یہ کون ہے جس کو رسول اللہ نے اپنے دستِ مبارک سے تھام کر فرمایا ان لکل امۃ امینا و ان امین ھذہ الامۃ ابوعبیدۃ بن الجراح ‘‘ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن جراح ہے۔’’
٭ یہ کون ہے جسے نبی نے غزوۃ ذات السلاسل میں حضرت عمرو بن العاص کے لیے بطور کمک ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا جس لشکر میں جناب ابوبکر وعمر بھی شامل تھے۔
٭ یہ کون ہے جسے سب سے پہلے ‘‘امیر الامراء’’ (کمانڈرانچیف) کا لقب ملا۔
٭ یہ کون ہے جس کے بارے میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب نے زندگی کی آخری سانس لیتے ہوئے فرمایا تھا‘‘اگر ابوعبیدہ بن جراح زندہ ہوتے تو میں انھیں اپنے بعد خلیفہ بنا دیتا اور میرا رب اس بارے میں مجھ سے پوچھتا تو میں کہتا ‘‘میں خلافت اللہ اور اس کے رسول کے ‘‘امین’’ کے سپرد کر کے آیا ہوں۔’’
یہ اْمت محمدیہ کے امین، جناب عامر بن عبداللہ بِن جراح فہری قریشی ہیں جن کی کنیت ابوعبیدہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے آپ کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا،قریش کے تین آدمی سب سے بڑے سردار اور اخلاق و حیا میں سب سے بہترین ہیں۔ اگر وہ تجھ سے کوئی بات کریں تو وہ تجھ سے جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تو ان سے بات کرے تو وہ تجھے جھوٹا نہیں کہیں گے۔ یہ آدمی ابوبکر صدیق، عثمان بن عفان اور ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ آپ خوبصورت و خوشنما، نازک بدن و طویل قامت اور مناسب کندھوں والے مرد تھے۔ آنکھ آپ کو دیکھ کر خوش ہوجاتی اور دل آپ سے مل کر مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس کے ساتھ آپ نرم گفتار، انتہائی منکسرمزاج اور بڑے حیا دار تھے لیکن جب معاملہ سخت اور اہم ہوتا تو آپ پلٹ کر حملہ کرنے والا شیر ثابت ہوتے۔ آپ کاٹ دار و چمکدار تلوار سے مشابہ تھے۔
حضرت ابوعبیدہ اسلام قبول کرنے والے السابقون الاوّلون میں سے ہیں۔ آپ رسول اللہ کے دارارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ہی حضرت ابوبکرصدیق کے ہاتھ پر اسلام لے آئے، دوسری ہجرت حبشہ میں شامل تھے پھر وہاں سے واپس تشریف لے آئے اور بدر و احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ کے ہمراہ رہے۔ وصالِ رسول کے بعد خلیفۃ رسول جناب ابوبکر اور پھر حضرت عمر کی صحبت میں رہے۔ حالت یہ تھی کہ اپنی کل کائنات کو اپنی پشت پر اٹھائے پھرتے اور زہد و تقویٰ اور استقامت و امانت کی دینی ذمے داریوں کی طرف متوجہ رہتے تھے۔جناب ابوعبیدہ بن جراح نے جب اپنی زندگی ‘‘فی سبیل اللہ’’ گزارنے کی رسول اللہ سے بیعت کی تو آپ کو اس بات کا مکمل شعور و ادراک تھا کہ ان تین الفاظ ‘‘فی سبیل اللہ’’ کا مفہوم کیا ہے اور آپ یہ پوری استعداد بھی رکھتے تھے کہ یہ ‘‘سبیل’’ (راستہ) جو بھی قربانی طلب کرے گا آپ دل کھول کر وہ قربانی دیں گے۔
