اپنے بچوں کو جانیے

مصنف : سدرہ ڈار

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : 2017 جنوری

 

سچی کہانی
اپنے بچوں کو جانیے
سدرہ ڈار

تلخ معاشرتی حقائق پر مبنی ایک چیختی چلاتی سچی کہانی

 

پر تکلف عشائیے کے بعد چائے کا انتظار کرنے کے لئے ہم نے لاونج میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ مسز حارث چائے بنانے کچن چلی گئیں باقی تمام لوگ باتوں میں مصروف ہوگئے۔ دیوار پر لگی ایک پینٹنگ پر میری نگاہ پڑی جو ٹوٹے ہوئے کانچ سے بنائی گئی تھی اور بعد میں اس پر لاتعداد رنگ بھر دیے گئے تھے۔ میں نے کافی سمجھنے کی کوشش کی کہ پینٹنگ ہے کیا لیکن سمجھ نہ سکی البتہ پینٹنگ تھی اتنی خوبصورت کہ بار بار میری نظر اس پر پڑ تی رہی۔ اس دوران میں چائے آگئی۔ چائے آتے ہی ہنسی مذاق کا دور شروع ہوا۔ اسی دوران میں ایک بند کمرے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک چودہ، پندرہ سال کی دبلی پتلی سی بچی، موٹے فریم کی عینک لگائے تیزی سے نکلی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی اور اگلے پانچ منٹ میں ہاتھ میں کچھ چھپائے واپس اسی کمرے میں تیز ی سے داخل ہوئی اور دروازہ بند کرلیا۔ اس لڑکی کی موجودگی کا میں نے ذرا زیادہ نوٹس لیا۔ باقی لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ میں نے مسز حارث سے پوچھا یہ کون تھیں؟ کھانے پر تو ملاقات نہیں ہوئی انھوں نے انتہائی بے زاریت سے جواب دیا یہ میری بڑی بیٹی ہے زارا۔ میں چونک گئی کیونکہ پچھلے تین چار گھنٹے سے میں اس گھر میں تھی، مسز حارث نے اپنے باقی تین بچوں کا تعارف بھی کروایا، ہر موضوع پر ان سے ان کے شوہر سے بے تکلف بات ہوئی لیکن کہیں بھی اس بچی کا ذکر نہیں ہوا۔ لیکن ان کا اپنی بیٹی کے بارے میں بتاتے ہوئے کاٹ دار لہجہ مجھے تجسس میں مبتلا کرگیا۔ دعوت اچھی رہی اور میں گھر آگئی لیکن اس بچی کا چہرہ جو وہ چھپاتے ہوئے کمرے سے نکلی اور بھاگ کر واپس اسی کمرے میں داخل ہوئی بار بار نظروں کے سامنے آتا رہا۔
کچھ دنوں کے بعد مجھے ایک کام کے سلسلے میں اسپتال جانا پڑا جہاں ایک آگاہی سیمینار تھا وہیں میری ملاقات حارث صاحب سے ہوئی چونکہ ان سے بات چیت اچھی تھی تو سیمینار کے اختتام پر ہم نے چائے پینے کا ارادہ کیا۔ میں نے رسماً ان کی بیگم اور بچوں کا پوچھا تومسکراتے ہوئے انھوں نے جواب دیا۔ اور میرا اگلا سوال زارا کا تھا وہ کیسی ہے جس پر ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ صحافی ہونے کی ناتے، کھوج کی مجھے عادت ہے، سوال کرنا میں چھوڑ نہیں سکتی۔ میں نے صاف صاف پوچھ ڈالا کہ اس دن آپ لوگوں نے دعوت پر اپنی بیٹی کا تعارف کیوں نہیں کروایا؟ مجھے تو وہ بچی کچھ ڈسٹرب سی لگی کیا کوئی مسئلہ ہے؟ اس پر حارث صاحب نے کچھ دیر خاموشی کے بعد بتایا۔
