نازو نعم کی زندگی تج کراسلام کی غریبانہ آغوش میں آنے والے ایک بلند پایہ صحابی کا روح پرور تذکرہ
مکہ میں انہی کوسب سے زیادہ خوشبو لگانا پسند تھا۔ نازونعم میں پیدا ہوئے اور اسی فضا میں پرورش پا کر جوانی تک پہنچے۔ شاید مکہ کے نوجوانوں میں کسی کو اپنے والدین کی محبت و شفقت اس حد تک میسر نہ آئی ہو جس قدر حضرت مصعب بن عمیر کوملی۔قریش کا یہ قابلِ توجہ نوجوان گفتگو کو دلچسپی اور انہماک سے سنتا۔اِسی لیے کم عمری کے باوجود مکی مجلسوں اور محفلوں کی زینت بن گیا۔ ہر مجلس کے شرکاء کی یہ خواہش ہوتی کہ مصعب ان کی محفل میں بیٹھے۔ وجہ یہ تھی کہ حسن و عقلمندی مصعب کی وہ دو خوبیاں تھیں جو دِلوں اور دروں کو واکر دیتیں۔یہ بھر پور ورعنا جوان، نازو نعمت کا پروردہ، مکہ کا نوخیز حسین اور اس کی مجلسوں اورمحفلوں کا نگینہ-کیا یہ ممکن تھا کہ وہ ایمان وجاں سپاری کی تاریخی داستانوں میں سے ایک داستان بن جائے؟
ایک روز اس جوان نے بھی وہ بات سنی جو اہلِ مکہ، جناب محمد الامینﷺ کے بارے میں کہہ رہے تھے‘‘ محمد کہتا ہے کہ اللہ نے اسے بشیر ونذیر رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ واحد الاحد کی عبادت کی طرف بلانے کی ذمے داری سونپی ہے۔’’ ان دنوں اہلِ مکہ کو صبح و شام اس بات کے سوا کوئی اور غم تھا ہی نہیں ، کرنے کو کوئی اور بات تھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ رسول اور آپ کے دین کے متعلق محو گفتگو رہتے۔آپ نے جو باتیں اہلِ مکہ سے سنیں ،ان میں یہ بات بھی تھی کہ رسول اور مسلمان قریش مکہ کی مشغولیات، فضولیات اور ایذا و تکالیف سے دْور کوہِ صفا کے اوپر ارقم بن ابی ارقم کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ حضرت مصعب نے یہ سنا تو انتظار و تردّد کیے بغیر شام کو دارِ ارقم جا پہنچے۔ آپ کی تمنائیں اور نگاہیں تو پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھیں۔حضرت مصعب ابھی جا کر بیٹھے ہی تھے کہ آیاتِ قرآن قلب رسول سے لبِ رسول پہ تاباں ہونا شروع ہو گئیں۔یہ آیات کانوں سے ٹکراتیں اور اپنا راستہ بناتی ہوئی دلوں میں اتر جاتیں۔یہاں تک کہ ابنِ عمیر کے دل کی گہرائیوں میں بھی اتر گئیں۔ دل پر پڑا پردہ اپنی جگہ سے ہٹنا شروع ہو گیا۔ادھر رسولﷺ نے اپنا دستِ شفقت و برکت آگے بڑھایا اور جذبات کی آتش سے بھڑکتے اور دھڑکتے دل کو چھوا تو سکون و راحت کی شعاعیں دل کی گہرائیوں میں اتر گئیں۔
حضرت مصعب کی والدہ بنت مالک غیر معمولی شخصیت کی مالک تھی۔اس کی دہشت انگیزی بھی حد کو پہنچی ہوئی تھی۔جب حضرت مصعب اسلام لائے تو روئے زمین پر ماں کے علاوہ کوئی قوت ایسی نہ تھی جس سے وہ بچتے یا خوف کھاتے۔ اگرچہ قریش مکہ نے اپنے بتوں اور اشراف کا سارا زور لگا کر حضرت مصعب کو ڈرانا اور بھگانا چاہا مگر آپ کسی سے مرعوب ہوئے نہ خوفزدہ۔لیکن ماں کا جھگڑا ہی ایسا خطرہ تھا جس کا سامنا کرنے کی آپ قوت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا آپ نے اس پر فوری غورو فکر کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ جب تک اللہ تعالیٰ معاملے کا فیصلہ نہیں کرتا، وہ اپنے اسلام کو چھپائے رکھیں گے۔پھر دارِ ارقم آتے اور بارگاہ رسول میں بیٹھتے رہے۔ آپ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے تا کہ ماں کے غضب سے بچ سکیں جسے ابھی تک آپ کے اسلام لانے کی خبر نہیں ہوئی تھی۔ مگر مکہ اور خصوصاً ان دِنوں تو وہاں کوئی بات چھپی نہیں ر ہ سکتی تھی۔ قریش کے جاسوس و کارندے ہر راستے پر موجود ہوتے، نرم گرم ریت پر پڑنے والے نشان کے پیچھے ایک قدم اور ہوتا۔یہی ہوا کہ حضرت مصعب چھپ چھپا کر دارِ ارقم میں داخل ہو رہے تھے ،عثمان بن طلحہ نے آپ کو دیکھ لیا۔ اس کے بعد دیکھا کہ آپ جنابِ محمدﷺ کی طرح نماز پڑھ رہے ہیں۔ عثمان نے فوراً اْمِ مصعب کو جا خبر دی، جو پوری حقیقت کے ساتھ مکہ میں پھیل گئی۔حضرت مصعب تب اپنی والدہ، خاندان اور سردارانِ مکہ کے درمیان کھڑے حق و ثبات کی یقینی کیفیت میں اس قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کے ذریعے رسول نے اپنے صحابہ کے دلوں کو دھو ڈالا اور انہیں حکمت و عزت اور عدل و تقویٰ سے بھر دیا تھا۔ماں نے چاہا کہ ایک زبر دست تھپڑ لگا کر آپ کو خاموش کرا دے مگر تیر کی مانند حضرت مصعب کی جانب بڑھنے والا ہاتھ فوراً اس نور کے سامنے ڈھیلا پڑ گیا جس نے آپ کے چہرے کی چمک دمک میں رعب و جلال کو یوں بڑھا دیا گویا بیٹے کا احترام ماں کے اوپر فرض ہو گیا ہے۔ہاتھ سکون کے ساتھ وہیں رک گیا۔جس طرح ماں کی ممتا کا یہ تقاضا تھا کہ وہ بیٹے کے چہرے پر مارنے اور اسے تکلیف دینے سے رک جائے ، اسی طرح یہ بھی اس کے بس میں تھا کہ وہ ان معْبودوں کی محبت میں جوشِ غضب سے بھڑک اٹھے جنھیں بیٹے نے چھوڑ دیا تھا۔ماں انھیں گھر کے ایک گوشے میں لے گئی اور وہاں بند کر کے تالا لگا دیا۔ پھر حضرت مصعب اسی قید میں رہے، حتیٰ کہ کچھ مومنین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جب آپ نے ان لوگوں کے یہاں سے چلے جانے کی خبر سنی تو خود کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ماں اور اپنے چوکیداروں کو غافل پا کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کچھ عرصہ رہے، پھر ان کے ساتھ مکہ آگئے۔پھر دوبارہ حکمِ رسول پر دیگر مسلمانوں کی معیت میں حبشہ ہجرت کر گئے۔
حضرت مصعب کا ماں کے ساتھ آخری ٹکراؤ اس وقت ہوا جب ماں نے واپسی پر دوبارہ آپ کو محبوس کرنے کی کوشش کی۔ حضرت مصعب نے اس وقت قسم کھائی کہ اگر تم ایسا کرو گی تو میں ہر اس شخص کو قتل کر ڈالوں گا جس سے تم میرے خلاف مدد لو گی۔ماں، بیٹے کے عزم و ارادے سے واقف تھی کہ وہ جب کسی کام کا عزم کر لے ،تو اسے کر گزرتا ہے، لہٰذا اس نے روتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔بیٹے نے بھی روتے ہوئے ماں کو چھوڑ دیا۔ ایک دوسرے کو چھوڑتے وقت ماں کی جانب سے کفر اور اپنے بیٹے کی جانب سے اسلام پر قائم رہنے کا عجیب عزم و اصرار سامنے آیا۔ماں نے گھر سے نکلتے وقت کہا‘‘ جاؤ اپنی مرضی کرو، میں دوبارہ تیرے پاس آؤں تو میں تیری ماں نہیں ہوں گی’’۔بیٹا، ماں کے قریب ہوا اور کہنے لگا‘‘ماں میں تیرا خیر خواہ ہوں، میرے دل میں تیرے لیے نرم جذبات ہیں، تو یہ گواہی دے ڈال کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔’’ماں نے غضب ناک کیفیت میں جواب دیا ‘‘ستاروں کی قسم میں تیرے دین میں داخل نہیں ہوں گی۔ یہ تو میری رائے کو بے وقعت اور عقل کو کمزور کر دے گا۔’’پھر حضرت مصعب نعمتوں بھری زندگی پر فقرو تنگ دستی کو ترجیح دیتے ہوئے باہر نکل آئے اور خوش لباس و خوشبو پسند جوان یوں نظر آنے لگا کہ کھر درے کپڑے کی قمیص زیب تن کیے ہوتا۔ ایک دن کھا لیتا تو کئی روز بھوکوں رہتا، لیکن عقیدے کی بلندی اور نور الٰہی سے منور خوبصورت روح نے ان کے اندر دوسرا ہی انسان پیدا کر دیا تھا۔ ایسا انسان جو اپنے جلال سے آنکھوں کو خیرہ کر دے اور دلوں پر اپنی دھاک بٹھا دے۔ایک روزآپ مسلمانوں کے پاس آئے جو رسول اللہ کے گرد وپیش مجلس آرا تھے۔ ان لوگوں نے حضرت مصعب کو دیکھتے ہی سر اور نگاہیں جھکا لیں۔ بعض کی تو آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ان کی یہ کیفیت کیوں ہو گئی تھی؟ اس لیے کہ وہ آپ کو اس حالت میں دیکھ رہے تھے کہ آپ پیوند لگی بوسیدہ قمیص پہنے ہیں۔ صحابہ نے تو آپ کے اسلام سے قبل آپ کی جو تصویر دیکھی تھی وہ تو کچھ اور تھی، اس وقت تو آپ کے کپڑے باغ کے پھولوں کے مانند چمکدار اور عطر بیز ہوا کرتے تھے۔رسول اللہ دیر تک آپ کو حکمت و عزت اور محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ پھر آپ کے مبارک لبوں پر رعب دار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔آپ نے فرمایا ‘‘ میں نے مصعب کو دیکھا ہے کہ مکہ میں والدین کا کوئی بیٹا ایسا نہ تھا جو اس سے بڑھ کر نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہو۔ لیکن مصعب نے ہر چیزکو اللہ و رسول کی محبت میں خیر باد کہا ہے۔’’
یہی وہ دن ہیں جب رسول اکر م نے ایک بہت بڑی مہم کے لیے آپ کو منتخب فرمایا۔ آپ مدینہ میں اسلام کے پہلے سفیر ہوں گے اور ان انصار مدینہ کو دینی تعلیم دیں گے جو عقبہ کے مقام پر رسول اللہ کی بیعت کر چکے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی دعوتِ اسلام دے کر حلقہ دین میں داخل کریں گے۔ان دنوں رسول اللہ کے اصحاب میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو عمرو مرتبہ میں حضرت مصعب سے بڑے اور رسول اللہ کے زیادہ قرابت دار تھے۔ مگر رسول اللہﷺ نے حضرت مصعب کو اس کام کے لیے منتخب کیا۔ حضرت معصب کو بھی خوب معلوم تھا کہ انتہائی خطرناک معاملہ ان کے سپرد کیا جا رہا ہے۔اس مدینہ میں اسلام کو پھیلانے اور بڑھانے کا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا ہے جو عنقریب دارالہجرت قرار پانے اور دعوت و داعیان اور غازیان و فاتحین کا مرکز بننے والا ہے۔
سیدنا مصعب مدینہ میں حضرت اسعد بن زرارہ کی مہمان داری میں اْٹھتے اور قبائل و مجالس اور بستیوں پر چھا جاتے ۔ آپ لوگوں کے پاس اپنے رب کی کتاب لے کر جاتے۔اور بڑی دلسوزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس جملے کو بیان کرتے ہیں۔ ترجمہ ‘‘اللہ ہی واحد معبود ہے۔’’حضرت مصعب نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بہترین دانش و کمال اخلاق کا سہارا لیتے ہوئے اس امانت کا بار اْٹھایا۔ آپ نے اپنے زہد و ترفع اور اِخلاص کے زور پر اہل مدینہ کے دلوں کو فتح کر لیا اور وہ فوج در فوج دین میں اترنا شروع ہو گئے۔جس دن رسول اللہ نے آپ کو مدینہ بھیجا تھا، وہاں ان 12 آدمیوں کے علاوہ کوئی اور مسلمان نہیں تھا جنھوں نے عقبہ کے مقام پر نبی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ لیکن حضرت مصعب کو ان کے درمیان آئے ابھی چند ماہ گزرے تھے کہ اہلِ مدینہ نے اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہہ دیا۔بیعتِ عقبہ کے بعد آنے والے حج میں مسلمانانِ مدینہ نے رسول اللہ کی خدمت میں اپنی نمائندگی کے لیے جو وفد مکہ بھیجا اس کے شرکاء کی تعداد مرد و خواتین سمیت ۷۰تھی۔ وہ نبی کی طرف سے ارسال کردہ معلم حضرت مصعب بن عمیر کی قیادت میں مکہ آئے۔حضرت مصعب نے اپنی فطری دانائی اور جاں کاہی کے ساتھ ثابت کیا کہ رسول اللہ نے انھیں کیوں منتخب کیا تھا۔ آپ کو بارہا ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ اگر آپ کی تیز ترین ذہانت اور عظیم ترین روحانی قوت ساتھ نہ ہوتی تو خود آپ اورآپ کے رفقاء کو اس کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ایک روز آپ مدینہ میں لوگوں کو وعظ کر رہے تھے کہ اچانک بنی الاشہل کے ایک سردار، اْسید بن حضیر نے وہاں آکر اپنا نیزہ گاڑ دیا۔ وہ اس آدمی کے خلاف غیظ و غضب سے بھڑک اٹھا تھا جو اس کی قوم کو کفر سے برگشتہ کر رہا تھا۔ انھیں اپنے معبود کو چھوڑنے کی تبلیغ کر رہا اور صرف ایک اللہ کے بارے میں بتا رہا تھا جس کے متعلق انھیں اس سے قبل کوئی علم تھا نہ وہ اس سے مانوس تھے۔حضرت مصعب کے ساتھ بیٹھے مسلمانوں نے غیظ و غضب سے بھڑ کتے اْسید بن حضیر کو دیکھا تو سہم گئے لیکن حضرت معصب سکون و اطمینان سے اللہ کی توحید کا اظہار کرتے رہے۔اْسید غصّے کی آگ میں جلتے ہوئے حضرت مصعب کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر حضرت مصعب اور حضرت اسعد بن زرارہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا‘‘تمہیں ہمارے محلے میں کون لایا، تم ہمارے کمزور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو؟ اگر زندگی چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ- ’’لیکن ادھر سمندر کی قوت و روانی کے مانند اور سپیدۂ سحر کے نمودار ہونے کی طرح حضرت مصعب کے چہرے پر خوشی کے آثار تاباں ہوئے۔وہ بزبان شیریں مقال گویا ہوئے:‘‘کیا آپ بیٹھ کر سنیں گے نہیں ؟ اگر آپ کو ہمارا معاملہ اچھا لگے تو اسے مان لیجئے گا۔ناگوار گزرے تو ہم مزید کوئی بات نہیں کریں گے۔’’اللہ اکبر- اس چیز کا آغاز کتنا دلکش تھا جس کا اختتام عنقریب با سعادت ہونے ولا تھا! اْسّید ایک دانا و بینا آدمی تھے اور ادھر حضرت مصعب نے ان کے ضمیر پر دستک دے ڈالی تھی کہ وہ صرف یہ کلام سن لیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر وہ اس پر مطمئن ہوں تو اچھی بات ! ورنہ وہ ان کا محلہ چھوڑ کر چلے جائیں گے اور کسی دوسرے قبیلے کنبے کے پاس جا کر اپنی بات کریں گے۔اْسید نے جواب دیا‘‘ تم نے بات تو انصاف کی کہی۔’’ یہ کہہ کر اپنا نیزہ زمین پر پھینکا اور بیٹھ گئے۔حضرت مصعب تلاوتِ قرآن پاک کرنے لگے۔ اْنہوں نے اس دعوتِ جانفزا کی تفسیر پیش کرنا شروع کی ہی تھی جو جناب محمدﷺ پیش کر رہے تھے کہ اْسید کے خوابیدہ جذبات بیدار ہونا شروع ہو گئے۔ حضرت مصعب نے بات مکمل کی تو اْسید بن حضیر با واز بلند کہہ اْٹھے‘‘یہ بات کس قدر حسین اور حق ہے- اس آدمی کو کیا کرنا چاہیے جو اس دین میں داخل ہونا چاہتا ہو؟’’حضرت مصعب نے کہا‘‘ وہ اپنے کپڑے اور بدن پاک صاف کرے اور یہ شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبْود نہیں ہے۔’’اْسید وہاں سے غائب ہو گئے۔