ترجمہ: عبدالخالق مدنی
مال کی محبت فطری چیز ہے لیکن سعادت مندی یہ ہے کہ مال کو آخرت سنوارنے کے لئے خرچ کیا جائے :
سلف صالحین کی پند و نصائح سے استفادہ کرنے والے لوگ اس حقیقت کا بخوبی ادراک کر لیتے ہیں کہ مال کی محبت فطری امر ہے۔ اور وہ شخص سعادت مند ہے جس کا مال اس کی اخروی کامیابی کے لئے کام آئے اور وہ شخص بے نصیب اور نا مراد ہے جس کا مال اعمال صالحہ میں رکاوٹ کا باعث بنے۔ چنانچہ حضرت ابوالدرداءؓ یہ دعا کیا کرتے تھے : اللھم انی اعوذ بک من تفرقۃ القلب‘‘اے اللہ ! میں دل کے منتشر ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، آپ سے دریافت کیا گیا کہ دل کے منتشر ہونے سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : ان یجعل لی فی کل واد مالاکہ میرا ہر وادی میں مال ہو یعنی دل چہار سو بکھرے ہوے مال کی فکر میں مشغول رہے اور اعمال صالحہ کرنے میں کو تا ہی ہو۔
مال کی بہتات دل کی پریشانی اور آخرت میں حساب کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہے :
مال خور و نوش اور لباس اور سواری ہی کا نام تو ہے۔ ( یعنی مال کے ذریعہ آسائشیں اور زیب و زینت حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیساکہ حضرت ابوالدرداؓ فرماتے ہیں : ‘‘ مالدار لوگ بھی کھاتے اور پیتے ہیں او رہم بھی کھاتے اور پیتے ہیں، وہ بھی لباس پہنتے ہیں اور ہم بھی پہنتے ہیں ، وہ بھی سواری پر سوار ہوتے ہیں اور ہم بھی سواری کرتے ہیں۔ ان کے پا س اس سے زائد اموال بھی ہیں جسے وہ بھی دیکھتے ہیں اور ہم بھی دیکھتے ہیں ، لیکن انہیں زائد اموال کا حساب دینا پڑے گا اور ہم اس حساب سے بری ہیں۔ ’’
مال جمع کرنے کی حرص اور ضروری اخراجات میں بخل کرنا :
کیا ایسے آدمی کے لیے دولت کی فراوانی سود مند ہو سکتی ہے جو کہ مال جمع کرنے میں تو بڑا حریص ہو لیکن جب اس سے واجبی اور ضروری اخراجات کا مطالبہ کیا جائے تو وہ ہاتھ کھینچ لے اور بخیلی کامظاہرہ کرے۔حضرت ابوالدرداؓفرماتے ہیں : ‘‘ اس شخص کے لیے ہلاکت و بربادی ہے جو ہمیشہ مال اکھٹا کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے ، اور دیوانوں کی طرح اپنا منہ اسی حرص و طمع میں کھولے رہتا ہے، لوگوں کے مال و دولت کو دیکھ کر تو اس کے منہ میں پانی آجاتا ہے۔ اور اسے اللہ تعالی کے بے حد و حساب خزانے نظر نہیں آتے۔ اس کے بس میں ہوتو مال کی حرص و طمع میں دن رات ایک کردے۔ اس کے لیے ہلاکت و تباہی ہے سخت ترین حساب سے اور شدید ترین عذاب سے۔ ’’
کبھی موت و آخرت کو یاد کیا ؟
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے آباء و اجداد کہاں گئے ؟ کیا ہم کبھی موت کا تصور ذہن میں لائے اور آخرت کے لئے کچھ تیاری کی ہے ؟ حضرت راشد بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت ابوالدرداؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عر ض کی کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ! تو حضرت ابوالدرداؓ نے اس سے کہا : ‘‘ تم خوشحالی میں اللہ تعالی کو یاد رکھو ’وہ پریشانی اور تنگدستی میں تمہارا خیال رکھے گا۔ اور جب فوت شدگان کو یاد کرو تو خود کو انہی میں شمار کرو اور جب دل میں دنیا کی کسی چیز کی رغبت یا خواہش پیدا ہو تو اس کے انجام پہ نگاہ ڈال لیا کرو ’’۔
اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے۔
آخرت کی یاد دہانی کے و سائل میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ انسان خلوص نیت سے اس طرح اللہ تعالی کی عبادت کرے جیسا کہ وہ اللہ تعالی کو اپنے سامنے پاتاہے چنانچہ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ‘‘ اعبد اللہ کا نک تراہ وعد نفسک فی الموتی، و ایاک دعوۃ المظلوم واعلم ا ن قلیلا یغنیک خیر من کثیر یلھیک، و ا ن البر لا یبلی و ا ن الاثم لا ینسی ’’۔
ترجمہ : ‘‘( کامل توجہ کے ساتھ ) اللہ تعالی کی یوں عبادت کر گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ، اور خو دکو فوت شدگان میں ہی شمار کر( آج نہیں تو کل جانے ہی والے ہو ) مظلوم کی بد دعا سے بچ، اور اس بات پر یقین رکھ کہ بقدر کفایت تھوڑا مال اس زیادہ مال سے کہیں بہتر ہے جو تم کو اللہ کی یاد سے غافل کردے ، اور نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی اور گناہ کبھی فراموش نہیں کیا جاتا ’’۔
