گلوں کی شوخی میں تم ہو خنداں ، شفق میں تم مسکرا رہے ہو
زمین سے تا فرازِ گردوں ، تجلّی اپنی دکھا رہے ہو
یہ کہکشاں نقشِ پا تمہارا ، یہ ماہِ تاباں جبیں تمہاری
دھنک میں عکسِ حسیں تمہارا ، کہاں کہاں مسکرا رہے ہو
بہارِ رنگیں تمہارے عارض ، یہ برگِ لالہ ہیں لب تمہارے
نسیمِ گلشن تمہارا آنچل ، ادا سے جس کو اڑا رہے ہو
یہ ابرِ تر پیرہن تمہارا ، یہ موجِ دریا تمہارے گیسو
میں جتنے پردے اٹھا رہا ہوں تم اْتنے پردے گرا رہے ہو
یہ آفتیں ہیں مزاجِ برہم ، یہ زلزلے ہیں تمہارا غصّہ
یہ آندھیاں ہیں کہ عالمِ برہمی میں آنکھیں دکھا رہے ہو
ق
تمہارے لطف و کرم کی مظہر ہیں کھیت میں لہلہاتی فصلیں
گھڑی میں کچھ ہو ، گھڑی میں کچھ ہو ، ہنسا رہے ہو رْلا رہے ہو
تمہیں ہو جانِ نشاطِ عالم ، تمہیں ہو روحِ حیاتِ آدم
تم اپنے فرحت کی لاج رکھ لو ، نگاہ سے کیوں گرا رہے ہو