حضرت ابوعبیدہ کو مکہ میں اول سے آخر تک اس سخت تجربہ سے سابقہ رہا جو مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ آپ نے اولین مسلمانوں کے ساتھ اس سنگینی و سختی، تنگی و ترشی اور الم و حزن کو برداشت کیا جو روئے زمین پر کسی دین کے پیروکاروں کو پیش نہیں آئے۔ جناب ابوعبیدہ اس آزمایش میں ثابت قدم رہے اور ہر موقع پر اللہ و رسول کی تصدیق کا دم بھرتے رہے لیکن غزوۃ بدر کے روز پیش آنے والی سخت صورتحال اپنی سنگینی میں اس قدر شدید ہے کہ سوچنے والے اس کے متعلق سوچ سکتے نہ تصور کرنے والے اس کے بارے میں تصور کر سکتے ہیں۔بدر کے روز جناب ابوعبیدہ دشمن کی صفوں میں اس طرح پہنچے تھے جس طرح موت سے بے خوف آدمی خطرات میں کود پڑتا ہے۔ مشرکین نے آپ کی یہ ہیبت ناک کیفیت دیکھی تو سہم گئے۔ آپ موت سے بے پروا ہو کر میدانِ جنگ میں چکر لگا رہے تھے۔ قریش مکہ کے شہسوار آپکی اس بے باکانہ جرات کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے۔ جب بھی آپ کے ساتھ سامنا ہوتا تو پہلو بچا کر نکل جاتے لیکن ایک آدمی ہر طرف آپ کے آڑے آرہا تھا اور آپ اس کا سامنا کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ اس آدمی نے حملہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ آپ مسلسل اس سے دور رہنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس آدمی نے آپ کے تمام راستے مسدود کرکے رکھ دیے اور آپ اور اللہ کے دشمنوں کی لڑائی میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوگیا۔ جب آپ کا گھیرا تنگ ہوگیا تو آپ نے اس آدمی کے سر پر تلوار کا زبردست وار کیا جس نے اس کی کھوپڑی کو دوحصوں میں پاٹ دیا اور وہ آدمی زندگی کی بازی ہار کر زمین پر گر پڑا۔ آپ یقینا یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ قتل ہونے والا آدمی کون تھا کیونکہ اس کے بعد ابو عبیدہ کو جو تجربہ ہوا وہ سوچنے والوں کی سوچ اور تصور کرنے والوں کے تصور سے بہت بلند اور مختلف ہے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ آدمی کوئی اور نہیں حضرت ابوعبیدہ کا باپ عبداللہ بن جراح تھا تو آپ کا دل دہل اور دماغ ہل کر رہ جائے گا۔
ابوعبیدہ نے اپنے باپ کو نہیں بلکہ اپنے باپ کی شخصیت میں موجود مشرک کو قتل کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کے باپ کے بارے میں فرمایا لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر ھم المفلحون (المجادلہ۲۲) ‘‘تم کبھی یہ جان نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت رکھنے والے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کو قوت بخشی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں، خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے فلاح پانے والے ہیں۔’’ حضرت ابوعبیدہ سے اس طرح کا کام ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ آپ تو اللہ پر ایمان، دین اسلام کی خیرخواہی اور اْمت محمدیہ کی امانت داری کی اہلیت کی اس بلندی پر پہنچ چکے تھے جس کی طرف اللہ کی برگزیدہ ہستیاں نگاہیں اٹھا اٹھا کر دیکھتی ہیں۔
