اپنے باپ کی محبت کا دیر سے احساس کرنے والے ایک باپ کا ماجرا
وہ اپنی آمد کے متعلق بتا رہا تھا مگر مجھے اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ وہ کس طرح آئے- پیاسی زمین کو اس سے کیا کہ بادل مشرق سے آئے یا مغرب سے؟ اسے تو بارش چاہیے۔ میرے لیے وہی فضائی کمپنی سب سے اچھی تھی جو اسے گھر لے آئے۔ اگرچہ ساتویں آٹھویں روز ہم اس کی آواز تو سن لیتے تھے مگر اسے دیکھے ہوئے اداسی کے بگولوں سے اٹے ہوئے بارہ مہینے دو دن ہو گئے تھے۔ ٹیلی فون پر بات چیت شاید بالمشافہ ملاقات کا نعم البدل ہو مگر محبت لمس چاہتی ہے۔
مجھے یاد ہے جب شروع شروع میں اس کا فون آتا، بیوی اس سے بات کرکے رونے لگتی۔میں کہتا ‘‘تمھیں تو خوش ہونا چاہیے۔’’ مگر وہ کہتی کہ اس کی آواز سن لیتی ہوں، دیکھ تو نہیں سکتی ناں۔ ایک بار بیٹے سے اس بات کا ذکر کیا تو کہنے لگا ‘‘اس کا انتظام بھی ہوجائے گا۔’’ عنقریب آپ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے آواز کے ساتھ میری تصویر بھی دیکھ سکیں گے۔’’ لیکن کیا اس سے ہماری تشفی ہو جائے گی؟مجھے اس کے آنے کی خبر سن کر خوشی تو ہوتی ہے مگر زیادہ نہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے، سال دو سال کی پھر لمبی جدائی-!! مجھے اس کی متوقع آمد کا انتظار کھینچنا اور دل کی منڈیر پر کوے کا بولتے رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے لیکن کاش وہ واپس نہ جاتا۔ میرے بس میں ہوتا توکبھی اسے اتنی دور نہ جانے دیتا۔
جب ابا ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، تو ایک روز میں نے حساب لگایا کہ وہ میری پیدائش کے بعد ۵۰ برس تک زندہ رہے۔ لیکن تعلیم اور ملازمت کی خاطر میں انھیں گاؤں میں چھوڑ کر شہر آگیا۔ میری عمر کے ۵۰ برسوں میں سے ابا جی کے حصے میں زیادہ سے زیادہ ۱۵ برس آئے ہوں گے۔یہ حساب کرکے مجھے سخت صدمہ ہوا کہ ابا زندہ اور اِسی دنیا میں آباد تھے مگر میں ۳۵ برس اْن سے دور رہا اور کبھی اس دْوری کو محسوس تک نہ کیا۔ لیکن اب میرا اپنا بیٹا مجھ سے جدا ہوا تو مجھے ابا کے جذبات و احساسات کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا ہے۔وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے ملنے آ جاتے تھے اور جب تک قیام کرتے، ان کی خواہش ہوتی کہ مجھے دفتر سے چھٹی ہو اور میں دن رات ان کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہوں۔ مگر میں سال ۲ سال بعد گاؤں کا ایک آدھ چکر لگاتا تو مشکل سے ایک دو راتیں گزار پاتا، پھر مجھے شہر کی رونقیں، روشنیاں اور اپنی دلچسپیاں پکارنے لگتیں۔ بعض اوقات میں شام کو واپس چل پڑتا۔ وہ کہتے ‘‘یہ وقت تو گھر لوٹنے کا ہے تم جا رہے ہو؟’’ میں ضروری کام کا بہانہ کرتا، انھیں کیا بتاتا کہ میرا گھر تو کہیں اور ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار شام کے وقت جب میں روانہ ہو رہا تھا، وہ بڑے اداس اور پریشان تھے لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا۔ سب لوگ مجھے بے وقت سفر کرنے سے روک رہے تھے مگر وہ خاموش رہے۔ رْخصت کرتے وقت ان سے رہا نہ گیا اور بولے ‘‘تمھاری ماں جی زندہ ہوتیں تو کیا تم تب بھی ایسا ہی کرتے؟’’ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا لیکن میرا دل نہ پسیجا اور اپنی مجبوری بتا کر چلا آیا۔ وہ رات اور ایسی کئی راتیں ابا نے کیسے کاٹی ہوں گی؟ مجھے اس کا اندازہ اب ہوا۔میرے لڑکپن میں ابا کو داستانِ یوسف بہت پسند تھی۔ میرے شہر چلے جانے کے بعد وہ راتوں کو بلند آواز میں یہ قصہ پڑھتے۔ ماں جی بتاتی کہ و ہ زیادہ تر وہی حصے پڑھتے جن میں بیٹے کی جدائی میں حضرت یعقوب کی حالت زار کا بیان ہوتا یا پھر جب حضرت یوسف کا قاصد ان کا کرتہ اور پھر یہ خوشخبری لے کر پہنچتا کہ آپ کا محبوب فرزند نہ صرف زندہ سلامت بلکہ مصر شہر کا والی بن چکا ہے۔ حضرت یعقوب پھر بیٹے کا کرتہ اپنی نابینا آنکھوں سے لگاتے تو وہ روشن ہو جاتیں۔ ماں جی بتاتی کہ یہاں پہنچ کر تمھارے ابا کی آواز بھرا جاتی اور وہ کوئی بہانہ کرکے پڑھنا چھوڑ دیتے۔ آخری عمر میں جب وہ پڑھ نہیں سکتے تھے، تب بھی لیٹے بلند آواز میں فراقیہ دوہڑے پڑھتے رہتے۔
اگلے روز اس نے پھر فون کیا اور بتایا کہ اسے نشست نہیں مل رہی، اب وہ نیویارک جا کر قسمت آزمائی کرے گا اور اطلاع دے گا کہ کس پرواز سے آ رہا ہے۔ اگر اطلاع نہ دے سکا تب کراچی یا لاہور پہنچ کر فون کر دے گا۔ ورنہ ہم لوگ فکر نہ کریں، اسے گھر کا راستہ معلوم ہے، خود ہی پہنچ جائے گا۔دو تین روز میں وہ ہمارے درمیان ہوگا اور ہم اسے دیکھ اور چھو سکیں گے- اس خوشگوار خیال سے دل میں مسرت آمیز ہلچل پیدا ہوگئی۔ آنکھوں کے سامنے بار بار اس کی صورت ابھرنے لگی۔اس کی امی کا اصرار تھا کہ وہ عید سے کم از کم ایک روز پہلے ضرور پہنچ جائے۔ اس نے یقین دلایا تھا ‘‘امی آپ فکر نہ کریں۔ میں عید کی صبح کا آغاز آپ کے ہاتھوں کی بنائی دودھ سویوں ہی سے کروں گا’’۔ پھر بیٹے سے ٹیلی فون کا رابطہ ختم ہوگیا اور اہم اگلی کال کا انتظار کرنے لگے۔ گھر کا کوئی فرد جب بھی ٹیلی فون سن لیتا، وہ بپھری شیرنی کی طرح غرانے لگتی۔ مگر پورا ایک دن خراب فوٹوسٹیٹ مشین سے صاف کاغذ کی طرح نکل گیا اور انتظار کی لمبی رات شروع ہوگئی۔ آج اسے وعدے کے مطابق پہنچ جانا چاہیے تھا مگر ابھی تک اس کے روانہ ہونے کی اطلاع بھی نہیں آئی تھی۔ماں نے بیٹے کے پسندیدہ کھانے بنانا اور انھیں فریج میں محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ ماؤں کو یہ بڑی سہولت ہے۔ یوں محبت اور مامتا کے اظہار کا موقع ملتا اور مصروفیت میں وقت بھی اچھے طریقے سے گزر جاتا ہے۔ عورتوں کو یہ بڑی سہولت بھی حاصل ہے کہ وہ ہر موقع پر رو کر اپنے جذبات کا اظہار کرتیں اور اپنے دل کا غبار نکال لیتی ہیں۔ یوں تو بعض مرد بھی ایسا کرنے میں باک محسوس نہیں کرتے مگر میرے جیسے دیہاتی پس منظر رکھنے والے مردوں کو ایسا کرنے میں اپنی مردانگی خطرے میں نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پڑھائی کی خاطر پہلی بار گھر سے نکلا اور شہر جا رہا تھا تو گھر کی سب عورتوں نے مجھے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے رخصت کیا۔ مگر ابا نے صرف خاموشی سے سر پر ہاتھ پھیرنے پر اکتفا کیا۔ لیکن وہ باوجود بار بار رومال سے ناک صاف کرتے ہوئے نزلے کی شکایت کر رہے تھے، وہ کیا تھا؟وہ پریشر ککر کا ڈھکنا کھولتی، بند کرتی، ہنڈیا میں کفگیر چلاتی اور سل وٹے پر قیمہ پیستی ہوئی جب جی چاہتا، اسے یاد کرکے چند آنسو بہاتی اور معمول پر آ جاتی۔ مگر میرے اندر کا پریشر ککر ہلکی آنچ پر چڑھا رہتا- اتنی ہلکی آنچ کہ ویٹ میں لرزش پیدا نہ ہو نہ سیٹی کی آواز سنائی دے۔ یوں تو میں نے بھی عید کی خریداری کرتے وقت اس کی پسند کا خیال رکھا۔ کھانے پینے کی بہت سی چیزیں محض اسی کے لیے خرید لیں مگر بھرم کی خاطر اعلان نہیں کیا۔ماں جی بھی ایسا ہی کرتی تھیں۔ جس روز میری آمد متوقع ہوتی وہ میری پسند کی چیزیں پکا پکا کر رکھتی جاتیں، گاؤں کی دکان سے برفی اور جلیبیاں منگاتیں۔ موسمی پھل اور کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے گھر کے قریب سے دھوکا دے کر خالی نہ گزر سکتے۔ کام کاج کرنے کے بعد بھی وقت بچ جاتا تواپنا چرخہ اٹھاکر چھت پر لے جاتیں اور شہر سے آنے والے راستے کی طرف رخ کرکے انتظار کی پرشوق پونیاں کاتنے لگتیں۔ میری بائیسکل کے پہیے اور ماں جی کا چرخہ ایک ساتھ گھومتے۔ واپسی کا سفر مجھے ہمیشہ آسان لگتا۔ ہوا مخالف ہوتی تب بھی لگتا، پکی ڈور سے بندھا کھنچا چلا جا رہا ہوں- ابا کو بھی اس روز باہر کے سارے کام بھول جاتے اور وہ گھر میں رہنے کاکوئی بہانہ اور مصروفیت تلاش کر لیتے۔لکڑیاں چیرتے، ٹوٹی چارپائیاں مرمت کرتے یا ان کی ادوائنیں کستے- مگر ظاہر نہ ہونے دیتے کہ وہ ہفتے بھر کے ملتوی گھریلو کام کاج آج ہی کیوں انجام دے رہے ہیں؟
وہ کھانے پکاتی رہی اور میں ٹی وی دیکھتا اور موسیقی سنتا رہا مگر اس کے باوجود لگا جیسے رات کا بحراوقیانوس ہم نے کشتی کے بغیر ہاتھ پاؤں مار مار کر عبور کیا ہے۔ جاگنے کے باوجود آخری سحری میں کسی نے پیٹ بھر کر نہ کھایا۔ کئی بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کا گمان ہوا، مگر وہ خاموش تھا۔وہ باورچی خانے میں بیٹھی سویاں پکاتے ہوئے آنسوؤں کا نمک بہا رہی تھی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، مگر سلسلہ منقطع ہوگیا۔ دو تین مرتبہ ایسا ہوا۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ دور سے فون آ رہا ہے، وہ کوشش کر رہا ہے مگر ہجوم کی وجہ سے سلسلہ قائم نہیں ہورہا۔ اس سے اندازہ تو ہو گیا کہ وہ خیریت سے ہے۔ مگر یہ سوچ کر ہم مزید اداس ہوگئے کہ وہ ابھی تک وطن سے دور ہے مگر کہاں؟ اس کا کچھ پتانہ چل سکا۔ کیونکہ فون پہلے کی طرح پھر خاموش ہوگیا اور رات بھر خاموش رہا۔
معلوم نہیں مجھے بیٹے اور ابا کی یاد ایک ساتھ کیوں آرہی تھی؟ شاید اس لیے کہ ان کی بھی میرے بیٹے سے بڑی دوستی رہی۔ اپنے پوتوں اور نواسوں میں وہ سب سے زیادہ پیار اسی سے کرتے تھے۔ کئی بار چھٹیوں میں اسے اپنے ساتھ گاؤں لے جاتے اور خوب خاطریں کرتے۔ انھوں نے چارہ لادنے کے لیے ایک گدھی رکھی ہوئی تھی جس کے ساتھ اس کی بچھیری بھی تھی۔ انھوں نے پہلی بار اسے گدھی پر سوار کیا تو کہنے لگا ‘‘داداجی! اس کا ہینڈل کہاں ہے؟’’