تہذیب و شرافت اورخوبصورت انسانی اقدار کونبھانے اور پھر قیام پاکستان کے پس منظر میں
ان کے پامال ہونے کی لازوال داستان
یہ سردیوں کی ایک یخ بستہ اور طویل رات کی بات ہے، میں اپنے گرم گرم بستر میں سر ڈھانپے گہری نیند سو رہا تھا، کہ کسی نے زور سے جھنجوڑ کر مجھے جگا دیا۔کون ہے میں نے چیخ کر کہا ، اور اسکے جواب میں میں ایک بڑا سا ہاتھ میرے سر سے ٹکرایا اور گھپ اندھیرے میں سے آواز آئی، تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کرلیا ہے۔کیا؟ میں نے لرزتے ہوئے ہاتھوں کو پرے دھکیلنا چاہا، کیا ہے، اور تاریکی کا بھوت بولا، تھانے والوں نے رانو کو گرفتا کر لیا اس کا فارسی میں ترجمہ کرو۔داؤ جی کے بچے، میں نے اونگھتے ہو کر کہا، آدھی آدھی رات کو تنگ کرتے ہو۔۔دفع ہوجاؤ۔۔میں نھیں۔۔میں نھیں آپ کے گھر میں رہتا، میں نھیں پڑھتا۔۔داؤ جی کے بچے۔۔کتے اور میں رونے لگا۔داؤ جی نے چمکار کر کہا، اگرپڑھے گا نھیں تو پاس کیسے ہوگا، پاس نھیں ہوگا تو بڑا آدمی کیسے بنے گا، پھر لوگ تیرے داؤ جی کو کیسے جانیں گے؟اللہ کرے سب مرجائیں آپ بھی آپ کے جاننے والے بھی۔۔اور میں بھی۔۔میں بھی، اپنی جواں مرگی پر میں ایسا رویا کہ دو ہی لمحوں میں گھگھی بندھ گئی۔داؤ جی بڑے پیارے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے، بس اب چپ کر شاباش۔۔۔میرا اچھا بیٹا اس وقت ترجمہ کر دے پھر نھیں جگاؤں گا۔
آنسوؤں کاتار ٹوٹتا جارہا تھا، میں نے جل کر کہا آج حرام زادے رانو کو پکڑ لے گئے، کل کسی اور کو پکڑ لیں گے، آپ کا ترجمہ تو۔نھیں نھیں انہوں نے بات کاٹ کر کہا، میرا تیرا وعدہ رہا، آج کے بعد رات کو جگا کر کچھ نہ پوچھوں گا۔۔ شاباش اب بتا، تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کرلیا۔میں نے روٹھ کر کہا، مجھے نھیں آتا۔فوراً انھیں کہہ دیتا ہے، انہوں نے سر سے ہاتھ اٹھا کر کہا کوشش تو کرو۔نھیں کرتا میں نے جل کر جواب دیا۔اس پر وہ ذرا ہنسے اور بولے، کارکنان گزمہ خانہ رانو توقیف کروند۔۔کارکنان گزمہ خانہ تھانے والے،بھولنا نھیں یہ نیا لفظ ہے نئی ترکیب ہے، دس مرتبہ کہو۔مجھے پتہ تھا کہ یہ بلا ٹلنے والی نھیں ہے، ناچار گزمہ خان والوں کا پہاڑہ شروع کردیا، جب دس مرتبہ کہہ چکا تو داؤ جی نے بڑی لجاجت سے کہا اب سارا فقرہ پانچ مرتبہ کہو جب پنج گانہ مصیبت بھی ختم ھوئی تو انھوں نے مجھے آرام سے بستر میں لٹاتے ہوئے اور رضائی اوڑھاتے ہوئے کہا، بھولنا نھیں صبح اٹھتے ہی پوچھوں گا۔پھر وہ جدھر سے آئے تھے ادھر لوٹ گئے۔