محمد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ یمن سے نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مسلمان ہونے کے بعد رسول کریم کی خدمت میں آیا اور مطالبہ کیا کہ اے ابوالقاسم! اپنے رفقاء میں سے جس کو آپ چاہیں ہمارے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ ہمارے مالی معاملات میں اختلافات کا فیصلہ کرے۔ کیونکہ تم مسلمانوں کا گروہ ہمارے ہاں قابل قبول اور پسندیدہ ہے۔رسول اللہ نے فرمایا: ائتونی العشیہ ابعث معکم رجلا امینا، حق امین، حق امین حق امین!!‘‘تم دوپہر کے بعد میرے پاس آنا میں تمھارے ساتھ ایک امین شخص کو بھیجوں گا۔ حقیقی امین، حقیقی امین، حقیقی امین کو۔ حضرت عمربن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نماز ظہر کے لیے بہت پہلے چلا گیا اور اس روز میں نے اس امید پر امارت (قیادت) کی خواہش رکھی کہ میں اس تعریف کا مستحق قرار پاؤں۔جب رسول اللہ ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد اپنے دائیں بائیں نظر دوڑانے لگے تو میں ذرا نمایاں ہونے لگا، تاکہ آپ مجھے دیکھ لیں۔ (لیکن) آپ مسلسل ہمارے درمیان نگاہ دوڑاتے رہے حتیٰ کہ آپ نے ابوعبیدہ بن جراح کو دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور فرمایا،اخرج معھم فاقض بینم بالحق فیما ختلفوا فیہ ان لوگوں کے ساتھ جاؤ اور ان کے اختلافات کا حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔’’حضرت عمر کہتے ہیں میں نے کہا یہ اعزاز ابوعبیدہ لے گیا۔
حضرت ابوعبیدہ بن جراح محض امین نہ تھے بلکہ آپ نے امانت کے ساتھ قوت و طاقت کو بھی ملا رکھا تھا۔ آپ کی اس قوت کے مظاہرے کئی مواقع پر سامنے آئے۔ اس کا مظاہرہ اس روز بھی سامنے آیا جب رسول نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو قریش کے ایک قافلہ کے تعاقب کے لیے بھیجاتھا اور آپ کو اس جماعت کا امیر بنایا تھا۔ ان لوگوں کو زادِراہ کے طور پر کھجوروں کی ایک تھیلی کے علاوہ اور کچھ میسر نہ آیا تھا، آپ اپنے ساتھیوں میں ہر آدمی کو روزانہ ایک کھجور دیا کرتے تھے۔ آدمی کھجور کو یوں چوستا رہتا جیسے بچہ ماں کا دودھ چوستا ہے۔ پھر آدمی پانی پی لیتا اور دن بھر اسی پر کفایت کرتا۔غزوہ احد میں آپ فتح کے لیے نہیں بلکہ مشرکین کی تباہی کے لیے مصروف قتال تھے۔ البتہ اس سے بلکہ ہر چیز سے زیادہ انھیں یہ بات عزیز تھی کہ رسول اللہ کی زندگی کو خطرے میں نہ پڑنے دیا جائے اس لیے آپ نے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ آپ میدان میں رسول اللہ کے قرب و جوار ہی میں رہیں گے۔ معرکہ گرم ہوا تو آپ بھی شرک و ثنیت کے ان لشکروں پر تلوار زنی میں مشغول ہوگئے جو بغاوت و عداوت کا اظہار کرتے ہوئے آئے تھے اور اللہ کے نور (دین اسلام) کو بجھانا چاہتے تھے۔دورانِ قتال جب بھی صورتِ حالات آپکو رسول اللہ سے دور کر دیتی اور آپ مصروفِ قتال ہوتے تو نظریں اپنی تلوار کے واروں پر نہیں بلکہ اس جگہ پر رکھتے جہاں اللہ کے رسول قیام فرما ہوتے۔ حضرت ابوعبیدہ کے لیے یہ بڑے قلق و اضطراب کے لمحات ہوتے۔ پھر جب بھی جناب ابوعبیدہ کو دکھائی دیتا کہ کوئی خطرہ رسول اللہ سے قریب ہو رہا ہے تو آپ فوراً اپنی جگہ چھوڑکر چھلانگیں لگاتے ہوئے آتے اور دشمن کو رسول اللہ تک پہنچنے سے پہلے ہی الٹے قدموں بھگا مارتے۔انھی سنگین لمحات میں سے ایک لمحہ وہ بھی تھا جب جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی اور جناب ابوعبیدہ کو دشمن کے جتھے نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس دوران آپ کی نظریں شِکرے جیسی تیزی سے رسول اللہ کے کھڑے ہونے کی جگہ پر گڑی ہوئی تھیں۔ قریب تھا کہ آپ اس وقت اپنے ہوش گم کر بیٹھتے جب آپ نے دیکھا کہ مشرکین کے ہاتھوں سے ایک تیر نکل کر نبیﷺ کو جا لگے گا۔ آپ نے تیزی سے ان محاصرین میں اپنی تلوار یوں چلائی گویا یہ ‘‘ایک’’ نہیں ‘‘ایک سو’’ تلوار چل رہی ہو اور دشمن کو منتشر کرکے دم لیا۔ پھر آپ رسول اللہ کی جانب لپکے تو آپ کے چہرہ مبارک سے پاکیزہ خون کو بہتے دیکھا اور دیکھا کہ رسولِ امین اپنے دستِ مبارک سے خون پونچھ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کیف یفلح قوم خضبو ا وجہ نبیھم وھو یدعوھم الی ربھم‘‘وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو سرخ کر دیا ہو جبکہ وہ (نبی) انھیں ان کے رب کی طرف بلاتا ہو۔’’غزوہ احد کے روز جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مشرکین کے ایک شخص نے یہ للکار لگائی کہ مجھے محمد کے بارے میں بتاؤ! مجھے محمد کے بارے میں بتاؤ تو اس وقت حضرت ابوعبیدہ ان ۱۰ آدمیوں میں سے ایک تھے جو رسول کریم کو حفاظتی حصار میں لیے ہوئے تھے تاکہ مشرکین کے تیروں کو اپنے سینوں کی ڈھال سے روک سکیں۔اس معرکہ میں رسول کریم کا سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ پیشانی زخمی ہو گئی۔ سر پر پہنی خود کی دو کڑیاں رخسار مبارک میں دھنس گئیں۔ اختتامِ معرکہ کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ان کڑیوں کو نکالنے کے لیے آگے بڑھے تو جناب ابوعبیدہ نے ان سے درخواست کی کہ میں تمھیں قسم دے کر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ یہ کام میرے لیے چھوڑ دو۔ حضرت ابوبکر نے ان کا یہ مطالبہ مان لیا۔ حضرت ابوعبیدہ کڑیاں نکالنے کے لیے آگے بڑھے تو آپ کو تشویش لاحق ہوئی کہ اگر ہاتھ سے ان کڑیوں کو نکالیں گے تو رسول اللہ کو تکلیف ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے سامنے کے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑ کر ایک کڑی کو کھینچ کر باہر نکال دیا مگر آپ کا اپنا دانت بھی ٹوٹ کر نیچے گر پڑا۔ پھر آپ نے دوسری کڑی کو اپنے سامنے کے دوسرے دانتوں سے پکڑا اور باہر کھینچ لیا اور آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔
حضرت ابوعبیدہ نے بطور امین جس طرح رسول اللہ کے ساتھ زندگی گزاری تھی آپ کے وصال کے بعد بھی اسی طرح امین رہے۔ اپنی ذمے داریوں کی انجام دہی میں ایسی امانت سے کام لیا کہ اگر روئے زمین کے انسان اس امانت کو تقسیم کرنا چاہیں تو وہ ان سب کے لیے کافی ہوجائے۔سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت ابی بکر کے لیے بیعت کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نے آپ سے کہا،اپناہاتھ پھیلائیے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے ان لکل امۃ امینا و انت امین ھذہ الامہ۔ ‘‘ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین آپ ہیں۔’’ مگر آپ نے کہا ‘‘میں اس آدمی سے آگے کیسے ہو سکتا ہوں جس کو رسول اللہ نے حکم دیا کہ وہ نماز میں ہماری امامت کرائے اور وہ آدمی رسول کریم کی وفات تک ہماری امامت کراتا رہا ہو۔’’ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق کے ہاتھ پر بیعت کر لی گئی تو آپ حق کے معاملے میں جناب صدیق کے بہترین خیر خواہ اور بھلائی کے معاملے میں ان کے بہترین مددگار ثابت ہوئے۔ آپ نے پرچمِ اسلام کے تحت ایک سپاہی کی حیثیت سے اپنی پیش قدمی اور فضل و برتری کے اعتبار سے یوں کام کیا گویا آپ امیر تھے اور بحیثیت امیر اپنے اخلاص و تواضع کا یوں مظاہرہ کیا گویا آپ عام مسلمان سپاہیوں میں سے ایک تھے۔جب ایک بہت بڑے فیصلہ کن معرکے میں حضرت خالدبن ولید اسلامی لشکر کی کمانڈ کر رہے تھے تو امیرالمومنین حضرت عمر نے ان کی جگہ آپکو امیر لشکر بنا دیا۔پھر آپ امیرالمومنین کا یہ نیا حکم لے کر اسلامی لشکر میں پہنچے تو اس حکم کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھا۔ یہاں تک کہ فتح حضرت خالد کے ہاتھوں اپنی تکمیل کو پہنچ گئی۔ جب آپ نے امیرالمومنین کا خط حضرت خالد کو پیش کیا تو انھوں نے اسے پڑھنے کے بعد کہا ‘‘ابوعبیدہ اللہ تم پر رحم فرمائے تمھیں کس چیز نے روکا تھا کہ تم آتے ہی مجھے یہ خط دے دیتے؟’’امین الامت نے جواب دیا‘‘مجھے یہ پسند نہ آیا کہ میں تمھاری جنگ میں حائل ہوجاؤں اور دنیا کی حکمرانی تو ہم چاہتے نہیں ہیں اور نہ دنیا کے لیے ہم عمل کرتے ہیں ہم سب اللہ کے معاملے میں بھائی بھائی ہیں۔’’جناب ابوعبیدہ ‘‘امیرالامراء’’ بن گئے اور شام کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اکثر اسلامی لشکر آپ کی کمانڈ میں آگئے، لیکن اس کے باوجود آپ مسلمانوں کے ایک عام سپاہی کے مانند ہی نظر آتے ہیں۔ آپ نے جب اپنے بارے میں اہل شام کی حیرت و تعجب کے متعلق سنا تو ان کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا‘‘لوگو! میں ایک قریشی مسلمان ہوں تم میں سے کوئی گورا یا کالا جو بھی تقویٰ میں مجھ سے افضل ہوگا میں چاہوں گا کہ اس کی معیت میں رہوں۔’’دیکھیے یہ اس شخص کے الفاظ ہیں اور ان لوگوں سے کہے جا رہے ہیں جو آپ کی قوت و عظمت اور امانت سے حیرت زدہ ہو کر رہ گئے تھے۔ جی ہاں وہ شخص جو کمانڈراِن چیف ہے، جو تعداد و تیاری اور فتح و کامرانی سے سرفراز ہونے والے اکثر اسلامی لشکروں کا قائد ہے، اہل شام میں اس کو ‘‘حاکم’’ کا مقام حاصل ہے، اس کا حکم مانا جاتا اور اس کی مرضی چلتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب شام کا دورہ کرتے ہیں تو یہاں ‘‘نئے آنے والے’’ کے متعلق پوچھتے ہیں‘‘میرا بھائی کہاں ہے؟’’لوگ پوچھتے ہیں ‘‘کون؟’’حضرت عمر کہتے ہیں ‘‘ابوعبیدہ بن جراح۔’’پھر حضرت ابوعبیدہ تشریف لاتے ہیں تو امیرالمومنین حضرت عمر اٹھ کر آپ سے معانقہ کرتے اور آپ کے ساتھ آپ کے گھر جاتے ہیں تو وہاں گھریلو سامان میں سے کچھ نہیں پاتے سوائے ایک تلوار، کمان اور سواری کے۔ پوچھتے ہیں ‘‘تم نے بھی اپنے لیے اس طرح کیوں نہیں بنا لیا جس طرح لوگ بناتے ہیں؟’’جناب ابوعبیدہ نے جواب دیا:‘‘امیرالمومنین! یہ مجھے سکون کی نیند مہیا کرتا ہے۔’’حضرت ابوعبیدہ بلادِ شام میں اسلامی فوجوں کی قیادت کرتے ہوئے فتح پر فتح حاصل کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام شامی علاقوں کو ان کے لیے مفتوح بنا دیا اور آپ مشرق میں دریائے فرات اور شمال میں ایشیائے کوچک تک جا پہنچے تھے۔ ان دنوں بلادِشام میں طاعون کی ایسی وبا پھوٹی کہ لوگوں نے اس سے قبل اس کی مثال نہ دیکھی تھی۔