زارا میری بڑی بیٹی ہے اس وقت اس کی عمر پندرہ برس ہے اور نویں جماعت میں ہے۔ جب یہ پیدا ہوئی تو پہلی اولاد کی طرح ہم نے اس کے وہ سارے ناز نخرے اٹھائے جو پہلی اولاد کے حصے میں آتے ہیں۔ شروع سے کھانے پینے کی چور رہی، صحت بھی عام بچوں کی طرح نہیں تھی لیکن بہت ایکٹیو اور ذہین تھی۔ اس کے جلدی چلنے، بولنے نے ہم سب کو بڑا حیران کیا۔ باتیں بڑی مزیدار کرتی تھی کہ گھنٹوں سنا جاسکتا تھا۔ ہم نے اسے چار سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروا دیا۔ میں اور بیگم مصروف رہتے تھے تو ہم نے اس کی اسکول وین لگا دی۔ عموما بچے اسکول جاتے ہوئے روتے ہیں، لیکن یہ بچی خوشی خوشی گئی۔ واپس آتی تو اور بھی خوش ہوتی۔ روز اپنی اسکول کی کچی پکی نظمیں سناتی لیکن دو ماہ گذرے تو یہ خوشی کم ہونے لگی۔ اب اسکول سے آتی تو کھانا کھاتی اور فورا سوجاتی، ، شام کو چپ چاپ ہوم ورک کرتی۔ میں شام کو دفتر سے گھر آتا اور پوچھتا کہ آج تو نظم سنادو تو میرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی نظم شروع کرتی اور پھر خلاؤں میں گھور نے لگتی اور کہتی بابا بھول گئی ہوں۔ میں پیار کرتا اور وہ پھر ٹی وی پر کارٹون دیکھنے لگتی۔کچھ دنوں بعد اسکول سے شکایت آئی کہ زارا ہوم ورک نہیں کر کے لاتی۔ اس بات نے ہمیں حیران کیا کیونکہ میری بیگم اسے روز ہوم ورک کرواتی تھی۔ لیکن جب کاپیاں دیکھیں تو پچھلے کام کے صفحے پھٹے ہوئے ملے۔ زارا سے پوچھا تو وہ خاموش۔ ٹیچر کی جانب سے شکایتوں کا انبار بڑھتا چلا گیا، بیگم زارا کو پڑھانے بیٹھتی تو وہ پڑھتی نہیں تھی صرف پینسل سے لکیریں مارتی رہتی تھی۔ یہاں تک کہ بیگم کا حوصلہ جواب دے گیا اور اس نے اس کی ڈھٹائی پر کئی بار مارا بھی۔ زارا روئی بھی نہیں۔ میں یہ دیکھتا رہتا تھا لیکن سمجھ نہیں پارہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ ایک سال گزر گیا زارا مشکل سے پاس ہوئی اور آگے کلاس میں گئی اس وقت تک دوسری بیٹی بھی گھر کی رونق بن چکی تھی، بیگم کی توجہ اس پر ہوگئی تو میں نے بیڑا اٹھایا اور زارا کو پڑھانے بیٹھا لیکن نتیجہ وہی رہا۔بیگم نے معمول بنالیا زارا کو ڈانٹنے کا لیکن اس پر تو ہر بات بے اثر تھی۔ ایک شام میں اس کو پارک لے کر گیا اور کہا کہ جاؤ کھیلو اور خود اٹھ کر ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ زارا جھولوں کے پاس گئی اور کھڑی ہوگئی اس نے ایک بار بھی ہمت نہیں کی کہ وہ سلائیڈ پر جائے بچے بار بار سلائیڈ لینے جاتے تو اس کو دھکا دیتے، کہنی مارتے لیکن وہ کھڑی رہی اور ناخن چباتی رہی تھوڑی دیر بعد وہاں سے آئی تو میں سامنے آگیا۔ میں نے پوچھا ہاں بھئی کیا ہوا؟ میری پانچ سال کی بچی نے کمال اعتماد سے مجھے یقین دلایا بابا میں تھک گئی بہت ساری سلائیڈ لی ہیں اب گھر چلیں۔ اس بات نے مجھے ہلا ڈالا۔ میں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور پاس ایک دکان پر لے گیا اور پوچھا کیا کھاؤگی؟ بلکہ اسکول کا لنچ بھی لے لو تو اس نے کہا جو مرضی لے لیں بابا میں سب کھالوں گی۔مجھے اس جواب نے بھی حیرت میں ڈالا کہ اس عمر کا بچہ بے شمار خواہشات رکھتا ہے کمپرومائز نہیں کرتا۔ میں نے ڈھیر ساری چیزیں لیں اور گھر آگیا۔ اگلے دن یونہی خیال آیا کہ آج میں اسے وین سے نہیں خود اسکول ڈراپ کروں۔ شام دفتر سے واپسی پر ایک بار پھر پارک لے کر گیا تو زارا نے مجھے کہا بابا مجھے وین میں بھیجا کریں آج وین کے بچے بہت ناراض ہوئے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے سر جھکا کر جواب دیا وہ میرا لنچ آج صبح بچوں کو نہیں مل سکا تو ان سب نے مجھے واپسی پر زیادہ مارا۔ میں نے زارا کے لہجے میں خوف کو محسوس کیا اور پوچھا کہ کیا روز آپ کا لنچ بچے کھاجاتے ہیں؟ تو اس نے بتایا جی روز وین میں میرا لنچ کھا لیا جاتا ہے اور سب بچے مجھے پینسلز چبھاتے ہیں، کاغذ کے گولے بنا کر مارتے ہیں۔ میں نے پوچھا پھر تم کیا کرتی ہو؟ تو اس نے کہا بابا میں سو جاتی ہوں پھر مجھے درد نہیں ہوتا۔
اسکول میں نہ جانے کب سے وہ تضحیک کا نشانہ بن رہی تھی، ، اس کے بیگ سے کاپیاں نکال کر چھپادی جاتی تھیں، ہوم ورک پھاڑ دیا جاتا تھا، پانی کی بوتل سے پانی اس کے سر پر ڈالا جاتا تھا، کلاس میں شور کرتے ہوئے سارا الزام اس پر ڈال دیا جاتا تھا، وہ ٹیچر سے سزا پاتی، بچوں کی نفرت کا شکار بنتی، اپنی سانولی رنگت کی وجہ سے وہ بچوں کی ناپسندیدگی کا شکار تھی۔
پہلے وہ نظمیں بھولنے لگی، پھر ٹیبل یاد نہیں ہوتے تھے اور پھر پیپر خالی چھوڑنے لگی، میری زارا نے ایک سال کے اندر اندر بہت کچھ چھوڑنا شروع کیا، کھلونے ریک میں پڑے مٹی کھاتے رہے، لان کا جھولا ویران سا لگنے لگا۔ جہاں دو لوگ اونچی آواز میں بات کرتے وہ آنکھیں بند کر لیتی اور پھر سمجھانے کے باوجود بھی وہ تبدیل نہ ہوئی اور کمرے میں اندھیرا بھی ہونے لگا۔ میں یا بیگم کمرے کی لائٹ آن کرتے تو وہ تکیہ منہ پر رکھ لیتی۔ چھ سے سات سال کی عمر میں وہ انتہائی ضدی ہوچکی تھی، بات کم کرتی لیکن من مانی زیادہ۔اسکول میں کئی بار میں یہ مسئلہ لے کر گیا، کئی بچوں کو وارننگ بھی ملی لیکن کہیں نہ کہیں اس کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی اور گھر میں ماں کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ نے اسے ماں سے بھی دور کردیا۔ اسے لگا کہ سب کی طرح اس کی ماں بھی اس کی دشمن ہے۔ اس کے بعد گھر میں ایک بیٹی اور دو بیٹے بھی آگئے لیکن زارا ایک شیل میں بند ہوتی چلی گئی۔ اندھیرا اسے اتنا بھانے لگا کہ وہ اسی میں رہتی کئی بار اس نے اپنے کمرے کے ہولڈر میں سے بلب نکال کر توڑ دیے۔ وہ اگر کسی سے بات کرتی تو وہ صرف میں تھا۔ سمجھاتا تو تھا لیکن وہ ہر بات نظر انداز کرتی۔ باہر وہ کسی کے ساتھ نہیں جاتی تھی۔ ہم کسی تقریب میں جاتے تو گھر میں لڑائی چھڑ جاتی کیونکہ زارا کو گھر میں رہنا ہوتا تھا اس کی وجہ سے ایک ملازمہ کو مستقل گھر میں رہنا پڑتا۔ ایک بار میں اسے سنڈے بازار لے گیا۔ بیگم کو کافی برا لگا کیونکہ زارا ماں کی روک ٹوکی کی وجہ اسے اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی تو میں اسے اکیلے لے گیا۔اس دن میں نے اسے کتابوں کے اسٹالز پر محو دیکھا ڈھیروں اسٹوری بکس دلائیں اور مزید دلانے کا وعدہ کیا، واپسی پر اس نے کہا بابا ایک ٹارچ چائیے میں نے وجہ جانے بغیر دلادی۔ کچھ روز بعد ایسے ہی کمرے میں گیا تو دیکھا وہ کتاب ٹارچ کی روشنی میں پڑھ رہی تھی میں نے سمجھایا کہ اس طرح نظر کمزور ہوجائے گی لیکن وہ نہیں مانی۔ امتحان قریب آتے تو وہ تیاری کرنے کے بجائے بھی ہیری پورٹر پڑھتی یا کچھ لکھتی اور چھپا دیتی۔ میں نے محسوس کیا کہ کلاس سکس میں آنے کے بعد اس کے گریڈز اچھے ہونے لگے ہیں۔ ذہین تو وہ شروع سے ہی تھی لیکن دوست کوئی نہ بنا۔ ایک بار میں نے اس کے اسکول کے ٹائم پر اس کے کمرے کی تلاشی لی تو بہت سے صفحے ملے جس پر انگریزی نظمیں تھیں جو اس نے لکھیں تھیں پڑھ کر اندازاہ لگانا مشکل تھا کہ کیا یہ اس بچی نے لکھی ہیں ۔ہر نظم میں دکھ، تنہائی، خوف، اور محرومی چھلک رہی تھی۔پلنگ کے نیچے سے ایک ڈبہ ملا جس میں بہت سے کانچ تھے جو ٹوٹے بلب تھے اور گھر میں ٹوٹنے والے گلاس تھے۔ ہر ہفتے ہی کوئی گلاس ٹوٹ جاتا تھا جب زارا کچن میں پانی پینے جاتی وہ سارے کانچ اس ڈبے میں جمع ہورہے تھے۔ مجھے ڈر سا لگا کہیں یہ بچی خود کو نقصان نہ پہنچا لے۔ سوچا ڈبہ غائب کردوں پھر ایسا نہ کیا۔ رات میں زارا کو منایا کہ بابا کے ساتھ واک کرلو بہت بے دلی سے ساتھ چل پڑی تو میں نے اس کو ایک فرضی کہانی سنائی۔ بچپن میں مجھ سے ایک بار تین کانچ کی پلیٹیں ٹوٹ گئیں تمہارے دادا نے بڑا مارا اور سارے کانچ کوڑے دان میں ڈالے کہ کہیں کسی کو چبھ نہ جائیں ۔میں بڑا تیز تھا آدھی رات سارے کانچ چن کے نکال لئے اور اسٹور میں چھپائے اور وہاں بیٹھ کر ایک مضبوط سے گتے پر ان کانچ کو چپکایا، بازار سے رنگ لایا ان پر رنگ کیا اور نیچے کونے میں اپنا نام لکھ کر جمع کئیے ہوئے پیسوں سے فریم بنایا۔ ابا کی سالگرہ ہوئی تو تحفے میں دیا اور کہا کہ یہ جب بھی دیکھیں گے یاد آئے گا کہ پلیٹیں ٹوٹ کر بھی کام آگئیں۔کہانی سن کر زارا کا اگلا سوال آیا یہ رنگ کہاں سے ملتے ہیں؟ فریم کہاں بنتے ہیں؟ میں نے کہا کل چلتے ہیں لے کر آتے ہیں۔ اگلے ماہ میری سالگرہ پر زارا ٹوٹے کانچ کی ایک پینٹنگ لائی اور کہا بابا یہ میری طرف سے فریم خود کرا لیجئے گا۔ میں نے گھنٹوں میں وہ فریم بنوایا اور اپنے لاؤنج میں لگالیا۔ نہ وہ کوئی شکل ہے نہ کوئی تصویر لیکن مجھے وہ پینٹنگ دیکھ کر