شام کو جب میں ملا جی سے سیپارے کا سبق لے کر آیا تو خراسیوں والی گلی سے ہو کر اپنے گھر جایا کرتا تھا، اس گلی میں طرح طرح کے لوگ بستے تھے، مگر میں صرف موٹے ماشکی سے واقف تھا، جس کو ہم کدو کریلا ڈھائی آنے کہتے تھے، ماشکی کے گھر کے ساتھ بکریوں کا ایک باڑہ تھا، جس کے تین طرف پکے مکانوں کی دیواریں اور سامنے رخ آڑی ترچھی لکڑیوں اور خاردار جھاڑیوں کا اونچا اونچا جنگلہ تھا، اس کے بعد ایک چوکور میدان آتا تھا، پھر لنگڑے کہار کی کوٹھری اور اس کے ساتھ گیرو رنگی کھڑکیوں اور پتیل کے کیلوں والے درازے کا ایک چھوٹا سا پکا مکان، اسکے بعد گلی میں ذرا سا خم پیدا ہوتا، اور قدرے تنگ ہوجاتی تھی، پھر جوں جوں اسکی لمبائی بڑھتی جاتی توں توں اسکے دونوں بازو ایک دوسرے کے قریب آجاتے شایدوہ ہمارے قصبے میں سب سے لمبی گلی تھی، اور حد سے زیادہ سنسان اس میں اکیلے چلتے ہوئے مجھے ہمیشہ یوں لگتا تھا، جسیے میں بندوق کی نالی میں چلا جا رہا ہوں، اور جوں ہی میں اسکے دہانے سے باہر نکلوں گا زور سے ٹھائیں ہوگا میں میں مرجاؤں گا، مگر شام کے وقت کوئی نہ کوئی راہگیر اس گلی میں ضرور مل جاتا اور میری جان بچ جاتی اور ان آنے جانے والوں میں کبھی کبھار ایک سفید مونچھوں والا لمبا سا آدمی ہوتا، جس کی شکل بارہ ماہ والے ملکھی سے بہت ملتی تھی، سرپر ململ کی بڑی سی پگڑی، ذرا سی خمیدہ کمر پر خمیدہ رنگ کا ڈھیلا اور لمبا کوٹ، کھدر کا تنگ پائجامہ اور پاؤں میں فلیٹ بوٹ، اکثر اسکے ساتھ میری ہی عمر کا ایک لڑکا بھی ہوتا، جس نے عین اس طرح کے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا اور وہ آدمی سر جھکائے اور اپنے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آھستہ آھستہ اس سے باتیں کیا کرتا، جب وہ میرے برابر آتے تو لڑکا میری طرف دیکھتا اور میں اسکی طرف دیکھتا اور پھر ایک ثانیہ ٹھٹھکے بغیر گردنوں کو ذرا ذرا موڑتے ہم اپنی اپنی راہ چلتے۔ایک دن میں اور میرا بھائی ٹھٹھیاں کے جوھڑ سے مچھلیاں پکڑنے کی ناکام کوشش کے بعد قصبہ کو واپس آرہے تھے، تو نہر پر یہ ہی آدمی اپنی پگڑی گود میں ڈالے بیٹھا تھا، اور اسکی سفید چیٹای میری مرغی کے پر کی طرح اس کے سر پر چپکی ہوئی تھی، اس کے قریب سے گزرتے ہوئے میرے بھائی نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے سلام کیا، داؤ جی سلام۔اور داؤ جی نے سر ہلاکر جواب دیا، ، جیتے رہو۔یہ جان کر میرا بھائی اس سے واقف ہے میں بے حد خوش ہوا، اور تھوڑی دیر بعد اپنی منمنی آواز میں چلایا داؤ جی۔جیتے رہو جیتے رہو، انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا اور میرے بھائی نے پٹاخ سے میری اور زناٹے کا ایک تھپڑ دیا۔شیخی خورے کتے، وہ چیخا میں نے تو سلام کیا تو تیری کیا ضرورت رہ گئی؟ہر بات میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے، کمینہ۔۔۔ بھلا کون ہے وہ؟ داؤ جی، میں نے منہ بسور کر کہا۔کون داؤ جی میرے بھائی نے تنک کر پوچھا۔وہ جو بیٹھے ہیں میں نے آنسو پی کر کہا۔بکواس نہ کرو، میرا بھائی چڑھ گیا اور آنکھوں نکال کر کہا ہر بات میں میری نقل کرتا ہے۔۔شیخی خوارا۔ میں نھیں کرتا اور خاموشی کے ساتھ راہ چلتا رہا، دراصل مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ داؤ جی سے تعارف ہوگیا، اس کا رنج نہ تھا، بھائی نے میرے تھپڑ کیوں مارا، وہ تو اس کی عادت تھی، بڑا تھا نا اس لئے ہر بات میں اپنی شیخی بگھارتا تھا۔