زیورات کا کھلا ڈبہ

مصنف : آصفہ ضیا احمد

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : مئی 2012

             میرا تعلق آسودہ حال اور خوشحال گھرانے سے ہے جبکہ میری سہیلی تہنیت کے والد ایک مالیاتی ادارے میں کلرک تھے۔ ان کا خا ندا ن کل ۵، افراد پر مشتمل ہے۔ والدین، خود تہنیت اور اس کے ۲ چھوٹے بھائی سرمد اور سعد۔ تہنیت کے والد کی تنخواہ اخراجات کے لیے ناکافی تھی لیکن والدہ بڑی سلیقہ مند اور کفایت شعار خاتون تھیں۔ خود بھی گھر میں سلائی اور کشیدہ کاری کرکے اتنی رقم پس انداز کرلیتیں کہ وقتِ ضرورت کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔تہنیت اور اس کے دونوں بھائیوں کی تعلیمی حالت بہت اچھی تھی۔ حالات کے پیشِ نظر تینوں محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگے۔ درس و تدریس کا سلسلہ کامیاب رہا۔ تینوں بہن بھائی بہت محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے، اسی وجہ سے بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ یوں آمدنی کا ایک ذریعہ نکل آیا اور ان کے معاشی حالات میں کافی بہتری آگئی۔میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی اور خاندان بھر کی لاڈلی تھی کیوں کہ ہمارے خاندان میں ماشاء اللّہ بیٹے تو سب کے تھے لیکن بیٹیوں کی کمی تھی۔ جیسے ہی میرا بی۔ایس۔سی کا نتیجہ نکلا، میرے تایاابو اور تائی اماں ہمارے گھر آن دھمکے۔ اس بار وہ اپنے اکلوتے بیٹے احمد کا رشتہ لے کر آئے تھے۔ میرے والد قطعی تیار نہیں تھے، لہٰذا انھوں نے صاف انکار کردیا اور بغیر کسی حیل و حجت کے دوٹوک بتایا ‘‘میں اپنی بیٹی کا رشتہ دوست کے بیٹے کے ساتھ طے کرچکا ہوں۔’’تایاابو یہ بات سن کر سخت برہم ہوئے اور کہا ‘‘خبر بھی نہ ہوئی اور سگے بھائی ہوتے ہوئے تم نے بیٹی کا رشتہ طے کردیا۔ اس لڑکے میں کون سے لعل جڑے ہیں جو بھتیجے پر اسے ترجیح دی گئی؟’’لیکن ابو نے تایاابو کے غصے کی کوئی پروا نہیں کی اور اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ ابو دراصل تایاابو کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔ تایاابو کا غصہ سارے خاندان میں مشہور تھا، لیکن اس وقت ان کا غیض و غضب دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اب وہ ہمارے یہاں مزید قیام کے لیے تیار نہیں تھے حالانکہ میری اور امی کی بہت کوشش تھی کہ وہ لوگ کچھ دن اور ٹھہرتے لیکن تایاابو کا مزاج بہت بگڑ گیا۔ انھوں نے تائی کو فوری واپسی کا حکم صادر کیا۔ تائی بھی حکم کی تعمیل میں سامان سمیٹنے لگیں۔ اس روز موسم بڑا خوشگوار ہورہا تھا۔ گرمیوں کی جلتی جھلستی مسموم ہواؤں کے بعد اچانک آسمان پر بادل چھا گئے اور ٹھندی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ لیکن گھر کا ماحول عجیب سا تھا۔ تناؤ اور کھینچاؤ کی وجہ سے سب کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے تھے اور بڑی تکلیف دہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو مجرم سمجھ رہی تھی۔ باہر موسم جتنا اچھا تھا، میرے دل اتنا ہی خراب تھا۔ دراصل امی، ابو کے بعد اگر کسی کو ٹوٹ کر چاہتی تو وہ تھے میرے تایاابو اور تائی امی۔ احمد بھائی کو تو میں اپنا حقیقی بھائی سمجھتی تھی، اسی لیے ابو کے فیصلے سے خوش اور مطمئن تھی۔تھوڑی دیر بعدموسم کی پہلی بارش شروع ہوگئی۔ پہلے تو رم جھم پھوار برسی اور پھر اچانک بارش نے زور پکڑ لیا۔ اسی اثنا میں تہنیت پانی میں شرابور چھوٹے بھائی سعد کے ساتھ میرے گھر داخل ہوئی۔دونوں بہن بھائی دراصل بازار جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے آلیا۔ دونوں حواس باختہ تھے، اس لیے دروازے پر نہ اطلاعی گھنٹی بجائی اور نہ ہی دستک دی اور اندر چلے آئے۔ سامنے صوفے پر تائی امی براجمان تھیں اور برابر میں تایاابو بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو اور امی کرسیوں پر تھے۔ میں فرش پر گدی کے سہارے آرام سے بیٹھی تھی کہ یہ بِن بلائے مہمان وارد ہوئے۔ تائی امی کی نظر جب تہنیت کے بھیگے بھیگے چہرے پر پڑی تو ان کی نگاہیں بس جم کے رہ گئیں۔ مجھے تب ایک گیت کے یہ بول یاد آگئے ،تم کو دیکھا تو نظریں یہ کہنے لگیں ہم کو چہرے سے ہٹنا گوارا نہیں۔تہنیت کافی خوش شکل اور خوش نقوش کی مالک تھی۔ تائی امی کی آنکھوں میں تہنیت کے لیے پسندیدگی کے جو سائے لہرا رہے تھے، اسے ہر شخص نے محسوس کیا۔ تہنیت نے بھی یہ بات محسوس کرلی۔ وہ شرم سے سرخ ہوگئی جس کی وجہ سے اس کا حسن دوبالا ہوگیا۔ جیسے ہی بارش تھمی، دونوں بہن بھائی بہانہ کرکے کھسک گئے۔ کمرے کے ماحول سے دونوں بھانپ گئے تھے کہ ان کے آنے سے پہلے کسی سنجیدہ موضوع پر گفتگو ہورہی تھی اور ان کی ناوقت آمد سے سب خاموش ہوگئے۔ میں نے چائے پر روکنا چاہا، امی نے بھی بیٹھنے کا کہا مگر دونوں بہن بھائی رخصت ہوگئے۔اب اچانک تائی امی نے جانا ملتوی کردیا جبکہ تایا ابو بضد تھے کہ ابھی اور اسی وقت چلو۔ تائی امی نے علی الاعلان تایاابو سے کہہ دیا کہ وہ ہر حال میں تہنیت کو ہی اپنی بہو بنائیں گی۔ بالآخر تایاابو نے بھی سر تسلیم خم کردیا۔ میں اور امی بے انتہا خوش ہوئے۔ تہنیت امی کو بھی بہت پسند تھی اور میری تو خیر وہ عزیزترین سہیلی تھی۔ ابو کے انکار کی وجہ سے تعلقات میں جو دراڑ پڑنے والی تھی، یوں اس کے بھی امکانات ختم ہوگئے۔ تائی اور امی پھر ہم دونوں ماں بیٹیوں کے ساتھ شیروشکر ہوگئیں۔ البتہ تایاابو روٹھے روٹھے سے تھے۔ تائی امی نے احمد بھائی کو فون کیا، تو وہ بلا کسی تاخیر کے چلے آئے۔جب انھیں پتا چلا کہ ان کی ہونے والی دلہن میں نہیں تہنیت ہے تو ان کی خوشی اور اطمینان دیدنی تھا۔ ایک دن انھوں نے خود مجھے بتایا ‘‘گڑیا! میری کوئی بہن ہے نہیں، اسی لیے تمھیں اپنی سگی بہن سمجھتا ہوں۔ بارہا میں نے امی ابو کو سمجھایا لیکن وہ مان ہی نہیں رہے تھے چنانچہ ان کی ضد کے آگے میں نے ہار مان لی۔ ورنہ میں دل سے اس رشتے کے لیے تیار نہیں تھا۔’’احمد بھائی کی بات سن کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ احمد بھائی حقیقتاً بڑے نیک اور شریف الطبع انسان تھے۔ جب رشتے کی بات تہنیت کے والدین سے کی گئی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کیوں کہ انھیں اپنے معاشی حالات کا اچھی طرح علم تھا۔ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں تہنیت کے لیے ایسا لائق فائق اور اعلیٰ خاندان کا لڑکا اتنی آسانی سے مل جائے گا۔ آناً فاناً یہ رشتہ طے پایا اور پھر چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق تہنیت میری بھابی بن گئی البتہ میرے والد آخر تک اس رشتے کے خلاف رہے۔وہ امی سے مسلسل یہی کہتے رہے ‘‘احمد تو واقعی ہیرا ہے لیکن میں اپنے بھائی کا مزاج اچھی طرح جانتا ہوں۔ بھائی دولت کے دلدادہ ہیں اور اس لحاظ سے تہنیت کا گھرانا ان کے ترازو میں نہیں تلے گا کیونکہ وہ لوگ نہ صرف مالی طور پر بھائی کے خاندان سے کمزور بلکہ نہایت شریف اور سیدھے ہیں۔ بھائی انھیں تگنی کا ناچ نچا دیں گے۔’’ابو کی یہ باتیں میں نے اور امی نے ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال دیں اور تائی امی کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اس شادی میں حصہ لیا۔ بری کے جوڑوں کی خریداری، زیورات کا انتخاب، سب کچھ تائی امی نے ہم پر چھوڑ دیا۔ احمد بھائی بھی بے انتہا خوش تھے کیوں کہ میں نے انھیں تہنیت کی ایک تصویر دکھائی تھی۔ تایاابو اس رشتے سے کچھ خاص خوش نہیں تھے لیکن خواتین کے سامنے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ شادی میں ہر موقع پر میں نے تائی امی اور احمد بھائی سے دل کھول کر نیگ وصول کیا۔ اکلوتی بہن جو ٹھہری۔ شادی بڑے اچھے انداز میں انجام پائی اور تہنیت دلہن بن کر پیا کے دیس سدھاری۔میں اور تہنیت بچپن سے ہی ایک جان دو قالب تھیں اور اب تو رشتہ داری بھی قائم ہوگئی۔ وہ جب بھی احمد بھائی کے ساتھ میکے آتی تو پہلے ہمارے یہاں آتے، اس کے بعد وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے ملتی۔ احمد بھائی بھی سسرال والوں سے بہت عزت و احترام سے پیش آتے، میں اور تہنیت فون پر گھنٹوں باتیں کرتے۔ اسے سسرال میں کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ تائی امی اور احمد بھائی کی تعریف میں تو اس کی زبان خشک ہوجاتی لیکن تایاابو کے متعلق دبے دبے الفاظ میں بتایا کہ تایاابو کسی امیر کبیر گھرانے کی لڑکی کو اپنی بہو بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ وقتاً فوقتاً اپنا غصہ کبھی بیوی اور کبھی بیٹے پر اتارتے۔ جب دونوں پر بس نہ چلتا تو تختہ مشق بیچاری تہنیت بنتی۔ تہنیت سسر کا احترام تو بہت کرتی تھی لیکن ان کے سائے سے بھی ڈرتی۔تایاابو افسر جنگلات کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ جانورپالنے کا انھیں دیوانگی کی حد تک شوق تھا۔ بقول تائی امی ‘‘انسانوں سے تو یہ ڈھنگ سے بات کرتے نہیں اور جانوروں کو یوں گلے لگاتے ہیں جیسے وہ ان کے اپنے ہوں۔’’تایاابو کا باغ بھانت بھانت کے جانوروں سے بھرا پڑا تھا۔ جب بھی میں تایاابو کے گھر جاتی تو ان کے رنگ برنگ جانوروں سے مل کر بڑا مزہ آتا۔ خاص طور سے ان کی ایک پالتو بندریا مجھے بہت اچھی لگتی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر کسی کی اتنی صحیح نقل اتارتی کہ عقل حیران رہ جاتی۔ بندریا عموماً ایک زنجیر سے بندھی ہوتی۔ زنجیر درخت کے تنے سے بندھی رہتی۔ کبھی کبھی تایاابو کے حکم پر اسے آزاد بھی کردیا جاتا۔ پھر بندریا سارے باغ میں چھلانگیں مارتی ، ایک جگہ سے دوسری جگہ کودتی پھرتی رہتی، کبھی کبھی کمروں میں بھی آجاتی۔ پھر گھر کے ملازمین اسے پکڑدھکڑ کے پابہ زنجیر کردیتے۔ تہنیت اور احمد بھائی کی شادی کے بعد بھی میں جب تایاابو کے گھر گئی تو ان کے جانوروں میں مجھے مزید اضافہ نظر آیا۔اسی دوران میری بھی شادی ہوگئی اور میں اپنے سسرال ہی کی ہو کر رہ گئی کیوں کہ وہاں بھی میں اکلوتی بہو تھی۔ ماشاء اللّٰہ میرے شوہر سفیان کی چار بہنیں تھیں جن کی شادیاں میرے ذمہ تھیں۔ میری شادی کے فوراً بعد دو نندوں کی شادیاں انجام پائیں اور دو چھوٹی نندوں کی منگنیاں ہوئیں۔ مصروفیات کی بنا پر میں امی ابو سے بھی کئی کئی دن نہ مل پاتی۔ میرا اور تہنیت کا ٹیلی فونی رابطہ بھی کم ہوگیا۔ پھر اچانک یہ دھماکا خیز خبر ملی کہ تایاابو کے گھر چوری ہوگئی ہے اور الزام تایاابو تہنیت کے دونوں بھائیوں، سرمد اور سعد پر لگا رہے ہیں۔بھائی اسی روز پہلی بار اپنی بہن سے ملنے اس کی سسرال گئے تھے اور کچھ دیر قیام کرکے واپس ہوگئے تھے۔ خبر سنتے ہی میں نے فوراً تہنیت سے رابطہ کیا۔ تہنیت نے روتے ہوئے بھرائی آواز میں واقعہ کچھ یوں سنایا: ‘‘میں اور احمد ایک شادی کی تقریب میں گئے تھے۔ رات گئے واپسی ہوئی۔ میں نے کپڑے تبدیل کیے اور تمام زیورات اتار کر چوبی ڈبے میں رکھ دیئے جن کی مالیت لاکھوں روپے کی تھی۔ دوسری صبح ہم دونوں دیر سے جاگے۔ اسی اثنا میں سرمد اور سعد پہنچ گئے۔ وہاں سے انھیں کسی دوست کے یہاں جانا تھا، اس لیے جلد چلے گئے۔‘‘جب میں تمام کاموں سے فارغ ہوئی تو یہ دیکھ کر ہکا بکا ہوگئی کہ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا زیور کا ڈبا غائب ہے۔ سارا گھر تلاش کرلیا مگر نجانے اس ڈبے کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ کمرے کی تمام کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں جو باغ کی طرف کھلتی تھیں۔ وہیں تمام جانوروں کے پنجرے تھے۔ اگر چور باہر سے آتا تو دروازے پر موجود چوکیدار اور خونخوار کتوں کی نظروں سے نہ بچ پاتا۔ اس کے علاوہ پنجرے میں بند جانور بھی شور مچا کر بنگلہ سر پر اٹھا لیتے۔ واللہ علم چور کس دروازے سے آیا تھا۔ بنگلے کی چاردیواری پھلانگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سرمد اور سعد آئے ضرور لیکن ہم سے مل کر اسی وقت چلے گئے۔ پتا نہیں ابو کیوں میرے بھائیوں پر شک کر رہے ہیں؟’’میں نے اسے حوصلہ اور تسلی تشفی دی اور سمجھایا: ‘‘تم، تمھارے والدین اور دونوں بھائی کس قسم کے انسان ہیں، کیا مجھے معلوم نہیں؟ میرا تمھارا ساتھ تو برسوں پر محیط ہے۔ پھرتایاابو کا مزاج تو تمھیں معلوم ہے۔ ابو نے اسی وجہ سے میرا رشتہ اس گھر میں نہیں کیا تھا۔ وہ تو تمھارے اور احمدبھائی کی شادی کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ یقین کرو میرے ابو تمھیں بھی اتنا ہی چاہتے ہیں جتنا مجھے، اسی لیے وہ آخر تک امی سے یہی کہتے رہے، تہنیت کے والدین سے کہو کہ صاف انکار کردیں۔ لیکن تم صرف تائی اماں کی پسند نہیں بلکہ میری اور امی کی بھی دلی خواہش تھی کہ تم ہمارے خاندان میں شامل ہوجاؤ۔ احمد بھائی ایک مثالی انسان ہیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔ مگر یہ نئی افتاد آن پڑی۔ بہرحال اللہ پر بھروسا رکھو، وہ کارساز ہے۔ اس بے بنیاد الزام سے سعد اور سرمد ضروری بری ہوں گے اور چور خود اپنا جرم سب کے سامنے قبول کرے گا اِن شاء اللہ۔’’ میرے دلاسا بھرے الفاظ نے جادو کا کام کیا، تہنیت کا رونا دھونا کافی کم ہوگیا اور پھر ہم اِدھر اْدھر کی باتیں کرنے لگیں۔ باتوں کا سلسلہ تب ختم ہوا جب سفیان گھر میں داخل ہوئے۔ میں نے اللہ حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔دوسرے ہی روز میں اور سفیان تایاابو کے گھر پہنچے۔ امی اور ابو بھی چوری کا سن کر وہاں آئے ہوئے تھے۔ گھر پر موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ گھر کے ملازمین بھی روبوٹ کی طرح حرکت کررہے تھے۔ چہروں سے خوف اور دہشت برس رہی تھی کیوں کہ پولیس ان پر بھی شک کررہی تھی۔ اسی لیے وہ لوگ خوف زدہ تھے۔ وہ تو تائی اماں اور احمد بھائی کو اللہ جیتا رکھے، انھوں نے تفتیش کے دوران سختی سے کہہ دیا کہ ہمارے ملازمین نہایت وفادار، نمک حلال اور بھروسے کے آدمی ہیں۔ احمد بھائی نے سرمد اور سعد پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ جب کہ تایاابو علی الاعلان کہہ رہے تھے کہ غریبی ایک لعنت ہے اور غربت سے تنگ آکر نوجوان اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ تہنیت کی روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ مجھ سے مل کر وہ بالکل بچوں کی طرح رونے لگی۔ بڑی مشکل سے میں نے اسے سنبھالا۔ صرف تہنیت ہی نہیں احمدبھائی اور تائی امی بھی تایاابو کی الزام تراشیاں سنتے سنتے تنگ آگئے۔ بالآخر تائی امی سے بہو کا حال نہیں دیکھا گیا اور انھوں نے اپنی کراری آواز میں شوہر کوبولنے سے روک دیا۔ انھوں نے تہنیت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ‘‘زیورات سے زیادہ قیمتی میری بہو ہے۔ جس روز سے اس گھر میں آئی ہے، بالکل بیٹیوں کی طرح آپ اور میری خدمت کی ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس کے ہاتھوں یہ نقصان ہوگیا تو کیا آپ اسے معاف نہیں کر سکتے؟ بیٹے اور بہو کی خوشیوں سے زیادہ تو نہیں ہیں وہ زیورات!’’ تائی امی نے اتنے پرزور الفاظ میں تہنیت کی حمایت کی کہ تایاابو کو خاموش رہنے میں اپنی عافیت نظر آئی۔دوچاردن قیام کے بعد میں نے واپسی کا قصد کیا اور تائی امی سے اجازت طلب کی۔ امی اور ابو بھی واپس جانا چاہتے تھے۔ ہماری گاڑی کا وقت صبح چار بجے تھا، اس لیے میں نے تقریباً ۳ بجے بستر چھوڑ دیا۔ سارے گھر پر سناٹا طاری تھا۔ سب گہری نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔ خاموشی، چاندنی رات اور باغ سے آتی موتیا کے پھولوں کی خوشبو-85 بڑا خوبصورت سماں تھا۔ کچی نیند کا خمار تھا ،اس لیے آنکھیں ملتے ہوئے کھڑکی کھول کر باغ کا نظارہ کرنے لگی۔ پھر اچانک میری نظریں ایک جگہ منجمد ہوگئیں۔ میری آنکھوں نے جو حیرت انگیز اور ناقابل یقین منظر دیکھا ،وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ تہنیت کے زیورات اور گہنوں کا چور میرے سامنے تھا۔ ڈبا کھلا پڑا تھا اور زیورات چاند کی روشنی میں اپنی آب و تاب دکھا رہے تھے۔تایاابو کی لاڈلی بندریا کے سامنے ایک آئینہ رکھا تھا۔ وہ ڈبے سے گہنے نکال کر باری باری پہنتی ،پھر خوش ہوکر اپنی بتیسی چمکاتی اور آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر خوش ہوتی۔ اچھلتی کودتی کبھی زیور پہنتی کبھی اتارتی۔ میک اپ کا کچھ سامان بھی وہاں بکھرا پڑا تھا جو یقینا تہنیت کا ہی تھا۔ ساری دنیا سے بے خبر بندریا اپنے روپ سنگھار میں مصروف تھی۔ میں دنیاومافیہا سے بے خبر اسے دیکھے جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ہوش آیا تو میں نے پل بھر میں سب کو نیند سے بیدار کردیا۔ میں ہر ایک سے یہی کہہ رہی تھی ‘‘میں نے چور تلاش کرلیا۔’’یہ جملہ ایسا دھماکا خیز تھا کہ سب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ خاص طور سے تایاابو تو ایسا دہاڑے جیسے چور کو اسی وقت سولی چڑھا دیں گے۔ پھر جب سب نے اس چور کا دیدار کیا تو فرطِ حیرت سے سب کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب پتھر کے بت بن گئے ہوں۔ سپیدہ سحر نمودار ہونے لگا تھا۔ بندریا جو ابھی تک اپنے آپ کو آئینے میں سجابنا رہی تھی، روشنی دیکھ کر فوراً چوکنّا ہوگئی۔یکے بعد دیگرے باری باری تمام زیورات اتار کر ڈبے میں رکھے اور پنجوں سے زمین کریدنے لگی۔ اچھا خاصا گڑھا بنا کر اس نے ڈبا،سامان آرایش اور آئینہ جلدی جلدی اندرڈالا،پھر مٹی پھیلائی اور پھر پیر پھیلا کر اپنی جگہ لیٹ گئی۔ اب سب کی سمجھ میں بات آگئی تھی۔ ان پر جو ہنسی کا دورہ پڑا تو الامان الحفیظ! گھر کے نوکر چاکر بھی اپنے کمروں سے نکل آئے۔ سب ہی نے اس ڈرامے کو دیکھا، جہاں سب کے چہرے کھلے کھلے اورخوش تھے، وہیں تایاابو بے حد نادم اور شرمسار سے لگ رہے تھے۔ بڑی ہمت کرکے وہ تہنیت کی طرف بڑھے اور اسے گلے لگا لیا۔ تہنیت جو ہمیشہ ان سے خائف اور ڈری سہمی رہتی تھی، ان کے سینے سے لگی زاروقطار رونے لگی- مگر یہ آنسو خوشی کے تھے۔ گاڑی کا وقت نکل چکا تھا، لیکن ہم دونوں میاں بیوی کو اس کا قطعاً افسوس نہیں ہوا۔ بلکہ خوشی اس بات کی تھی کہ تہنیت کی زندگی کی گاڑی جو ہچکولے کھا رہی تھی، وہ دوبارہ خوشیوں کی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئی۔

٭٭٭