جہالت ہر خرابی کا پیش خیمہ ہے
اتفاق سے چار مختلف ممالک کے چار آدمی ایک جگہ جمع ہو گئے جن میں ایک ایران’ دوسرا ترکی’ تیسرا روم اور چوتھا بلاد عرب کا باشندہ تھا۔ مسافر سمجھ کر کسی نیک دل نے انہیں چاندی کا ایک درہم عطا کردیا۔ اب ہر شخص اس درہم سے اپنی پسند کی چیز مول لے کر کھانے کا خواہش مند تھا۔عرب نے کہا: ‘‘میری رائے میں اس درہم کے‘عنب’ خرید لیں’،یہ عمدہ پھل ہے اور ہم چاروں کا پیٹ بھی بھر جائے گا۔’’ایرانی نے چلا کر کہا‘‘خدا کی قسم! میں یہ عنب عِنَب نہ خریدنے نہ دوں گا’ میں تو ‘انگور’ ہی لوں گا’ وہی پھل مجھے مرغوب ہے۔’’ترک نے ناراض ہو کر کہا‘‘ارے بے وقوف! کیاانگور ونگور کرتے ہو ، اس درہم کے ‘اوزم’ خرید لو۔ یہ میرا پسندیدہ پھل ہے، تم بھی اسے کھا کر خوش ہو جاؤ گے۔’’رومی نے کہا‘‘میں تو ‘استا فیل’ کھاؤں گا’ اس کے سوا تم نے کوئی اور پھل خریدنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔’’نتیجتاً ان چاروں کے درمیان خوب دھینگا مشتی اور مار پٹائی ہوئی کیوں کہ جہالت علم پر غالب آگئی۔ اس موقع پر ایک صاحبِ علم شخص کا وہاں سے گزر ہوا ’ ماجرا جان کر اس نے کہا‘‘ احمقو! یہ ایک ہی پھل کے چار الگ الگ نام ہیں’ پھل وہی ہے جو تم سب کو مرغوب ہے ‘عنب ’ یعنی انگور……!!’’
فکر فردا
کسی ہرے بھرے جنگل میں ایک گائے رہتی تھی۔ علی الصباح وہ تازہ گھاس چرنے نکلتی’ سارا دن گھاس چرتی اور سورج ڈوبنے تک خوب سیر ہو جاتی اور اس کا وزن خوب بڑھ جاتا۔ مگر پھر ساری رات وہ اس غم میں گھلتی رہتی کہ خدا معلوم اگلے روز گھاس چرنے کو ملے نہ ملے؟ بس اسی فکر میں صبح تک وہ وہ پہلے کی طرح سوکھ کر دبلی پتلی ہو جاتی، یہاں تک کہ بدن کی ایک ایک پسلی نمایاں ہو نے لگتی۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ ہر روز صبح سویرے وہ جنگل پھر سرسبزوشاداب ہو جاتا اور گھاس اونچی ہو جاتی تا کہ گائے اپنا پیٹ اچھی طرح بھر لے۔یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ دن میں گائے گھاس چرتے چرتے فربہ ہو جاتی اور رات کو اس فکر میں گھلنے لگتی کہ اگلے روز کیا کھائے گی؟ گائے کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ جب ربّ کائنات روزانہ جنگل میں جانے سے قبل ہی اس کے رزق کا سامان بخوبی فراہم کر دیتا ہے تو پھر اگلے روز کی فکر میں اسے ہڈیوں کا گودا سکھانے کی کیا ضرورت ہے؟آپ نے غور کیا کہ یہ گائے کون ہے؟ یہ انسان کا نفس ہے اور سرسبز جنگل یہ دنیا!!…… اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ہر روز اپنے وعدے کے مطابق رزق عطا فرماتا ہے، لیکن کم عقل اور تھڑولا آدمی اسی فکر میں سوکھ سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے کہ ہائے! کل کیا کھاؤں گا؟ حالاں کہ روزِ پیدائش سے لے کر اب تک وہ برابر کھا رہا ہے اور رزق میں کمی نہیں آئی بلکہ عمر بڑھنے کے ساتھ اس کی ضروریات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہیں پھر بھی برابر اپنا رزق کھاتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی رزاقی پر اس کا ایمان عموماً متزلزل رہتا ہے۔ الا ماشا ءاللہ
عالم اور ملاح
علم نحو میں کامل ایک عالم کسی سفر پر جارہا تھا۔ راستے میں دریا آیا۔ پار اترنے کی غرض سے ایک کشتی پر سوار ہوا۔ دوران سفر اس نے ازراہِ خود پرستی و شیخی ملاح سے پوچھا: ‘‘کیوں بھئی تم نے صرف ونحو پڑھی ہے؟’’ملاح نے جواب دیا: ‘‘نہیں۔’’عالم نے کہا: ‘‘افسوس تم نے اپنی آدھی عمر ضائع کر دی۔’’ملاح کیا کہتا؟ خاموش ہو رہا…… یکایک کشتی ایک زبردست بھنور میں پھنس کر چکر کھانے لگی اور عالم کے حواس جواب دینے لگے۔ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر ملاح نے پوچھا: ‘‘حضرت ! آپ کو تیرنا بھی آتا ہے؟’’انہوں نے جواب دیا‘‘بالکل نہیں……’’ملاح نے کہا: ‘‘حضرت! تب تو آپ کی پوری زندگی ضائع ہو گئی، کیوں کہ چند لمحوں بعد کشتی غرق ہونے والی ہے۔’’
لوگوں کی مثال