داؤ جی سے علیک سلیک تو ہو گئی تھی مگر اس لئے میں کوشش کرکے گلی میں سے اس وقت گزرنے لگا جب وہ آجارہے ہوں، انھیں سلام کرکے بڑا مزہ آتا تھا اور جواب پاکر اس سے بھی زیادہ ، وہ جیتے رہو کچھ ایسی محبت سے کہتے کہ زندگی دو چند سی ہوجاتی، اور آدمی زمین میں سے ذرا اوپر کھڑا ہوا میں چلنے لگتا۔سلام کا یہ سلسلہ کوئی سال بھر یوں ہی چلتا رہا، اور اس اثنا میں مجھے اس قدر معلوم ہو سکا کہ داؤ جی گیر سارنگی کھڑکیوں والے مکان میں رہتے ہیں، اور چھوٹا لڑکا ان کا بیٹا ہے میں نے اپنے بھائی سے اسکے متعلق کچھ اور بھی پوچھنا چاہا، مگر وہ بڑا سخت آدمی تھا، اور میری چھوٹی چھوٹی سی بات پر چڑ جاتا تھا، میرے ہر سوال کے جواب میں اس کے پاس گھڑے گھڑے دو فقرے ہوتے تھے، تجھے کیا اور بکواس بند کرو۔ مگر خداکا شکر ہے میرے تجسس کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چلا، اسلامیہ پرائمری اسکول سے چوتھی پاس کرکے میں ایم بی ہائی اسکول کی پانچویں جماعت میں داخل ہوا، تو وہ ہی داؤ جی کا لڑکا میرا ہم جماعت نکلا، اس کی مدد سے اور اپنے بھائی کا احسان اٹھائے بغیر میں نے یہ جان لیا کہ داؤ جی کھتری تھے، اور قصبہ کی منصفی میں عرضی نویسی کا کام کرتے تھے، لڑکا جس کا نام امی چند تھا اور وہ جماعت میں سب سے ہوشیار تھا، اس کی پگڑی کلاس بھر میں سب سے بڑی تھی، اور چہرہ بلی کی طرح چھوٹا۔ چند لڑکے اسے میاؤں کہتے تھے، اور باقی نیولا کہہ کر پکارتے تھے، مگر میں داؤ جی کی وجہ سے اسکو اسکے اصل نام سے ہی پکارتا تھا، اسلئے وہ میرا دوست بن گیا، ہم نے ایک دوسرے کو نشانیاں دے کر پکا یار بننے کا وعدہ کرلیا تھا۔
گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے میں کوئی ایک ہفتہ ہوگا، جب میں امی چند کے ساتھ پہلی مرتبہ اسکے گھر گیا۔ وہ گرمیوں کی ایک جھلسانے والی دوپہر تھی، لیکن شیخ چلی کی کہانیاں حاصل کرنے کا شوق مجھ پر سوار تھا اور میں بھوک اور دھوپ دونوں سے بے پروا ہو کر اسکول سے سیدھا اس کے ساتھ چل دیا۔
امی چند کا گھر چھوٹا سا تھا، مگر بہت صاف ستھرا اور روشن پتیل کی کیلوں والے دروازے کے بعد ذرا سی ڈیوڑھی تھی، آگے مستطیل صحن، سامنے سرخ رنگ کا برآمدہ اور اسکے پیچھے اتنا ہی بڑا ایک کمرہ، صحن میں ایک طرف انار کا پیڑ عقیق کے چند پودے اور دھنیا کی ایک چھوٹی سی کیاری تھی، دوسری طرف چوڑی سیڑھیوں کا ایک زینہ جسکی محراب تلے مختصر سی رسوئی تھی، گیرونگی کھڑکیاں ڈیوڑھی سے ملحق بیٹھک میں کھلتی ہے، اور بیٹھک کا دروازہ نیلے رنگ کا تھا۔ جب ہم ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو امی چند نے چلا کر بے بے نمستے کہا اور مجھے صحن کے بیچوں بیچ چھوڑ کر بیٹھک میں گھس گیا، برآمدے میں بوریا بچھائے بے بے مشین چلا رہی تھی، اوراس کے پاس ہی ایک لڑکی بڑی سی قینچی لے کر کپڑے قطع کر رہی تھی۔ بے بے نے منہ ہی منہ میں کچھ جواب دیا، اور ویسے ہی مشین چلاتی رھیں، لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور گردن موڑکر کہا بے بے شاید ڈاکڑ صاحب کا لڑکا ہے، مشین رک گئی۔
