھی شادی کے بعد علیحدہ ہو گیا ہے اور نجمہ سے برائے نام تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہنے لگا مجھے سب معلوم ہے ۔ تو پھر چپ کیوں بیٹھے ہو ؟ کچھ سوچتے کیوں نہیں ۔ نجمہ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا ، جس روز اس نے عندیہ دیا رشتہ بھیج دوں گا ۔

            اس نے عندیہ بھیج دیا ہے ، اب دیر نہ کرو ۔ اسی ہفتے اجمل نے اپنے ایک رشتہ دار بزرگ اور اس کی بیوی کو نجمہ کے گھر بھیجا ۔ ادھر میں اور امی اس کے پاس پہلے سے موجود تھے ، ابو کو بھی ہم نے بلا لیا۔ یوں اجمل اور نجمہ کا رشتہ طے ہو گیا۔

            نجمہ کو اس رشتے سے اطمینان تو تھا مگر دلی خوشی اس کے چہرے پر نہ تھی ، بس جیسے کوئی مجبوراً رشتہ کر لیتا ہے ۔ بہرحال کچھ دنوں کے بعد دونوں کی منگنی ہو گئی اور نجمہ کے اصرار پر اجمل اپنے خوابوں کی تکمیل کے خیال سے بہت خوش تھا ۔ وہ اپنا گھر سجا رہا تھا کیونکہ دو ماہ بعد اس کی شادی تھی ۔

            خدا جسے چاہے خوشی دے اور جسے چاہے غم سے ہمکنار کر دے ۔ نجمہ نے نجانے کب خالد سے ایک ہونے کی رو رو کر دعا کی ہو گی جو برسوں بعد اس وقت قبول ہو گئی جب نجمہ کو اس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔

            ایک دن اس کے چچا اور چچی آگئے، نجمہ کو گلے لگایا اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ہم تیرے پاس سوالی بن کر آئے ہیں۔ خالد کی بیوی تیسرے بچے کو جنم دیتے ہوئے فوت ہو گئی ہے اور اس بات کو چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ اب ہم سوالی بن کر آئے ہیں ، خالد نے خود ہمیں بھیجا ہے ، وہ ابھی تک تیری محبت دل سے نہیں نکال سکا ۔ چچی نے کہا کہ تم بچوں کو فکر مت کرو ، وہ میں خود سنبھال لوں گی ، بس تم خالد کی خوشی کا خیال کرو۔ اس کے دل میں تم بسی ہواور ہمیں اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے۔

            نجمہ چپ چاپ یہ باتیں سنتی رہی اور ان کے جانے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر روئی ۔ اتفاق یہ کہ میں بھی اس وقت اس کے گھر پہنچ گئی ۔ میرا گھر امی ابو کے گھر کے قریب ہی تھا اور میں روز جایا کرتی تھی ۔ مجھ کو د یکھتے ہی نجمہ میرے گلے لگ گئی او رجتنا غبار نکال سکتی تھی ، خوب نکالا۔

            اب نجمہ دوراہے پر تھی۔ ایک طرف اجمل کا خلوص، اس کی بے لوث خدمات اور پھر منگنی بھی ہو گئی تھی ۔ دوسری جانب خالد کا رشتہ آگیا جو اس کی پہلی اور آخری محبت تھا ۔ بات ختم ہوجاتی مگر اس کے چچا اور چچی نے روز آنا شروع کر دیا ۔ وہ نجمہ کی منت سماجت کرتے کہ انکارنہ کرو ، تم ہمارا خون ہو ، تم ہی خالد کی تقدیر تھیں اس وجہ سے تو خدا نے دوبارہ تم کو ملانے کا سامان پیدا کر دیا ہے

            آخر اس مسلے کو بھی میں نے ہی حل کیا اور جا کر اجمل بھائی کو بتا دیا کہ نجمہ کے چچا اور چچی اس کے پہلے منگیتر کا دوبارہ رشتہ لائے ہیں ۔ اصل میں نجمہ خالد ہی سے پیار کرتی تھی مگر تقدیر نے دونوں کو جدا کر دیا تھا ، اب قسمت ان کو دوبارہ ملانا چاہتی ہے ، تم کیا کہتے ہو؟ نجمہ کیا کہتی ہے ؟ اجمل نے سوال کیا ۔ نجمہ بہت پریشان ہے ۔ کس وجہ سے……؟ اس وجہ سے کہ ایک طرف تمہارے احسانات ہیں تو دوسری طرف اس کی محبت ۔

            ‘‘محبت افضل ہے۔’’ اس نے کہا ۔ رہی بات احسانات کی تو وہ اتارے جا سکتے ہیں مگر میں نے انسانیت کے ناطے یہ سب کچھ کیا کیونکہ میرا اپنا کوئی نہ تھا اور میں آنٹی فضیلہ میں اپنی ماں کے روپ میں دیکھتا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ سے منگنی کی انگوٹھی اتار کر میرے ہاتھ پر رکھی اور کہا : نجمہ اپنی خوشیاں پوری کرنے کے لیے آزاد ہے ، اس کو کہو میرا خیال نہ کرے بلکہ اپنے خاندان میں چلی جائے کیونکہ شاخ درخت پر ہی سجتی ہے ۔

            جب میں نے یہ خبر نجمہ کو سنائی تو وہ اور زیادہ روئی ۔ اسی شام اس کے چچا اور چچی دوبارہ آئے تو میں نے امی کو بھیج دیا۔ انہوں نے ان سے کہا کہ آپ پہلے کہاں تھے، اتنی مدت تک خبر ہی نہ لی اور اب آئے ہیں تو نجمہ کو کچھ دیر سوچنے کا موقع دیجیے ۔

            اگلے روز میں کسی کام سے گھر سے نکلی تو اجمل کی دکان پر کوئی اور شخص بیٹھا تھا ۔ پندرہ دن تک وہ نظر نہ آیا تو میں نے نئے درزی سے پوچھا کہ اجمل بھائی کہاں گئے ؟ اس نے کہا اس نے سعوی عرب کا ویزہ لے لیا ہے ، وہ وہاں چلا جائے گا اور اس نے یہ دکان مجھے دے دی ہے ۔ یہ اجمل کا دوست تھا اور اجمل نے دکان اس کو فروخت کر دی تھی۔

            یہ سن کر مجھے دکھ تو ہوا لیکن میں کیا کرتی …… خالد کی نجمہ سے شادی ہو گئی ۔ دونوں نے غالباً صدق دل سے اپنے رب سے ایک ہونے کی دعا کی ہو گی ۔وہ اب اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔

            مگر افسوس اجمل بدنصیب ہی رہا ۔ ایک روز اجمل کی دکان پر قرآن خوانی ہو رہی تھی اور اس کے سب شاگرد جمع تھے ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اجمل سعودی عرب میں ایک کار حادثے میں اللہ کو پیارا ہو گیاہے۔ اجمل سعودی عرب میں دو سال رہا ، وہ اس مقدس سرزمین پر واپس نہ آنے کے لیے گیا تھا ۔ اور اب وہ واقعی کبھی واپس نہ آئے گا۔

            جس نے بھی سنا ، یہی کہا کہ خدا اس کی مغفرت کرے ، وہ بلاشبہ بہت اچھا انسان تھا۔ اور اس دن نجمہ ایک بار پھر بہت روئی تھی۔

٭٭٭