بے گناہ قیدی

مصنف : عبقری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : دسمبر 2012

            میراایک دوست کسی جرم میں لاہور جیل میں قید تھا’ کافی عرصہ ملاقات نہیں ہوئی تھی لہٰذا ایک دن میں اپنے دوست کو ملنے جیل گیا’ وہاں ڈیوٹی پر موجود سپرنٹنڈنٹ میرا شناسا نکلا’ میں چونکہ A.Cمکینک ہوں اس لیے مجھے لاہور کے تقریباً بڑے گھروں میں جانا پڑتا ہے اس وجہ سے سپرنٹنڈنٹ صاحب بھی میرے واقف کار تھے’ انہوں نے مجھے بڑی عزت سے بٹھایا اور جیل آمد کی وجہ پوچھی’ تو میں نے اپنا مدعا بیان کیا سپرنٹنڈنٹ صاحب نے بڑی شفقت کے ساتھ صرف ملاقات کی اجازت ہی نہیں بلکہ ایک کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ ان کو ان کے دوست سے ملوادو۔ اب میں خراماں خراماں سیدھا دوست کے بیرک میں پہنچا’ ملاقات ہوئی باتوں باتوں کا سلسلہ چل پڑا’ تو دوست نے کہا کہ یہاں میرے ساتھ ایک پٹھان بے چارہ بے گناہ قید ہے’ آپ بھی ان سے ملیں۔ پھر میرے دوست نے پٹھان قیدی کو آواز دی وہ فوراً آگیا اور بڑی محبت سے ملا۔ اب میں نے پٹھان بھائی سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے پہنچ گئے تو پٹھان بے چارہ آبدیدہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ تقریباً دو سال سے یہاں جیل میں بے گناہ سڑرہا ہوں اور پھر اپنا واقعہ سنایا کہ میں پشاور سے سائیکل لاکر لاہور میں فروخت کرتا تھا اورلاہور سے سامان لیکر پشاور میں فروخت کرتا تھا یوں میرے گھر کا چولہا جل رہا تھا۔ ایک دن ایک تھانیدار صاحب ملے اور انہوں نے اپنا کمیشن مانگا میں نے فوراً انکار کیا۔ تھانیدار کہنے لگا کہ کمیشن دو تو فائدے میں رہو گے ورنہ آپ کانقصان ہوگا۔ میں نے پھر انکار کیا’ اس کے بعد تھانیدار چلا گیا۔ دو دن بعد میں مارکیٹ میں تھا کہ پولیس کی ایک موبائل گاڑی آئی جس میں وہ تھانیدار بھی تھا اور انہوں نے مجھے گرفتار کیا اور سیدھے تھانے پہنچا دیا۔تھانہ پہنچ کر تھانیدار نے میرے خلاف پرچہ کروایا کہ اس سے ایک کلو چرس اور ایک کلو افیون برآمد ہوئی ہے’ مقدمہ عدالت میں چلا گیا’ مجھے ریمانڈ پورا ہونے پر جیل بھیج دیا گیا۔ تب سے لیکر اب تک دوسال ہوئے ہیں میں جیل میں ہوں۔ غریب آدمی ہوں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں’ وکیل کے اخراجات قرض لیکر ادا کررہا ہوں۔ یہ سارا واقعہ سن کر میں بہت دکھی ہوا اور تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر اچانک میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی۔ میں نے فوراً پٹھان کو کہا کہ بھائی میں آپ کو ایک تدبیر بتاتا ہوں اگر دل مان لے تو کرلینا ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک آپ کو رہائی نصیب فرمادے۔ پٹھان نے کہا کہ آپ بتائیں اگر میرے بس میں ہوا تو میں ضرور عمل کروں گا۔ میں نے کہا کہ اس دفعہ جب آپ پیشی پر جائیں تو جج کو کہیں کہ اس تھانیدار نے عدالت کو دھوکہ دیا ہے میرے پاس ایک من چرس تھی اور ایک من افیون’ اس تھانیدار نے ایک کلو عدالت میں پیش کی ہے لیکن باقی مال یہ خود بیچ چکا ہے’ لہٰذا عدالت سے گزارش ہے کہ اس سے باقی مال بھی برآمد کیا جائے۔ میری یہ تدبیر سن کر وہ تھوڑی دیر سوچ میں پڑگیا اور پھر تیار ہوگیا۔ اس کے بعد اگلی پیشی پر میں بھی عدالت میں حاضر ہوا۔ پٹھان نے بعینہ اسی طرح کہا جس طرح میں نے اس کو سمجھا دیا تھا۔ اب تھانیدار صاحب بھی عدالت میں موجود تھا اس کے چہرے کا رنگ اڑگیا اور وہ زور زور سے بولنے لگا جناب یہ جھوٹ بولتا ہے’ اس سے اتنا ہی مال برآمد ہوا جتنا میں نے عدالت میں پیش کیا ہے۔ اب پٹھان صاحب کے وکیل نے فوراً اعتراض کیا کہ جناب یہ جھوٹ ہے یا سچ اس کی تحقیق کرنا عدالت کا کام ہے’ لہٰذا میں عدالت سے گزارش کروں گا کہ میرے موکل کے الزام کی تصدیق کیلئے تھانیدار کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ اس پر جج صاحب نے تھانیدار کی پیٹی اتروا دی اور پولیس والوں کو حکم دیا کہ اگلی پیشی پر تھانیدار سے باقی مال برآمد کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگلی پیشی سے پہلے تھانیدار نے پٹھان کی منت سماجت شروع کردی لیکن اب پٹھان بالکل انکار کرتا رہا۔ بالآخر پٹھان نے کہا کہ فقط ایک صورت ہے کہ آپ بھی عدالت میں اقرار کریں کہ آپ نے مجھے بے گناہ پھنسا دیا تھا پھر میں بھی اقرار کروں گا کہ میں نے بھی

 جھوٹ بولا تھا۔ میرے پاس سرے سے کوئی مال تھا ہی نہیں۔ لیکن یہاں پر تھانیدار نے کہا کہ پہلے آپ عدالت میں بیان دیں گے بعد میں میں بیان دوں گا۔ پٹھان مان گیا۔ پیشی والے دن دونوں عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے پوچھا کہ کیا تھانیدار سے باقی مال برامد ہوا یا نہیں؟ تو تھانیدار پھر فوراً بولا جناب اس سلسلے میں فریق مخالف سے پوچھیں وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن اس وقت پٹھان کے وکیل نے اعتراض کیا کہ میرے موکل کو جوکچھ کہنا تھا کہہ چکے اب صفائی پیش کرنا تھانیدار کا کام ہے لہٰذا میرا موکل کچھ نہیں بولے گا۔ اب تھانیدار مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بولنا شروع ہوگیا اور اپنے جرم کا اقرارکیا کہ میں نے اسے جھوٹا پھنسایا تھا۔ اس کے بعد پٹھان نے کہا جناب والا میں نے بھی جھوٹ بولا تھا کہ میرے پاس ایک من چرس اور افیون تھی۔ لیکن یہ جھوٹ بولنا میری مجبوری تھی کہ اس کے بغیر سچ ثابت نہیں ہوسکتا تھا۔ اب عدالت جو سزا سنائے میں بھگتنے کیلئے تیار ہوں۔ چنانچہ جج صاحب نے فیصلہ سنایا کہ پٹھان کو باعزت رہا کیا جائے اور تھانیدار کو نوکری سے نکال دیا جائے اور پانچ سال قید کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح ایک ظالم اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

٭٭٭