وہ بہت محظوظ ہوئے اور اس کی رسی تھماتے ہوئے بولے ‘‘یہی اس کا ہینڈل ہے۔’’ کچھ عرصہ بعد وہ شہر آئے تو اس نے گدھی کی خیریت معلوم کی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اور اس کی بچی دونوں بیمار ہو کر مر گئیں۔ اسے بہت افسوس ہوا۔ اس نے محلے کے ہر گھر میں بتایا کہ داداجی کی کھوتیاں مر گئی ہیں۔ کچھ پڑوسنیں اس کی امی کے پاس افسوس کرنے آئیں اور یہ پوچھنا ضروری سمجھا کہ کیا تم لوگ پیچھے سے کمہار ہو؟ اس پر ہم سب نے اسے خوب ڈانٹا۔پھر جب وہ کالج میں پڑھتا تھا، تو گاؤں گیا۔ لیکن کچھ دن بعد اداس ہوگیا۔ ایک روز اپنے داداجی سے کہنے لگا ‘‘میں واپس گھر جانا چاہتا ہوں۔’’‘‘یہ بھی تو تمھارا اپنا گھر ہے۔’’‘‘میں یہاں ‘‘بور’’ ہورہا ہوں۔’’‘‘وہ کیا ہوتا ہے؟’’ابا بتاتے تھے کہ تب انھیں معلوم نہ تھا،‘‘ بور ہونا’’ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی‘‘ بور’’ ہوئے تھے۔ مگر پھر وہ بھی بور ہونے لگے۔ جب زیادہ بور ہوجاتے تو کرایہ لے کر ہمیں ملنے شہر آجاتے۔
جب بیٹا امریکہ سدھار گیا، تو کچھ عرصے بعد ایک روز میرے ہاتھ پندرہ بیس برس پرانی ڈائری لگ گئی۔ پہلے صفحے پر ایک ضروری نوٹ درج تھا:مجھے یاد آیا،میں نے اسے سبحان تیری قدرت پکارنے والے کالے تیتر کی ایک من گھڑت کہانی سنائی تھی۔ وہ اسے اس قدر پسند آئی کہ رات دس بجے ضد شروع کردی ‘‘مجھے ابھی کالا تیتر لا کر دیں۔’’ میں نے اسے ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ سردیوں میں کالے تیتر گرم علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں واپس آئیں گے تو لا دوں گا۔ اس نے کہا ‘‘ابو آپ بھول جائیں گے۔’’میں نے کہا ‘‘نہیں بھولوں گا، ضرور لا دوں گا۔’’ مگر اس کا اندیشہ دور نہیں ہوا۔ تب میں نے اسے یقین دلانے کے لیے ڈائری نکالی اور اس پر لکھا:ضروری نوٹ: گرمیوں میں عامر کو کالا تیتر لا کر دینا ہے۔ اس نے کہا، یہ بھی لکھیں کہ بھولنا ہرگز نہیں۔ میں نے یہ بھی لکھ دیا۔ تب کہیں جا کر اس کی تسلی ہوئی اور وہ مطمئن ہو کر سو گیا کہ اب گرمیاں آتے ہی ابو کو کالا تیتر لانا پڑے گا۔ کیونکہ یہ ان کی ڈائری میں لکھا جا چکا۔ وہ ٹھیک ہی سمجھا تھا کہ لکھا ہوا مٹایا نہیں جا سکتا۔ مگر گرمیاں آنے تک میں ہی نہیں اسے بھی وعدہ بھول گیا۔ لیکن لکھا ہوا اب تک موجود تھا۔
تحریر بڑی ظالم چیز ہے، آدمی بھول جائے یا مٹ جائے تب بھی رہتی ہے۔ وقت بھی بڑا سنگ دل اور تیزرفتار ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ وہ میری انگلی پکڑ کر چلتا تھا، اب مجھے مشورے اور ہدایات لکھ لکھ کر بھیجتا ہے۔ میں ابا کے لیے ہر بار نئے کپڑے، سویٹر اور گرم چادر وغیرہ لے جاتا تھا اور سمجھتا، ان کے سب دکھ دور ہوگئے۔ لیکن کیا چیزیں اور تحائف جدائی کے زخم مندمل کر سکتے ہیں؟
