وہ جتنا حلیم الطبع اور کم سخن تھا اس کی بیوی اتنی ہی بدمزاج اور منہ پھٹ تھی۔ بات بات پر لڑنا جھگڑنا اور خاوند کے منہ آنا اس کا وطیر ہ تھا۔ ایک بار میا ں بیوی بحری جہاز کا سفر کر رہے تھے کہ بحر ی جہاز طوفان میں گھر گیا ۔ جہاز کے بچنے کی کوئی امید نظر نہ آرہی تھی۔ تمام مسافر پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے یہی حال اس کی بیوی کا بھی تھامگر وہ بڑے سکون سے بیٹھا اللہ کا ذکر کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اس کے پاس آکر دھاڑی ، تمہیں کوئی فکر نہیں ، سب لوگ بے چین ہیں؟ مگر وہ پھر بھی خاموش بیٹھا رہا۔بیوی پھر چیخی مگر وہ خامو ش رہا ۔ جب بیوی پھر اس کے سر کو آئی تو خلاف توقع وہ اٹھ کھڑ اہوا ،اور اس نے اپنی جیب سے چاقو نکال کر بیوی کے گلے پر رکھ دیا او ر کہا ، خاموش ہوتی ہو کہ نہیں ، ورنہ میں تمہاری گردن اتار دوں گا۔مگر بیوی پھر بھی بولتی رہی اور اس کو برا بھلا کہتی رہی۔اس نے بیوی سے کہا ، تمہیں چاقو سے ڈر نہیں لگتا؟ بیوی نے کہا ،نہیں۔خاوند نے پوچھا مگر کیوں نہیں؟ بیوی نے کہا ، اس لیے کہ چاقو تمہارے ہاتھ میں ہے ۔
ایک بد مزاج اور منہ پھٹ بیوی کو اپنے خاوند کی محبت اور پیار پر اتنا مان ہے کہ اس کو یقین ہے کہ اس کے ہاتھ سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ، لیکن افسوس بندے کو اپنے خالق پر اتنابھی اعتماد نہیں جتنا اس بیوی کو اپنے خاوند پر ہے ۔بندہ تھوڑی سی تکلیف اور آزمایش آنے پر ہی چلّا اٹھتا ہے جبکہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ا سکا مالک اور خالق اس سے پیار کرتاہے۔ وہ بھلا اپنی تخلیق کو کیوں ضائع کرے گا؟ تکلیف ، بیماری ، مشکل وقت یا آزمایش بھیجتا ہے تو یہ اس کے پیار کے خلاف نہیں بلکہ اس کی حکمت کا حصہ ہے جس تک ہمار ی نظرنہیں جاتی ۔(محمد صدیق بخاری ، مدیر سوئے حرم)