ہاں ہاں بے بے نے مسکرا کہا، اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا میں اپنے جزدان کی رسی موڑتا اور ٹیڑھے ٹیڑھے پاؤں دھرتا برآمدے کے ستون کے ساتھ آگیا۔کیا نام ہے تمہارا؟بے بے نے چمکارا کر پوچھا، میں نے نگاہیں جھکا کر آہستہ سے اپنا نام بتا دیا۔آفتاب سے بہت شکل ملتی ہے، اس لڑکی نے قینچی زمین پر رکھ کر کہا۔ہے نا بے بے۔ کیوں نھیں بھائی جو ہے۔آفتاب کیا؟ اندر سے آواز آئی۔آفتاب کیا بیٹا؟آفتاب کا بھائی ہے داؤ جی، لڑکی نے رکتے ہوئے کہا۔امی چند کے ساتھ آیا ہے، اندر سے داؤ جی برآمد ہوئے، انھوں نے گھٹنوں تک اپنا پائجامہ چڑھا رکھا تھا، اور کرتا اتار رکھا تھا، مگر سر پر پگڑی بدستور تھی، پانی کی ہلکی سے بالٹی اٹھائے وہ برآمدے میں آگئے اور میری طرف غور سے دیکھا ہوئے بولے، ہاں شکل بہت ملتی ہے مگر میرا آفتاب بہت دبلا ہے اور یہ گولو مولو سا ہے۔ پھر بالٹی فرش پر رکھ کر انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پاس کاٹھ کا ایک اسٹول کھینچ کر اس پر بیٹھ گئے، زمین سے پاؤں اور اوپر اٹھا کر انہوں نے آھستہ سے انھیں جھاڑا اور پھر بالٹی میں ڈال دیا۔آفتاب کا خط آتا ہے؟ انھوں نے بالٹی سے پانی کے چلو بھربھر کر ٹانگوں پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔آتا ہے جی۔ میں نے ہولے کہا، پرسوں آیا تھا۔ کیا لکھتا ہے؟پتا نھیں جی ابا جی کو پتا ہے۔اچھا انہوں نے سر ہلا کر کہا، جاابا جی سے پوچھا کر نا۔جو پوچھتا نھیں اسے کسی بات کا علم نھیں ہوتا۔میں چپ رہا۔تھوڑی دیر انہوں نے ویسے ہی چلو ڈالتے ہوئے پوچھا کون سا سیپارہ پڑھ رہے ہو۔چوتھا میں نے وثوق سے جواب دیا۔کیا نام ہے چوتھے سیپارے کا؟ انہوں نے پوچھا۔جی پتا نھیں میری آواز پھر ڈوب گئی۔تلک الرسل انہوں نے پانی سے ہاتھ باہر نکال کر کہا پھر تھوڑی دیر میں وہ ہاتھ جھٹکتے اور ہوا میں لہراتے رہے، بے بے مشین چلاتی رہی وہ لڑکی نعمت خانے سے روٹی نکال کر برآمدے کی چوکی پر لگانے اور میں جزدان کی ڈوری کو کھولتا لپیٹتا رہا، امی چند ابھی تک بیٹھک کے اندر ہی تھا، اور میں ستون کے ساتھ ساتھ جھینپ کی عمیق گہرائیوں میں اترتا جارہا تھا، معا ًداؤ جی نے نگاہیں میری طرف پھیر کر کہا۔سورہ فاتحہ سناؤ۔مجھے نھیں آتی، میں نے شرمندہ ہوکر کہا۔انھوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا الحمد اللہ بھی نھیں جانتے؟ الحمد اللہ تو جانتا ہوں جی، میں نے جلدی میں کہا۔وہ مسکرائے اور گویا اپنے آپ سے کہنے لگے ایک ہی بات ہے ایک ہی بات پھر انہوں نے سر کے اشارے سے کہا، سناؤ، جب میں سنانے لگا تو انہوں نے اپنا پائنچا گھٹنوں سے نیچے کر لیا، اور پگڑی کا شملہ چوڑا کرکے کندہوں پر ڈال دیا، اور جب میں نے ولا الضالین کہا تو میرے ساتھ انہوں نے بھی آمین کہا، مجھے خیال ہوا کہ وہ بھی اٹھ کر مجھے انعام دیں گے، کیونکہ پہلی مرتبہ جب میں نے اپنے تایا جی کو الحمد سنائی تھی، تو انہوں نے بھی ایسے آمین کہا تھا۔