حافظ محمد طاہر، گوجرانوالہ بیان کرتے ہیں کہ میں ٹورنٹو (کینیڈا) میں اپنی کار میں سفر کر رہا تھا کہ اچانک ایک گوری چٹی لال سرخ ہونٹوں والی خاتون نے مجھے روکا اور کہا السلام علیکم! میں حیران رہ گیا۔ وہ مجھے ایک کافی سینٹر پر لے گئی اور کہنے لگی پلیز! آپ مجھے ضرور وقت دیں، میں تھوڑا پریشان ہوا، اس نے مجھے بتایا کہ اسے اردو آتی ہے، بلکہ مسلمان بھی ہے۔ پھر گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ مجھے بولنے کا موقع کم اور سننے کیلئے تمام قوت اور توانائی کو یکجا کرنا پڑی۔
وہ کہنے لگی: ‘‘دیکھو میں مسلمان ہوں، لیکن تم اسلام کے ٹھیکیدار پاکستانی مسلمانوں سے کہیں بہتر ہوں، میرے دل میں حسد نہیں، بغض نہیں، کسی کا دل نہیں دکھاتی، کسی سے زیادتی نہیں کرتی، کسی کا حق نہیں مارتی، تمام اسلامی شعائر کا بھرپور ایمان کی حد تک پاس کرتی ہوں، اپنے اور خدا کے معاملات میں کسی کی دخل اندازی نہیں چاہتی۔ اپنے شوہر، گھر اور بچوں کی وفادار ہوں’’۔ وہ بلا تکان بولے جا رہی تھی اور میں کسی مجرم کی مانند سرجھکائے اسے سنے جا رہا تھا۔ دل سے نکلی ہوئی آواز ہر کسی پر اثر کرتی ہے، شاید اس سحر میں، میں بھی گرفتار ہو چکا تھا۔وہ کہنے لگی: مجھے اسلام قبول کیے ہوئے 34 برس ہو گئے، میری عمر 51 برس ہے، اس نے بتایا کہ 17 سال کی عمر میں اس نے ایک پاکستانی نژاد نوجوان ابرار سے شادی کی تھی جوکہ ان کے ہاں ملازم تھا۔ وہ باقاعدہ تلاوت کرتا، نماز پڑھتا تھا اور دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی حسن نیت سے کرتا تھا۔ ہمارے ماحول میں ہر طرح کی آزادی تھی، نامعلوم وہ کس مٹی کا بنا تھا، اس پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا۔’’ اس نے کہا کہ میں بتانا بھول گئی کہ میں جرمن ہوں اور حقیقت میں نسلاً یہودی تھی، ماں اور باپ کی اکلوتی اولاد تھی، میرے اصرار پر وہ مجبور ہوئے اور میری شادی ابرار سے کر دی، میرے ماں، باپ نے بہت زور لگایا کہ ابرار اپنا مذہب تبدیل کرلے لیکن تمام کوششیں رائیگاں گئیں، وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، میں نے شادی کے چار سال بعد اسلام قبول کیا۔ مجھے روایتی مسلمان نہیں بننا تھا لہٰذا میں نے جامعۃ الازہر مصر سے کئی اسلامی کورسز بھی کیے، انہیں سمجھا، پڑھا اور مکمل طور پر کائنات کے اکلوتے سچ پر یقین کرتے ہوئے ایمان لے آئی۔ ابرار میرا شوہر بنیادی طور پر کم گو اور خاموش طبیعت کا انسان تھا۔پہلے ہم فرانس منتقل ہوئے پھر کوئی گیارہ سال تک برطانیہ رہے، خدا کی قدرت دیکھئے کہ شادی کے 17 برس گزر گئے لیکن ہم اولاد سے محروم رہے، ہر طرح کے علاج معالجے کروائے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ابرار کبھی مجھے پاکستان نہیں لے کر گیا، بقول اس کے اس کے گھر والے مجھے قبول نہیں کریں گے، وہ بہت سخت اور ہٹ دھرم قسم کے لوگ ہیں۔ میں نے کبھی اصرار نہیں کیا، کچھ عرصہ ہم مراکو بھی رہے اور ایک ‘‘حلال فوڈ چین’’ کو وہاں سے بیٹھ کر چلاتے رہے، ہمارا کاروبار پھیلتا گیا اور ہم دونوں میاں بیوی ہر طرح کی نعمتوں کو پاکر خوش تھے۔ ایک ملال تھا کہ کاش ہماری بھی اولاد ہوتی! ابرار نے مجھے پاکستان سے کوئی دوائی لا کر دی، تعویذ بھی پہنائے اور کچھ قرآنی آیات کا باقاعدگی سے وظیفہ بھی بتایا۔اعتقاد پختہ ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے، میری گود ہری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے چاند سی بیٹی عطا کی۔ پھر دو سال کے بعد دوسری اور تقریباً پانچ سال کے بعد تیسری بیٹی میرے آنگن میں آن کھیلنے لگی۔وہ دن ہے اور آج کا دن کہ مجھے میرا شوہر چھوڑ کر کہیں بغیر بتائے چلا گیا، مجھے اولاد تو ملی لیکن خاوند کھو بیٹھی۔ کیا بیٹا پیدا کرنا میرے بس میں تھا؟ میں تو مجبور اور لاچار تھی، کیا بیٹیاں اولاد نہیں ہوتیں؟ کیا اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے؟ کوئی اسے سمجھاتا کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی چار بیٹیوں کے باپ تھے۔ خدا نے نرینہ اولاد دے کر بھی واپس لے لی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو کیا خدا انہیں مایوس کرتا؟ ان کے ایک اشارے پر کائنات سرجھکائے رہتی تھی، اگر آپ نے خدا کی رضا کو اپنی رضا سمجھتے ہوئے اولاد نرینہ کی خواہش نہ کی تو پھر ہم کس نسل کے مسلمان ہیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی جواب ہے؟ میں اپنی بیٹیوں کو نہیں چھوڑ سکتی، یقین مانئے کہ مجھے قطعی طور پر دکھ ہوا، تکالیف بھی برداشت کیں، لیکن مستقل مزاجی کا دامن نہیں چھوڑا۔ کینیڈا میں رہتے ہوئے مجھے تقریباً پانچ سال ہونے کو ہیں، میرے دل میں یہ رنجش ہے جب بھی کوئی پاکستانی ملتا ہے تو اسے اپنا دکھڑا سناتی ہوں، کاش! کہیں سے ابرار واپس آ جائے۔مجھ سے زیادہ آج اس کی بیٹیوں کو اپنے باپ کی ضرورت ہے، ماں ماں ہوتی ہے۔ آخر کب تک میں ان پر نظروں کا پہرہ لگائے بیٹھی رہوں گی’’۔میری درخواست ہے اس پاکستانی 3 بچیوں کے باپ سے، کہ اگر وہ زندہ ہے تو اپنے گھر لوٹ آئے۔ بیٹی زحمت نہیں رحمت ہوتی ہے۔ میں نہیں کہہ رہا، بلکہ یہ تو ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں۔