لوگوں کی مثال اس انسان کی سی ہے جو اپنی گائے بیچنے کے لیے بازار گیا، دن ڈوبنے کو ہوگیا مگر کسی نے بھی اس کی گائے نہ خریدی، اس وقت اس کے پاس اس کا ایک دوست آیا اور اس نے اس سے کہا کہ تو اپنی گائے کے بارے میں یہ منادی کیوں نہیں کرتا کہ یہ نہ صرف حاملہ ہے بلکہ یہ عام طور پر یہ دو بچھڑے جنا کرتی ہے۔ اسے اپنے دوست کی یہ رائے بھلی معلوم ہوئی اور پھر اس نے اِس دوست کے مشورے کے مطابق منادی شروع کردی۔ پس جونہی بازار والوں نے اس کی آواز سنی، انہوں نے بڑی اچھی قیمت دے کر وہی گائے خرید لی۔ اس کے بعد وہ گھر لوٹ آیا اور دن بھر وہ اس بات کو یاد کرتا رہا اور یہ صورت حال اس کے ذہن میں خوب کھب گئی۔وہ نہ بھولا کہ جونہی اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس کی یہ گائے حاملہ ہے اور یہ عام طور پر ایک نہیں بلکہ دو بچھڑے جنا کرتی ہے تو کس طرح لوگ اسے خریدنے کے لیے ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ صورت اور اس سے حاصل ہونے والی فکر اس کے ذہن میں نہ صرف خوب اچھی طرح جم گئی،بلکہ اس نے اسے اپنے افعال کے لیے ایک پیمانہ اور اپنے تصرفات کے لیے ایک قاعدہ کلیہ بنا لیا اور پھر اس نے اس تجربے کو اپنی عقلی سطح کے مطابق اس سے ملتی جلتی دوسری صورتوں میں بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پھر ہوا یوں کہ اس کی ایک پیاری بیٹی تھی، جب وہ بلوغت کو پہنچ گئی تو اس نے اس کے لیے دلہا تلاش کرنا شروع کردیا تاکہ وہ اس کی دلہن اور گھر کی مالکہ بن جائے، لیکن قسمت نے اس کا کچھ زیادہ ساتھ نہیں دیا ،جس کے نتیجے میں اس کی شادی میں تاخیر پر تاخیر ہوئی گئی۔ حتیٰ کہ شیطانی وسوسوں نے اس کی نیندیں حرام کردی اور اسے یہ خوف کاٹنے لگا کہ وہ کہیں کنواری نہ بیٹھی رہے، آخر کار اس نے اپنے اس معاملے کو اپنے رشتہ داروں کے سامنے پیش کیا اور نوجوانوں کے سامنے بھی یہ مسئلہ رکھا لیکن افسوس کہ کوئی ایک بھی آگے نہ بڑھا اور نہ ہی کسی نوجوان نے اس کی بیٹی کا ہاتھ طلب کیا۔ چوں کہ وہ گائے بیچنے کا ایک تجربہ کرچکا تھا اور اسے اشباہ اور نظائر کی معرفت ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے پر قیاس کرنے کی کچھ نہ کچھ واقفیت بھی اسے ہو چکی تھی۔ لہٰذا ایک دن وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ کیا مجھے خود تجربہ نہیں ہو اکہ لوگ صرف اُس گائے کو خریدتے ہیں جو حاملہ ہو اور کثرت سے بچے دیتی ہو خواہ وہ گائے اس کی ہو یا کسی اور کی۔ تو معلوم ہوا کہ بکنے کا اصل سبب حاملہ ہونا اور بچے دینا ہے۔ تو اس نے اپنے اس تجربے کی بنیاد پر اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور اسے بازار کی طر ف لوگوں کے مجمع میں لے گیا اور اونچی آواز سے یہ کہنا شروع کردیا کہ ‘‘ہے کوئی جو ایسی نوجوان عورت سے شادی کرنا چاہے جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہے، جو اس وقت چارماہ سے حاملہ ہے اور امید ہے کہ وہ ایک نہیں دو جڑواں بچے جنے گی۔’’ معلوم ہوا کہ ہر معاملے میں اشباہ و نظائر کی معرفت اور قیاس فائد ہ نہیں دیتا۔
امام صاحب کی ذہانت
امام ابوحنیفہ خلیفہ منصور عباسی کی مجلس میں داخل ہوئے۔ دربار میں ابوالعباس طوسی بھی تھا، جو کہ امام صاحب کے بارے میں بہت بری رائے رکھتا تھا۔ امام ابوحنیفہ اس سے باخبر تھے۔ ابوالعباس طوسی نے موقع جان کر سوچا آج میں ابوحنیفہ کی جان لے سکتا ہوں۔ تب اس نے خلیفہ کی موجودگی میں امام صاحب سے فتویٰ طلب کیا:‘‘فرض کیجئے امیر المومنین نے کسی شخص کو کسی آدمی کی گردن مارنے کیلئے طلب کیا اور وہ شخص اس آدمی کو جانتا تک نہیں۔ کیا اس کیلئے جائز ہے کہ وہ حکم پر عمل کرتے ہوئے اس آدمی کی گردن مار آئے؟’’امام ابوحنیفہ نے جوابی سوال کیا:‘‘ابوالعباس۔ امیر المومنین نے اسے ناحق حکم دیا یا حق؟’’‘‘ظاہر ہے حق کے ساتھ’’ ابوالعباس نے معاملہ ہاتھ سے جاتے دیکھ کر کہا۔‘‘تو پھر حق پر عملدرآمد ضروری ہے اور اس میں کوئی پس و پیش جائز نہیں’’! امام صاحب فیصلہ کن انداز میں فرمانے لگے۔ اس کے بعد امام ابوحنیفہ اپنے قریب بیٹھے ایک شخص سے کہنے لگے: اس نے مجھے باندھنا چاہا مگر میں نے اسے باندھ لیا! (تاریخ بغداد)