اور ساتھ ہی ایک روپیہ مجھے انعام دیا، مگر داؤ جی اسی طرح بیٹھے رہے بلکہ اور بھی پتھر ہوگئے، اتنے میں امی چندایک کتاب تلاش کرکے لے آیا، اور جب میں چلنے لگا تو میں نے عادت کے خلاف آہستہ سے کہا، داؤ جی سلام، اور انہوں نے ویسے ہی ڈوبے ڈوبے ہولے سے جواب دیا جیتے رہو۔بے بے نے مشین روک کر کہا، کبھی کبھی امی چند کے ساتھ کھیلنے آجایا کرو۔ہاں آجایا کر، داؤ جی نے چونک کر کہا، آفتاب بھی آیا کرتا تھا، پھر انہوں نے بالی پر جھکتے ہوئے کہا، ہمارا آفتاب تو بہت دور ہوگیا اور فارسی کا شعر پڑھنے لگے۔یہ داؤ جی سے میری باقاعدہ پہلی ملاقات تھی، اور اس ملاقات میں یہ نتائج اخذ کرکے چلا کہ داؤ جی بڑے کنجوس ہیں حد سے زیادہ چپ سے ہیں اور کچھ بہرے ہیں، اسی دن شام کو میں نے اماں کو بتا دیا کہ میں داؤ جی کے گھر گیاتھا، اور وہ آفتاب بھائی کو بہت یاد کر رہے تھے۔میں ابا جی سے بھلا اسکا ذکر کیوں کرتا، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ میں داؤ جی کے یہاں جاتا رہا اور خوب خوب ان سے معتبری کی باتیں کرتا، وہ چٹائی بچھائے کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے میں آھستہ سے ان کے پیچھے جاکر کھڑا ہوجاتا اور وہ کتاب بند کرکے کہتے گولو آگیا، پھر میری طرف مڑتے اور ہنس کرکہتے کوئی گپ سنا۔اور میں اپنی بساط اور اپنی سمجھ کے مطابق ڈھونڈ ڈھانڈ کے کوئی بات سناتا اور وہ خوب ہنستے، بس یوں ہی میرے لئے ہنستے حالانکہ مجھے محسوس ہوتا کہ وہ ایسی دل چسپ باتیں بھی نھیں ہوتی تھیں، پھر وہ اپنے رجسٹر سے کوئی کاغذ نکال کر کہتے لے ایک سوال نکال، اس بات سے میری جان جاتی تھی، لیکن ان کا وعدہ بڑا رسیلا ہوتا تھا کہ ایک سوال اور پندرہ منٹ باتیں، اسکے بعد ایک اور سوال اور پھر پندرہ منٹ باتیں، چنانچہ میں مان جاتا اور کاغذ لے کر بیٹھ جاتا لیکن ان کے خود ساختہ سوال کچھ ایسے الجھے ہوئے ہوتے تھے، کہ اگلی باتوں ، اگلے سوالوں کا وقت بھی نکل جاتا، اگر خوش قسمتی سے سوال جلد حل ہوجاتا تو وہ چٹائی کوہاتھ لگا کر پوچھتے یہ کیاہے، چٹائی میں منہ پھاڑ کر جواب دیتا، لوجی ہمیں کوئی فارسی پڑھائی جاتی ہے۔۔ اس پر وہ چمکار کر کہتے میں جو پڑھتا ہوں، گولو۔۔میں جو سکھاتا ہوں،۔۔سنو فارسی میں بوریا عربی میں حصیر ۔میں شرارت سے ہاتھ جوڑکر کہتا، بخشو جی بخشو فارسی بھی اور عربی بھی میں نھیں پڑھتا جی معاف کرو، مگروہ سنی ان سنی کر دیتے ایک ایک کرکے کہے جاتے، بوریا، عربی حصیر اور پھر چاہے کوئی اپنے کانوں میں سیسہ بھر لیتا امی چند سارے دن بیٹھک میں بیٹھا لکھتا پڑھتا رہتا۔داؤ جی اس کے اوقات میں مخل نہ ہوتے تھے، لیکن ان کے وار امی چند پر بھی برابر ہوئے تھے، وہ اپنی نشست سے اٹھ گھڑے سے پانی پینے آیا، داؤ جی نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر پوچھا، بیٹا ڈو کاناؤن کیا ہے؟