اس وبا نے لوگوں کو کٹی ہوئی فصلوں کے مانند موت کی نیند سلا دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر بن خطاب نے فوراً قاصد کو خط دے کر حضرت ابوعبیدہ کے پاس بھیجا جس میں لکھا تھا کہ : ‘‘مجھے آپ سے انتہائی ضروری کام ہے جس کے بغیر میرے لیے کوئی چارہ نہیں۔ اگر میرا یہ خط رات کو آپ کے پاس پہنچے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ صبح ہونے سے پہلے ہی میری طرف چل پڑیں اور اگر دن کو ملے تو شام ہونے سے پہلے چل پڑیں۔’’ پھر آپ نے حضرت عمر کو لکھا‘‘امیرالمومنین! مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آپ کو مجھ سے کیا کام ہے۔ میں مسلمان لشکر میں ہوں اور مجھے اس چیز سے بھاگنا پسند نہیں جو اْن کو درپیش ہو اور میں اْن کو اس وقت تک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا جب تک میرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنا حکم جاری نہ کردے۔آپ کے پاس جب میرا یہ خط پہنچے تو مجھے اس قسم سے آزاد کر دیجیے جو آپ نے مجھے دی ہے اور مجھے یہیں رہنے کی اجازت دیجیے۔’’حضرت عمر نے خط پڑھا تو رو پڑے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔اس موقع پر موجود آدمی نے آپ کے رونے کی شدت کو دیکھ کر پوچھا‘‘امیرالمومنین! کیا ابوعبیدہ وفات پا گئے ہیں؟’’حضرت عمر نے کہا ‘‘نہیں! وہ فوت تو نہیں ہوئے مگر موت ان کے قریب ہے۔’’ پھر حضرت عمر کا یہ گمان غلط نہ ہوا اور کچھ ہی مدت بعد حضرت ابوعبیدہ کو طاعون نے آلیا۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے لشکر کو وصیت کرتے ہوئے کہا ‘‘میں تمھیں ایسی وصیت کرتا ہوں کہ اگر تم نے اسے قبول کرلیا تو ہمیشہ خیر تمھارا مقدر رہے گی۔
٭ نماز قائم کرو۔
٭ رمضان کے روزے رکھو۔
٭ صدقات دیا کرو۔
٭ حج و عمرہ کرو۔
٭ آپس میں حق و صبر کی تلقین کرتے رہو۔
٭ اپنے حکمرانوں کے خیرخواہ رہو اور ان کو دھوکا نہ دو، کہیں دنیا تمھیں ہلاک نہ کردے۔
٭ اگر آدمی کو ہزار برس بھی عمر مل جائے، تب بھی وہ اس موت سے نہیں بھاگ سکتا جس کو تم دیکھ رہے ہو-
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ۔
پھر آپ نے حضرت معاذ بن جبل کی طرف متوجہ ہو کر کہا ‘‘معاذ ! لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔’’ اس کے بعد جلد ہی آپ کی پاکیزہ روح پرواز کر گئی، پھر حضرت معاذ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا : ‘‘لوگو! تم لوگ ایک ایسے آدمی کی موت کے صدمے سے دوچار ہو رہے ہو، جس سے بڑھ کر نیک دل، اخلاق رذیلہ سے کنارہ کش، آخرت کی محبت میں گرفتار اور عامۃ المسلمین کا خیرخواہ، اللہ کی قسم میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ ایسے شخص کے لیے دعائے رحمت کرو، اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔جب آپ کی وفات کی خبر دارالحکومت مدینہ منورہ میں پہنچی تو خلیفۃ وقت حضرت عمر فاروق نے آپ کو یوں خراج تحسین پیش کیا:‘‘اگر میں کوئی خواہش رکھتا تو اس کے سوا کچھ نہ ہوتی کہ مجھے ایک ایسا گھر مل جائے جو ابوعبیدہ جیسے افراد سے معمور ہو۔’’ امین الامت جناب ابوعبیدہ بن جراح اس سرزمین میں فوت ہوئے جس کو آپ نے ایران کی بت پرستی او روم کی پامالی سے پاک کیا تھا۔ آج اردن کی سرزمین میں آپ آسودہ خواب ہیں۔