گردش لیل و نہار عمر کو گھٹا رہی ہے :
کیا آپ کو خبر ہے کہ دنوں کا گزرنا اور مہینوں کا ختم ہونا عمر کو کرید نے والی کدال اور قصر عمر کو منہدم کرنے والی کلہاڑی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوالدرداؓ فرماتے ہیں : ‘‘ اے ابن آدم ! زمین کے سینے پر جتنا بھی گھوم پھر لو بالآخر یہی زمین قبر بننے والی ہے۔ اے ابن آدم ! تو ایام زندگی سے عبارت ہے، جیسے کوئی دن گزرجاتا ہے’تیرا ایک حصہ ختم ہو رہا ہے ، اے ابن آدم ! ماں کے بطن سے تیری ولادت کے وقت سے لے کر تیری عمر گھٹتی ہی جا رہی ہے ’’۔
یہ اٹھتے ہوئے جنازے !! کیا دوسروں کی موت سے درس عبرت لیا اور صبح و شام جنازوں میں شرکت نے کبھی آپ کو جھنجوڑا ہے ؟
حضرت شرحبیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداؓ جب کوئی جنازہ دیکھتے تو فرماتے :
‘‘تم صبح کو چلے ہم شام آئے ، تم شام کے وقت کوچ کر رہے ہو اور ہم صبح کو تمہارے پیچھے آنے ہی والے ہیں۔ جنازوں میں شرکت بڑی پر اثر نصیحت ہے لیکن بھول بھی بہت جلد جاتی ہے۔کفی بالموت واعظا ‘‘ موت ہی نصیحت کرنے کے لیے کافی ہے ’’۔ لوگ یکے بعد دیگرے جارہے ہیں، اور جو باقی ہیں انہیں بھی لمبی لمبی امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں’’۔
موت کی یاد خوشیاں بھلا دیتی اور دل سے حسد کو مٹا دیتی ہے۔
جو شخص اپنے دل میں ہمیشہ موت اور انجام آخرت کی یاد تازہ رکھتا ہے وہ اپنے اعمال کی کثرت کے فریب میں مبتلا نہیں ہوتا اور نہ اس پر اِتراتاہے اور اس کے دل میں کسی کے بارے میں حسد کا شائبہ بھی باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ حضرت ابوالدرداؓ فرماتے ہیں : من اکثر ذکر الموت قلّ فرحہ و قلّ حسدہ ‘‘یعنی جو موت کو اکثر یاد کرتاہے اس کی خوشیاں کم ہو جاتی ہیں اور اسکے دل سے حسد کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں ’’
فتنوں کے دور میں جائے امان :
سلف صالحین کی وصایا میں سے بہترین وصیت یہ بھی ہے کہ انسان دنیا کی فتنہ سامانیوں سے بچنے کے لئے زیادہ تر وقت اپنے گھر میں گزارے کیونکہ اس سے انسان کی سمع و بصر اور زبان فضولیات سے محفوظ رہتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابولدرداءؓ فرماتے ہیں : نِعمَ صومعۃْ المرءِ المسلمِ بیتہ ، یکف لسانَہ و فرجَہ و بصرَہ و ایاکم و مجالس الا سواق فانھا تلھی و تلغی یعنی مسلمان کے لیے محفوظ ترین جگہ اس کا گھر ہے ، جو اس کی زبان ، عفت و عصمت ، اور نگاہ کی حفاظت کرتا ہے ، اور جہاں تک بازار کی مجالس کا تعلق ہے تو یہ انسان کو غافل کرتی اور لغویات میں الجھاتی ہیں ’’۔
اہل خانہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینے کا ذریعہ :
جو شخص گھر میں زیادہ تر وقت گزارنے کو لہو و لعب کی مجالس اور فضولیات میں وقت برباد کرنے والی محافل پر ترجیح دیتا ہے’ اس کے اس اہتمام سے اس کے اہل خانہ نماز کے احکام سے آگاہی حاصل کرتے اور اس کی پابند ی کرتے،دعا کرتے ،ادب اور سلیقہ سیکھتے ہیں چنانچہ ام الدرداؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوالدرداؓ کے 360 دوست تھے جن سے وہ اللہ کے لئے محبت کرتے تھے اور نماز میں ا ن کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ میں نے ایک دن ان سے اس دعا کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے اس کی عدم موجود گی میں دعا کرتاہے تو اللہ تعالی اس کے پاس دو فرشتے مقرر کردیتا ہے جو اس کی ہر دعا پر کہتے جاتے ہیں ولک بمثل‘‘ اللہ تعالی آپ کو بھی اسی کی مثل عطا کرے ’’۔ تو کیا میں فرشتوں کی دعائیں حاصل کرنے کی کوشش نہ کروں ؟ ’’