رات کا آخری پہر شروع ہوگیا مگر ٹیلی فون اب تک خاموش تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کچھ دیر ضرور سولوں ورنہ بیمار پڑ جاؤں گا مگر نیند بالکل نہیں آ رہی تھی۔ پتا نہیں اس وقت کس ملک کے کس شہر میں ہوگا یا کن پانیوں پر اس کا جہاز پرواز کر رہاہوگا۔ کمرہ اس کی یادوں سے پٹا پڑا تھا۔جب وہ بہت چھوٹا تھا، میں منہ سے سیٹی نکال کر اسے پکارتا۔ وہ سیٹی پہچانتا تھا۔ گھر میں جہاں کہیں ہوتا، سیٹی سن کر پالتو جانوروں کی طرح دوڑتا ہوا فوراً پہنچ جاتا۔ اسے پکارنے کی یہ عادت اس کے ساتھ ہی پختہ ہوتی گئی۔ جب وہ میڈیکل میں داخلے کے بعد بہاولپور چلا گیا تو میں اپنی اداسی کا اظہار سیٹی سے کرتا۔ لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ اس کی امی پہچاننے لگی ہے کہ یہ عام سیٹی نہیں، میں اسے یاد کر رہا ہوں تو میں نے بجانا چھوڑدیا۔ ان عورتوں کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ میں اندر سے کتنا کمزور ہوں۔مجھے یاد آیا کہ جس روز اس کا ویزہ لگا، وہ جتنا خوش تھا، ہم اتنے ہی اداس تھے۔ اس کی امی بہت روئی۔ میں بھی اسی کی آنکھوں سے رولیا تاکہ اپنی آنکھیں خشک رکھ کر اسے ہمت و حوصلے سے رخصت کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری آنکھیں بھی تر ہو جاتیں تو وہ حوصلہ ہار جاتا اور اپنا جانا موقوف کردیتا۔ رخصت ہوتے وقت وہ بہت پرجوش تھا۔ اس کی آنکھوں میں نئی منزلوں کی چمک اور سہانے خواب تھے۔چند ماہ پہلے میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس بار ٹیلی فون آیا تو اسے واپس آنے پر قائل کرنے کی کوشش کروں گا۔ مگر جس روز ٹیلی فون آیا، ایٹمی دھماکے کی خوشی میں ڈالر کانرخ دْگنا ہوگیا اور میں چپ ہوگیا۔
وہ سو رہی تھی، اندیشوں، واہموں اور یادوں سے بے نیاز۔ میں نے اٹھ کر نیند کی گولی کھائی اور دوبارہ بستر پر لیٹ کروٹیں بدلنے اور یادوں کی جگالی کرنے لگا۔ مجھے یاد آیا، جب وہ بہت چھوٹا تھا، ہمارے درمیان سوتا۔ اسے میرے یا اپنی امی کے گال پر ہاتھ رکھ کر سونے کی عادت تھی۔ ہاتھ ہٹایا جاتا تو جاگ پڑتا یا پھر نیند ہی میں دوبارہ وہیں رکھ لیتا۔ شاید اسے اس لمس سے سوتے میں تحفظ کا احساس رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ ہمیں بھی اس کے
ہاتھ کی عادت ہوگئی۔لیکن اب سال دو سال بعد وہ چند دنوں کے لیے آئے، تو ہم اسے پہلے کی طرح بار بار لپٹا نہیں سکتے، پیار نہیں کر سکتے اور ہاتھ اپنے گال پر رکھ کر سو نہیں پاتے۔ وہ قریب بیٹھا باتیں کرتا رہے، اسی کو بہت جانتے ہیں۔ مگر وہ کہاں کھو گیا؟ اس نے فون کیوں نہیں کیا؟ کیا اس کی عید بھاگ دوڑ یا سفر میں گزر گئی؟ عید کے موقع پر گھر پہنچ نہ سکنے کا کس قدر ملال ہوگا۔ انہی خیالات میں کھویا میں نجانے کب سو گیا۔ سوگیا یا شاید جاگو میٹی سپنا دیکھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے پہلو میں لیٹا ہے اور اس کا ننھا سا ہاتھ میرے گال پر ہے۔ میں اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیتا ہوں مگر وہ بڑا اور سخت ہوتا جاتا ہے۔ میں چونکتا ہوں۔ اس کی امی کمرے میں نہیں، نیچے کی منزل سے باتوں کا شور سنائی دے رہا تھا اور وہ میرے سرہانے بیٹھا تھا- میں نے اسے لپٹا لیا اور احتیاط کے سارے بندھن توڑ کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔بیٹا۔۔میں نے کہا ۔۔۔لیکن مجھے یوں لگا کہ جیسے یہ میں نے نہیں بلکہ میرے والد نے کہا ہو