اس نے گلاس ساتھ منہ لگائے لگائے کہا ڈیڈ اور پھر گلاس گھڑونچی تلے پھینک کر اپنے کمرے میں چلا گیا، داؤ جی پھر پڑھنے میں مصرف ہوگئے گھر میں ان کو اپنی بیٹی سے بڑا پیار تھا، ہم سب اسے بی بی کہہ کر پکارتے تھے، اکیلے داؤ جی نے اسکا نام قری رکھا ہوا تھا، اکثر بیٹھے بیٹھے ہانک لگا کر کہتے، قری بیٹی قینچی تجھ سے کب چھوٹے گی؟ اور وہ اس کے جواب میں مسکرا کر خاموش ہوجاتی، بے بے کو اس نام سے بڑی چڑ تھی، وہ چیخ کر جواب دیتی تم نے اس کا نام قری رکھ کر اس کے بھاگ میں کرتے سینا لکھوادیا ہے، منہ اچھا نہ ہو تو شبد تو اچھے نکالنے چاہئیں اور داؤ جی لمبی سانس لے کر کہتے، جاہل اسکا مطلب کیا جانیں؟ اس پر بے بے کا غصہ چمک اٹھتا، اور اس کے منہ میں جو کچھ آتا کہتی چلی جاتی پہلے کوسنے ، پھر بد دعائیں اور آخر میں گالیوں پر اتر آتی، بی بی روکتی تو داؤ جی کہتے ہوائیں چلنے کو ہوتی ہیں بیٹا اور گالیاں برسنے کو، تم انھیں روکو مت، انھیں ٹوکو مت، پھر وہ اپنی کتابیں سمیٹتے اور اپنا محبوب حصیر اٹھا کر چپکے سے سیڑھیاں چڑھ جاتے ہیں۔
نویں جماعت کے شروع ہی میں مجھے ایک بری عادت پڑ گئی، اور ا س بری عادت نے عجیب گل کھلائے، حکیم احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ایک ہی حکیم تھے، علاج معالجہ سے تو انھیں کچھ ایسی دل چسپی نہ تھی، لیکن باتیں بڑی مزیدار کرتے تھے، اولیاؤں کے تذکرے، جنوں کی کہانیاں، اور حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کی گھریلو زندگی کی داستانیں ان کے تیر بہدف ٹوٹکے تھے، انکی تنگ و تاریک مطب میں معجون کے ڈبوں شربت کی دس پندرہ بوتلوں اور دو آتشی شیشیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا، دواؤں کے علاوہ وہ اپنی طلسماتی تقریر اور حضرت سلیمان کے خاص صدری تعویذوں سے مریض کا علاج کرتے تھے، انھیں باتوں کیلئے دور دراز گاؤں کے مریض ان کے پاس کھنچے چلے آتے تھے، اور فیض یاب ہو کر جاتے تھے، ہفتہ دو ہفتہ کی صحبت میں میرا ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہوگیا، میں ہسپتال سے ان کیلئے خالی بوتلیں اور شیشیاں چراکے لاتا، اور اس کے بدلے وہ مجھے داستان امیر حمزہ کی جلدیں پڑھنے کیلئے دیا کرتے۔یہ کتابیں کچھ ایسی دل چسپ تھیں کہ میں رات رات بھر اپنے بستر میں دبک کر انھیں پڑھا کرتا اور صبح دیر تک سویا رہتا۔ اماں میرے اس رویے سے سخت نالاں تھیں، ابا جی کو میری صحت برباد ہونے کا خطرہ لاحق تھا، لیکن میں نے ان کو بتا دیا تھا کہ اب کہ جان چلی جائے دسویں میں وظیفہ ضرور حاصل کروں گا۔رات طلسم ہوش ربا کے ایوانوں میں بسر ہوئی اور دن کلاس میں بنچ پر کھڑے ہو کر سہ ماہی امتحان میں فیل ہوتے ہوتے بچا، ششماہی میں بیمار پڑگیا، اور سالانہ امتحان کے موقعہ پر حکیم جی کی مدد سے ماسٹروں سے مل ملا کر پاس ہوگیا۔ دسویں میں صندلی نامہ، فسانہ آزاد، اور الف لیلہ ساتھ ساتھ چلتے تھے، فسانہ آزاد اور صندلی نامہ گھر پر تھے تھے، لیکن الف لیلہ اسکول کی شیدک میں بند تھی، آخری بنچ پر جغرافیہ کی کتاب تلے سندباد جہازی ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنیا کی سیر کرتا۔بائیس مئی کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے یونیورسٹی سے نتیجہ کی کتاب ایم بی ہائی اسکول پہنچی۔ امی چند نہ صرف اسکول میں بلکہ ضلع بھر اول آیا تھا، چھ لڑکے فیل تھے، اور بائیس پاس۔ حکیم جی کا جادو یونیورسٹی پر نہ چل سکا اور پنجاب کی جابر دانش گاہ نے میرا نام بھی ان چھ لڑکوں میں ڈال دیا۔ اس شام قبلہ گاہی نے بید سے میری پٹائی کی اور گھر سے باہر نکال دیا۔ میں ہسپتال سے رہٹ کی گدی پر آبیٹھا اور رات گئے تک سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا چاہئے، اب کدھر جانا چاہئیے۔ خدا کا ملک اتنا تنگ نھیں تھا اور میں عمر و عیار کے ہتھکنڈوں اور سند باد جہازی کے تمام طریقوں سے واقف تھا مگر پھر بھی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی، کوئی دو تین گھنٹے اسی طرح ساکت وجا مداس گدی پر بیٹھا زیست کرنے کی راہیں سوچتا رہا۔اتنے میں اماں سفید چادر اوڑھے مجھے ڈھونڈتی ادھرآگئیں اور ابا جی سے معافی لے دینے کا وعدہ کرکے مجھے گھر پر لے گئیں مجھے معافی وافی سے کوئی دلچسپی نھیں تھی۔ مجھے افسوس تو بس ایک رات اور انکے گھر میں گزارنی تھی اور صبح اپنے سفر پر روانہ ہونا تھا، چنانچہ میں آرام سے انکے ساتھ جاکر حسب معمول اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ اگلے دن میرے فیل ہونے والے ساتھیوں میں سے خوشیا کوڈو اور ویسو مسجد کے پچھواڑے ٹال کے پاس بیٹھے مل گئے، وہ لاہور بزنس کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے ۔ویسو نے مجھے بتایا کہ لاہور میں بہت بزنس ہے کیونکہ اسکے بھایا جی اکثر اپنے دوست فتح محمد چند کے ٹھیکوں کا ذکر کیا کرتے تھے، جس نے سال کے اندر اندر دو کاریں خرید لی۔ میں نے ان سے بزنس کی نوعیت کی بارے میں پوچھا تو ویسو نے کہا لاہور میں ہر طرح کا بزنس مل جاتا ہے، بس ایک دفتر ہونا چاہئیے او اس کے سامنے بڑا سائن بورڈ دیکھ کر لوگ خود ہی بزنس دے جاتے ہیں۔میں نے ایک مرتبہ پھر وضاحت چاہی تو کو ڈو چمک کو بولا یارو ویسوسب جانتا ہے، یہ بتا نے کو تیار ہے یا نھیں؟پھر اس نے پلٹ کر ویسو سے پوچھا، انارکلی میں دفتر بنائیں گے؟ویسو نے ذرا سوچ کر کہا انارکلی میں یا شاہ عالمی کے باہر دونوں ہی جگہیں ایک ہی ہیں۔ میں نے کہا انار کلی زیادہ مناسب ہے کیونکہ وہ ہی زیادہ مشہور جگہ ہے اوراخباروں میں جتنے بھی اشتہار نکلتے ہیں ان میں انار کلی لاہور لکھا جاتا ہے۔چناچہ یہ طے پایا کہ اگلے دن دو بجے کی گاڑی سے ہم لاہور روانہ ہوجائیں گے، گھر پہنچ کر میں سفر کی تیاری کرنے لگا بوٹ پالش کر رہا تھا کہ نوکر نے آکر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا، چلو جی ڈاکڑ صاحب بلاتے ہیں۔