اصلا ح ود عوت
حکایات سعدی
شیخ سعدی
ؒ ادلے کا بدلہ
ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔’’کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔‘‘چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔
کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔ لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ۔"اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔"خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔
حاصل کلام
جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔
بعد از مرگ واویلا
ریچھ نے ایک بکرا شکار کیا اور کھانے کے لیے بیٹھا۔ اچانک ادھر سے ایک بھوکا شیر بھی آ نکلا اور آتے ہی ریچھ پر حملہ کر دیا۔ ریچھ نے اپنے ہاتھ سے شکار نکلتے دیکھا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے دل میں کہا کہ ایسے مفت خورے شیر سے کیا ڈرنا، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ یہ سوچ کر انتہائی غصے سے دانت کٹکٹاتا ہوا شیر سے الجھ گیا۔ کافی دیر تک دونوں میں لڑائی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے لہولہان ہو گئے۔ نہ ریچھ ہار مانتا تھا نہ شیر۔ خوفناک لڑائی جاری رہی۔ دونوں زخموں سے چور بے دم ہو کر زمین پر بے سدھ گر گئے۔ایک چالاک لومڑی کافی دیر سے دور کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ بڑی موقع شناس تھی۔ موقع سے فائدہ اٹھایا اور بکرے کو اٹھا کر لے گئی۔ شیر اور ریچھ بے بسی سے یہ منظر دیکھتے رہ گئے۔
حاصل کلام
آئے موقع کو ہاتھ سے گنوانا حماقت ہے۔ بار بار مواقع نہیں ملتے۔ ایک بار موقع کھو کر بعد میں کف افسوس ملنے سے کیا حاصل۔
میں لوگوں کو ستانے کی طاقت نہیں رکھتا
مصر میں دو امیر زادے ر ہتے تھے۔ ایک نے علم حاصل کیا اور دوسرے نے مال و دولت جمع کیا۔ آخر کار ایک زمانے کا بہت بڑا عالم بن گیا اور دوسرے کو مصر کی بادشاہت مل گئی۔ بادشاہ بننے کے بعد اس نے اس عالم کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور کہا ’’میں حکومت تک پہنچ گیا اور تیری قسمت میں غربت و مسکینی آئی۔ ‘‘عالم نے کہا ’’ اے بھائی! مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر تجھ سے زیا دہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ میں نے پیغمبروں کا ورثہ یعنی علم پایا اور تو نے فرعون و ہامان کی میراث یعنی مصر کی حکومت پائی ہے۔ (میں اس نعمت کا شکر کیسے ادا کروں کہ میں لوگوں کو ستانے کی طاقت نہیں رکھتا یعنی بنی نوع انسان کو مجھ سے فائدہ پہنچتا ہے اور تجھ سے نقصان، پس دیکھ لے خدا کا فضل کس پر زیادہ ہے۔)
اپنے آپ پر بھروسہ کرو
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔"میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔"کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔"اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔
" میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔"کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔" بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔"
حاصل کلام:
دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
شیر بہت بیمار ہے
ایک شیر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔" فکر نہ کرو، میں اس کا بندوبست کردوں گا۔"یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔یہ خبر سنتے ہی جنگل کے جانور اس کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا اور عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کا شکار کرکے اپنی بھوک مٹاتا رہتا۔ایک دن لومڑی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے آئی اور غار کے دہانے پر کھڑی ہو گئی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔" باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔"لومڑی نے چالاکی سے جواب دیا۔" نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔"
حاصل کلام
انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔
غیبت گو سے بچو
کسی عالم سے دریافت کیا گیا۔اگر کوئی پارسا شخص انتہائی حسین ہو اور کسی بند کمرے میں کسی حسینہ کے ساتھ محو گفتگو ہو۔ ایسے میں انہیں دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔ نفس بھی طلبگار قربت ہو، اور شہوت بھی غالب۔ مقولہ عرب کے مطابق کھجوریں پکی ہیں اور باغبان روکنے والا نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی حالت میں پرہیز گاری کی وجہ سے بچا رہے۔"عالم نے جواب دیا۔" اگر اپنے آپ کو خرمستیوں سے بچا بھی لے تو برائی کرنے والوں کی بدخوئی اور ملامت سے نہ بچ سکے گا۔"
حاصل کلام
انسان اپنے نفس کی برائی سے بچ سکتا ہے مخالف کی بدگمانی سے نہیں۔
نفس کے تقاضے
کسی غلہ فروش کے چند درہم ایک صوفی پر قرض ہو گئے۔ غلہ فروش ہر روز صوفی سے قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتا اور صوفی کو اچھی طرح ذلیل بھی کرتا۔ ایک دن صوفی کو اس کے ایک دوست نے کہا۔"یہ غلہ فروش تمہیں رقم کے تقاضا میں روز ذلیل کرتا ہے اور تم ٹال مٹول کرتے رہتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اپنی یہ عادت بنا لی ہے۔ بہتر ہوتا کہ نفس کے تقاضے کو بھی آئندہ کل پر ٹال دیتے اور قرض کی مصیبت میں نہ پڑتے۔"
حاصل کلام
وقتی پریشانی دور کرنے کے لیے قرض لینا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