احساس ہوتا ہے کہ یہ میری زارا ہے جس کے ذہن کی گرہیں مجھے ان ٹوٹے بکھرے کانچوں میں نظر آتی ہیں۔ یہ بے ربط پینٹنگ اب مجھے نظروں میں گھومنے لگی اور حارث صاحب کی آنکھوں میں نمی جگمگانے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد بولے۔
سدرہ! ہم سے بڑی بھول ہوئی، زارا ہم سے دور ہوتی گئی۔ اس نے خود تو تباہ کرلیا اور ہم اپنی زندگی میں مصروف رہے، باقی بچوں میں لگے رہے۔ اس کو غلط سمجھا اور زمانے کی طرح اس کی سزائیں مقرر کرتے رہے۔ وہ کسی کے سامنے نہیں آتی ماں سے بہن بھائیوں سے نفرت کرتی ہے اس کا کوئی دوست نہیں اس نے اس عمر میں اندھیرے کو اپنا دوست بنایاہوا ہے۔ جب کہ بچے اندھیرے سے ڈرتے ہیں۔ وہ اور لڑکیوں کی طرح نہ اچھا لگنا چاہتی ہے نہ محبت کی طلبگار ہے۔ اس کا ڈر، خوف ختم ہوچکا ہے وہ بہت دور جا چکی ہے لیکن کبھی کبھی وہ اچانک میرے کمرے میں رات کو آتی ہے اور کہتی ہے کہ بابا اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا آج میں آپ کے پاس سو جاؤں؟ تو میں کہتا ہوں آجا پوچھنا کیا۔ اس رات وہ گہری نیند سوجاتی ہے شاید میں ایک وہ واحد انسان ہوں جس پر وہ اعتبار کرتی ہے تحفظ پاتی ہے۔ ہر ہفتے یا مہینے میں دو بار آج بھی گلاس ٹوٹتے ہیں۔ ڈائری کے صفحے پھاڑ کر شاعری اب بھی ہوتی ہے اور میٹرس کے نیچے چھپادی جاتی ہے۔ بے ربط سے لکیریں مار کر کئی اسکیچ اب بھی بنتے ہیں لیکن ہم اسے کھو چکے ہیں۔
کاش ہم نے جب اسے اسکول بھیجا تھا تو ان تبدیلیوں کو اسی وقت سنجیدگی سے لے لیتے۔ اس کے ساتھ ہتک آمیز سلوک اس حد تک آگے نہ بڑھتا۔ اس کا سکول بدل دیتے یا نہ سوچتے کہ شہر کے مہنگے ترین اسکول میں سب اچھا ہے۔ کمی ہماری بیٹی میں ہے۔ کاش اس کی ماں وجہ جانے بنا اس پر سختی نہ برتتی، اس کے مسائل کا سد باب کرلیا جاتا تو آج یہ زارا الگ زارا ہوتی۔ یہ سب سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اسکول جانے والے ننھے منے بچے جو صحیح طرح بول نہیں پاتے نہ جانے کس کس اذیت سے دوچار ہوجاتے ہوں گے۔ والدین اپنے بچوں کو سب مہیا کرتے ہیں لیکن اس بات پر خاص نظر رکھیں کہ کہیں ان کا بچہ بھیڑ میں تنہا تو نہیں؟ کہیں یہ پھول مرجھا تو نہیں رہا۔ یہ دیکھنا والدین کا کام
ہے یہ ضروری نہیں کہ ہر بار آپ کا بچہ ہی غلط ہو کبھی کبھی وہ بتا نہیں پاتا۔ سمجھنا آپ کا کام ہے نہیں سمجھیں گے تو اپنے گھر میں بھی کسی زارا کو پائیں گے۔***