ہمارے ایک دوست نے ایک اسلامی ویب سائٹ شروع کی تو امریکہ سے کسی ویب سائٹ والے نے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اشتہار کا تبادلہ کرلیں۔ ہم آپ کی ویب سائٹ کا اشتہار اپنی ویب پر دیں گے اور آپ ہمارا۔ اِنہوں نے شرط رکھی کہ آپ ہماری سائٹ پر nude اشتہار نہیں چلائیں گے کیونکہ یہ ہماری ویب سائٹ کے مزاج کے خلاف ہے ۔ امریکی نے اس کو قبول کر لیا لیکن اگلے دن جب اُس نے اشتہار دیاتو وہ bikinis کا تھا جو اپنے اجسام کی نمایش کرتیں ساحل سمندر پر محو خرام تھیں۔ اِنہوں نے فوراً وہ اشتہار بند کیا اور اُن صاحب سے احتجاج کیا کہ آپ نے طے کردہ شرط پوری نہیں کی۔ ہم نے طے کیا تھا کہ nude اشتہار نہیں چلے گا۔ اُس نے کہاکہ صاحب ہم نے توشرط پوری کی ہے یہ nude کہا ں تھا؟ اس میں تو انہوں نے اوپر نیچے کے فراز ڈھانپ رکھے تھے۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا کہ ہمارے ہا ں اسے ننگا ہی شمار کیا جاتا ہے مگر اُس نے کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ کیونکہ ہماری تو لغات میں بھی nudeکا مطلب یہ نہیں جو آپ کر رہے ہیں۔
تہذیبی تبدیلی کا ایک رخ تو یہ ہے جو پیش کیا گیا کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ و معانی کا رشتہ ہی بدل جاتا ہے اور الفاظ اپنی پہچان کے لیے نئے مفہوم ومعنی کے محتاج ہو جاتے ہیں لیکن تہذیبی غلبے کا ایک دوسر ا رخ بھی ہے اور یہ رخ پہلے سے بھی زیادہ خطر نا ک ہے۔اور اسی کی طرف توجہ دلانا ہمارامقصود ہے۔ اس رخ میں مذہبی لوگ مذہبی تصورات کی تراش خراش کر کے انہیں تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ مذہب کی اصل روح پیچھے رہ جاتی ہے اور تہذیبی رنگ میں رنگے ہوئے روپ کو ہی مذہبی تقدس دے د یا جاتا ہے ۔مثلاً سکارف کا معاملہ ہے ۔ مذہب کا اصل حکم سینوں کو ڈھانپنے کا ہے اور جنسی اعضا کو نمایاں نہ کرنے کا ہے مگر اب سینے اور سرین تو نمایاں ہونے لگے ہیں اور سکارف کو مذہبی تقدس دے کر اسے ہی اصل حکم سمجھ لیا گیا ہے ۔ یہ اصل میں تہذیب سے ہم آہنگ ہونے کی ایک خام کوشش ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ایسی تبدیلی جو مذہبی روح کو قربان کر کے حاصل کی جائے چاہے اس کا نام کتنا ہی مذہبی کیوں نہ ہو ،یہ اصل میں انسان کے مذہب اور ایمان کے لیے خطرنا ک ہے۔مذہب کا اصل حکم یہ ہے کہ لباس ایسا ہو جو جنسی اعضا کو ڈھانپ کر رکھے اور ان کو بالکل نمایا ں نہ ہونے دے مگر تہذیبی غلبے نے مذہبی لوگوں کو بھی مجبور کر رکھا ہے اوروہ تھوڑی سی تبدیلی کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے مذہب کا تقاضا پورا کردیا۔ مردوں کے سرین بھی جنسی اعضاکا حصہ ہیں اور ان کا نمایاں نہ کرنا بھی مذہبی روح کا تقاضاہے لیکن اب ماشا ء اللہ اچھے بھلے مذہبی لوگ بھی پتلون پہنتے ہیں اور انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کے سرین نمایا ں ہو رہے ہیں۔حالانکہ وہ پتلون والے لباس کی بھی وہ شکل اختیار کر سکتے تھے کہ جس میں جسم کا یہ حصہ نمایا ں نہ ہو لیکن تہذیبی غلبے نے انہیں مختلف تاویلیں کر کے خود کو مطمئن کرنے پہ مجبور کر دیا ہے ۔حتی کہ بعض اوقات اس کا تو اہتما م کیا جاتا ہے کہ پتلون کے پائنچے موڑ کر ٹخنے ننگے رکھنے کا اہتمام کیا جا ئے لیکن اس بات کی طرف دھیا ن بھی نہیں جاتا کہ چلتے ہوئے سرینوں کی ہر حرکت نمایا ں ہوتی ہے اور رکوع اور سجدے میں تو وہ پوری طرح اپناحال بیان کررہے ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ خواتین کا ہے ۔مذہبی خواتین سر پر سکارف باندھ کر یہ سمجھتی ہیں کہ انہوں نے مذہبی حکم پورا کرنے کا حق ا دا کر دیا۔حالانکہ ان کے سینے مکمل نمایش کی حالت میں ہوتے ہیں اور تنگ جینز ان کے زیریں فرازوں کا حال سنا رہی ہوتی ہیں خا ص طور پر تب جب کہ یہ خواتین نماز بھی پڑھتی ہوں۔مختصر شرٹ اوپر اٹھنے کی کوشش کر تی ہے اور تنگ جینز یاپتلون نیچے سرکنے کی۔مگر یہ مطمئن ہوتی ہیں کہ ہم نے سکارف باندھ کر حق ادا کر دیا۔ ہماری اس بات سے کوئی ہر گز یہ نہ سمجھے کہ ہم سکارف کے خلاف ہیں ہم تو صرف یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تہذیبی روشنی کے چکر میں تاویل کرکے مذہبی تصورات کا یہ حال کر دیا جاتا ہے۔سکارف ہمیشہ سے اسلامی تہذیب کا حصہ رہا ہے لیکن ا سکا مقصد سر کے ساتھ ساتھ اصل میں سینے کو چھپانا تھا۔ اب سر تو رہ گیا ہے اور سینے آزاد ہو گئے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ سکارف کا اصل مقصد تب پورا ہو گا جب یہ سر کے ساتھ ساتھ سینے کو بھی ڈھانپ کر رکھے۔ اس لیے اس بات کو سمجھنا اشد ضروری ہے کہ تہذیبی تبدیلی کو مذہبی اصولوں کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہیے ورنہ نہ صرف الفاظ ومعانی کا رشتہ بدلے گا بلکہ مذہبی روح بھی بر ی طرح مجروح ہو گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ مذہب نے تہذیبی معاملات کو کا فی حد تک آزاد چھوڑا ہے اور اسے معاشرتی عرف اور عقل عام کے حوالے کیا ہے مگر جہاں کسی تہذیبی معاملے سے مذہبی روح مجروح ہوتی ہووہاں کم از کم مذہب سے محبت رکھنے والے انسان کو خبردار ہو جانا چاہیے ۔صرف یہ کہہ کر مطمئن ہوجانا کہ مذہب کا دائرہ الگ ہے اور تہذیب کا الگ ، گویا ادھوری بات کہنا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ دونو ں کااپنا اپنا دائرہ ہے مگر جہاں تہذیبی اصول مذہبی اصولوں کو مجروح کرنے لگیں وہاں مذہبی اصولوں کو بچانا ہی دانش کا تقاضا ہے اس لیے تہذیب پر عمل کرتے ہوئے مذہب کی روح کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ عین ممکن ہے کہ انسان غلط راہ چل پڑے اور اسے پتا بھی نہ چلے۔