تھوڑ ی دیر بعد آئے تو سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔وہ پھر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنے لگے کہ ‘‘اللہ کے سوا کوئی معبْود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔’’یہ خبر روشنی کی طرح پھیل گئی- اب سعد بن معاذ آئے، یہ بھی مصعب کے سامنے ہتھیار ڈال کرمسلمان ہو گئے ہیں ، پھر سعد بن عبادہ آئے اور نعمت اسلام سے بہرہ ور ہو گئے اْدھر اہلِ مدینہ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں، اگر اْسید بن حضیر ، سعد بن معاذ اور سعدبن عبادہ اسلام لے آئے تو ہم کس لیے پیچھے رہ گئے۔ آؤ مصعب کے پاس چلتے ہیں تا کہ ان کے ہاتھ پر ہم بھی ایمان لے آئیں۔اِس طرح اوّلینِ سفیرِ رسول مدینہ منورہ میں بے مثال کامیابی سے ہمکنار ہوئے- ایسی کامیابی جو ان کے شایانِ شان تھی اور وہ اس کے اہل تھے۔
اب مہ وسال گزرنے لگے۔ رسول اللہ اور آپکے صحابہ مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں۔اْدھر قریش اپنے سینوں میں حسدو بغض کی آگ جلا رہے ہیں۔وہ اپنے باطل کو حق ثابت کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تا کہ اللہ کے نیک بندوں کو ظالمانہ انداز میں کچل کر رکھ دیں۔ پھر غزوۂ بدر برپا ہو تا ہے جو ہوش گوش رکھنے والے قریشیوں کے لیے ایک سبق چھوڑ جاتا ہے جس سے وہ آتشِ انتقام میں جلنے لگے۔ نتیجے میں غزوۂ اْحد برپا ہوتا ہے۔ مسلمان بھی تیار ہو کر میدانِ جنگ میں آجاتے ہیں۔ رسول اللہ صفوں کے وسط میں کھڑے ہو کر مومنوں کے چہروں کو متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔آپ ایسے شخص کی تلاش میں ہیں جسے جنگ کا پرچم تھمائیں۔ آپ حضرت مصعب کو پکارتے ہیں۔ حضرت مصعب آگے بڑھتے اور علم تھام لیتے ہیں۔اب خوفناک معرکہ برپا ہوتا ہے۔ قتل و غارت کا مقابلہ تیز ہو جاتا ہے۔ کچھ تیر انداز جب دیکھتے ہیں کہ مشرکین میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تو وہ فرمانِ رسول کی پروا نہ کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر سے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل مسلمانوں کی فتح کوفوراً شکست میں بدل دیتا ہے۔ اچانک قریش کے گھڑ سوار پہاڑ کی بالائی جانب سے حملہ آور ہوتے ہیں اور خونخوار و تشنہ لب تلواریں مسلمانوں کو گہرا گھاؤ لگاتی ہیں۔ جب قریش دیکھتے ہیں کہ انتشار و بد دلی نے مسلمان لشکر کی صفوں کو توڑ ڈالا تو وہ رسول اللہ تک پہنچنے کے لیے حملہ کرتے ہیں۔حضرت مصعب پیش آمدہ خطرہ بھانپ لیتے ہیں۔ آپ علم بلند کرتے اور چنگھاڑتے ہوئے شیر کی مانند نعرۂ تکبیر لگاتے ہیں۔پھر دائیں بائیں دْور تک دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیں۔ آپ کو یہ شدید فکر لاحق ہے کہ بنفس نفیس دْشمنوں کی نظروں کو رسول اللہ سے پھیر دیں۔ اس دوران آپ تنہا ایک لشکر ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ اکبر- حضرت معصب تنہا ایسے لڑتے ہیں گویا آپ طاقت و قوت کا پہاڑ، لشکر جرار ہوں۔ادھر اس تنہا جان پر دشمن کی جمعیت حملہ آور ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ا س شخص کے اوپر سے گزر کر رسول اللہ تک جا پہنچیں۔حضرت مصعب کی زندگی کے اس فیصلہ کن لمحے کی روداد کا بیان ہم ایک عینی شاہد پر چھوڑتے ہیں۔ معروف سیرت نگار ‘‘ابن سعد ’’لکھتے ہیں‘‘ہمیں ابراہیم بن محمد بن شرجیل عبدری اپنے باپ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کہا ‘‘اْحد کے روز مصعب نے علم اْٹھایا۔ جب مسلمانوں کے قدم اْکھڑ گئے تو مصعب ثابت قدم رہے۔ مشرکین کا ایک گھڑ سوار ابن قمیہ اْن پر حملہ آور ہوا اور تلوار کا وار کر کے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔مصعب کہہ رہے تھے:‘‘اور محمد اللہ کے
رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں’’۔پھر اْنہوں نے علَم اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیا اور اس پر جھک گئے۔ ابن قمیہ نے اس ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا۔ اب مصعب علَم کو سینے کے ساتھ لگا کر اپنے بازوؤں کی گرفت میں لیے جھکے کھڑے اور کہہ رہے ہیں :‘‘اور محمد اللہ کے رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں’’۔اب ابن قمیہ تیسری بار نیزہ سے حملہ آور ہوا، اس نے نیزہ مار ا اور نیزہ مصعب کے جسم میں دھنس گیا ، مصعب گرے اور علم بھی بازوؤں کی گرفت سے نکل کر گر گیا۔’’مصعب گر گئے اورعلَم گر گیا- زیورِ شہادت گر گیا ، کو کبِ شہدا گر گیا- حضرت مصعب گرے مگر ایمان و جاں سپاری کے معرکہ میں شجاعت و بسالت کی بے نظیر تاریخ رقم کرنے کے بعد۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ گرے تو رسول اللہ کے قتل تک پہنچنے کی راہ محافظین و مدافعین سے خالی ہو جائے گی۔ لیکن وہ اپنے اوپر آنے والی اس مصیبت پر رسول اللہ سے فرط محبت اور آپ کی زندگی کو معرض خطرہ میں دیکھ کر صبر کا یوں اظہار کر چکے تھے:‘‘اور محمد اللہ کے رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں’’۔بعد میں حضرت مصعب کے ان الفاظ کو مکمل کر کے قرآن کا جز بنا دیا گیا جس کی تا قیامت بار بار تلاوت ہوتی رہے گی۔
رسول اللہ اپنے اوّلین سفیر کے جسد کے قریب جا کر ٹھہرے۔ آپ انھیں الوداع اور ان کی خوبیاں بیان کر رہے تھے- اللہ اکبر !رسول اللہ کہہ رہے تھے ‘‘مومنین میں ایسے مرد ان ِ کار بھی ہیں جنھوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا جو اللہ سے انھوں نے کیا تھا۔’’پھر آپ حسرت بھری نظر اس چادر پر ڈالتے ہیں جس میں ان کوکفن دیا گیا ہے اور فرماتے ہیں:ترجمہ‘‘میں نے تجھے مکہ میں دیکھا تو تجھ سے عمدہ و دیدہ زیب لباس پہننے والا اور خوبصورت زلفوں والا کوئی نہ تھا - آج تو ایک چادر میں غبار آلود سر چھپائے ہوئے ہے۔’’حضرت خباب بن الارت کہتے ہیں:‘‘ہم نے رسول اللہ کے ساتھ ا للہ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم اللہ کی رضا کے طلب گار تھے اور اللہ کے ذمے ہمارے اس عمل کا اجرواجب ہو گیا۔ ادھر ہم میں سے کچھ لوگ اپنی زندگی پوری کر چکے مگر انھوں نے اس دنیامیں اپنے اس اجر (مال غنیمت) سے کوئی چیز نہیں کھائی- مصعب اْنہی لوگوں میں شامل ہیں، وہ یومِ اْحد کو شہید ہوئے تو انھیں کفن دینے کے لیے ایک چادر کے سوا کچھ نہ تھا۔ہم اس چادر سے ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا-رسول اللہ نے یہ دیکھ کر فرمایا:‘‘چادر کو ان کے سر کی جانب سے اوپر ڈال دو اور قدموں پر اذخر گھاس ڈال دو’’۔رسول اللہ نے ارضِ معرکہ میں ان تمام لوگوں (شہداء) کو بآوازبلند پکارا جو حضرت مصعب کے ساتھ تھے :‘‘اللہ کا رسول بلا شک و شبہ یہ شہادت دیتا ہے کہ تم قیامت کے روز اللہ کے حضور حقیقی شہدا ء ہو گے۔’’پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا‘‘لوگو! اِن شہداء کی زیار ت کرو، ان کے پاس آؤ، ان پر سلام بھیجو،اْس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، قیامت تک جس نے بھی اْن پر سلام بھیجا وہ اسے جواب دیں گے۔