جو شخص اپنا زیادہ تر وقت اپنے گھر میں اہل و عیال کے ساتھ گزارتاہے وہ اپنے قول و عمل کے ذریعے اپنے اہل خانہ کی تہذیب و تربیت میں مثالی کردار ادا کرتاہے : جیسا کہ حضرت عون عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘ میں نے ام الدردا رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضرت ابوالدرداؓ کا سب سے افضل عمل کونسا تھا تو انہوں نے فرمایا : التفکر والاعتبار ‘‘ غور و تدبر کرنا اور ( وقائع و احداث سے ) عبرت اور نصیحت حاصل کرنا ’’۔
ہر شخص اپنے اہل خانہ کے لیے قدوہ اور نمونہ ہوتا ہے :
عالم با عمل کے اہل خانہ اس کی زندگی میں بھی اس کے معمولات سے متاثر ہوتے اور اس کی وفات کے لحظات بھی ان کے لیے درس و نصیحت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ام الدرداؓ رضی للہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : ‘‘ جب ابو الدرداؓ کا آخری وقت آیا تو آپ فرمارہے تھے: میرے اس دن کے جیسے دن کے لیے ہے کوئی تیاری کرنے والا ؟ میری اس گھڑی جیسے وقت کے لیے ہے کوئی تیاری کرنے والا؟. میری اس کیفیت جیسی حالت کے لیے ہے کوئی تیاری کرنے والا ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : وَنْقَلِّبْ اَفئِدَتَہْم وَاَبصَارَہْم کَمَا لَم یْؤمِنْوا بِہِ اَوَّلَ مَرَّۃ ( الانعام :110) ترجمہ : ‘‘اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیردیں گے جیسا کہ وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے تھے۔’’
ناصح امین :
سب سے بہتر سر براہ وہ ہے جو اپنے رعایا کے لئے ناصح امین ہو ، ایسے خیر خواہ کی نصیحت رعایا کو کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ پہنچاتی ہے۔ چنانچہ ام الدرداؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ابوالدرداؓ سے پوچھا : اگر مجھے آپ کے بعد صدقہ کھا نے کی ضرورت پیش آئے تو کیا صدقہ لے سکتی ہوں ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ‘‘ نہیں ’’ محنت و مزدوری کرنا اور اسی میں سے کھانا ، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ضعف اور کمزوری کی وجہ سے محنت و مزدوری نہ کر سکوں تو کیا کروں ؟ تو انہوں نے فرمایا : گندم یا جو کے خوشے ( بالی ) کھیتوں سے چن کر گذرکرلینا لیکن صدقہ نہ کھا نا ’’۔
مثالی جوڑا ( شوہر اور بیوی ):
کیا ہی خوب ہے گھر کا وہ سربراہ جس کا طرز عمل اور سلوک اپنے گھر والوں کے ساتھ اس صحابی جلیل جیسا ہو۔ ایسے نیک سیرت اور خوش کردار لوگوں کی صحبت میں وقت گزارنے کو تو ہر کسی کا جی چاہتا ہے۔ اسی لیے تو ام الدرداؓ دعا کیا کرتی تھیں ‘‘ اے اللہ! ابوالدردا نے دنیا میں مجھے پیغام نکاح بھیجا اور میرے ساتھ شادی کی۔ اے اللہ ! میں آپ کی بارگاہ میں ابوالدرداؓکے ساتھ آخرت میں نکاح کے لیے بھی خواست گزار ہوں۔ میں تجھ سے سوال کرتی ہوں کہ جنت میں بھی ابوالدرداؓ کو میرا شوہر بنادے حضرت ابوالدرداؓنے یہ دعا سن کر کہا : اگر تو ایسا چاہتی ہے کہ میں ہی جنت میں تیرا شوہر بنوں تو میرے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرنا ’’۔
لقمان بن عامر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوالدرداؓ فوت ہوگئے تو ام الدرداؓ رضی اللہ عنہا جو ایک حسن و جمال والی خاتون تھیں انہیں حضرت معاویہؓ نے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ ام الدرداؓ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : لا واللہ ! ما اتزوج زوجا فی الدنیا حتی ا تزوج ا با الدرداء ان شاءاللہ فی الجنۃ ‘‘ہر گز نہیں ! اللہ کی قسم میں دنیا میں کسی اور سے شادی نہیں کروں گی تا کہ ان شاءاللہ جنت میں ابوالدرداء کی بیوی بن سکوں ’’۔
مذکورہ قیمتی وصیتیں اور پند و نصائح ایک انتہائی دانا و حکیم صحابی جلیل حضرت ابوالدرداؓ سے منقول ہیں جو کہ سراسر خیر و بھلائی پر مشتمل ہیں۔ اور یہ ان شخصیات میں سے ایک مبارک شخصیت کے اقوال زریں ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم ا نے فرمایا : خیرامتی القرن الذین یلونی ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم( مسلم من حدیث عبد اللہ بن مسعودؓ ) ‘‘سب سے بہتر لوگ میرے ساتھی ( صحابہ کرام ) ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں(تابعین) اور پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے یعنی تبع تابعین۔’’