کہاں ہیں ؟ میں نے برش زمین پر رکھ دیا اور کھڑا ہو گیا۔ہسپتال میں وہ بدستور مسکرا رہا تھا، کیونکہ میری پٹائی کے روز حاضرین میں وہ بھی شامل تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھا پھر آھستہ سے جالی والا دروازہ کھول کر ابا جی کے کمرے میں داخل ہوا، تو وہاں ان کے علاوہ داؤ جی بھی بیٹھے تھے۔ میں نے سہمے سہمے داؤ جی کو سلام کیا اور اس کے جواب میں بڑی دیر کے بعد جیتے رہو کی مانوس دعا سنی۔انکو پہچانتے ہو؟ ابا جی نے سختی سے پوچھا۔بے شک ،میں ایک مہذب سیلز مین کی طرح بولا۔ بے شک کے بچے، حرام زادے، میں تیر ے سب۔۔نہ نہ ڈاکٹر صاحب داؤ جی نے ہاتھ اوپر اٹھا کرکہا، یہ تو بہت ہی اچھا بچہ ہے اسکو تو۔۔اور ڈاکٹر صاحب نے بات کاٹ کر تلخی سے کہا، آپ نھیں جانتے منشی جی، اس کمینے نے میری عزت خاک میں ملا دی۔آپ فکر نہ کریں داؤ جی نے سرجھکائے کہا،یہ ہمارے آفتاب سے بھی ذہین ہے اور ایک دن۔۔ اب ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگیا اور انھوں نے میز پر ہاتھ مار کر کہا کیسی بات کرتے ہیں منشی جی، یہ آفتاب کے جوتے کی برابری بھی نھیں کرسکتا۔کر لے گا، کر لے گا، ڈاکٹر صاحب، داؤ جی نے اثبات میں سر ہلاتے ہو ئے کہا۔۔ آپ خاطر جمع رکھیں۔پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے میں سیر کو چلتا ہوں، تم بھی میرے ساتھ آؤ راستے میں باتیں کریں گے۔اباجی اسی طرح کرسی پر بیٹھے غصے کے عالم میں اپنا رجسٹر الٹ پلٹ کرتے رہے اور بڑ بڑاتے رہے، میں نے آھستہ آھستہ چل کر جالی والا دروازہ کھولا، تو داؤ جی نے پیچھے مڑ کر کہا ، ڈاکڑ صاحب بھول نہ جائیے گا ابھی بھجوادیجئیے گا۔
داؤ جی مجھے ادھر ادھر گھماتے اور مختلف درختوں کے نام فارسی میں بتاتے ، نہر کے اسی پل پر لے گئے، جہاں میرا ان سے پہلا تعارف ہوا تھا، اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ کر انہوں نے پگڑی اتار کر گود میں ڈال دی، سر پر ہاتھ پھیرا مجھے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر انہوں نے آنکھیں بند کرلیں، اور کہا آج سے میں تمھیں پڑھاؤں گا، اور اگر جماعت میں اول نہ لاسکا تو فرسٹ ڈویژن ضرور دلوادوں گا۔ میرے ہر ارادے میں خدا کی مدد شامل ہوتی ہے، اور اس ہستی نے مجھے اپنی رحمت سے کبھی مایوس نھیں کیا۔۔مجھ سے پڑھائی نہ ہوگی۔ میں نے گستاخی سے بات کاٹ کر کہا۔تو اور کیا ہوگا، گولو؟ انھوں نے مسکرا کر پوچھا۔میں نے کہا میں بزنس کروں گا، روپیہ کماؤں گا اور اپنی کار لے کر یہاں آوں گا پھر دیکھنا۔اب کے داؤ جی نے میری بات کاٹی اور بڑی محبت سے کہا، خدا ایک چھوڑ تجھے دس کاریں دے، لیکن ایک ان پڑھ کی کار میں نہ بیٹھوں گا نہ ڈاکڑ صاحب۔میں نے جل کر کہا مجھے کسی کی پروا نھیں ڈاکڑ صاحب اپنے گھر راضی میں یہاں خوش۔انھوں نے حیران ہوکر پوچھا میری بھی پروانھیں؟ میں کچھ کہنے والا تھا کہ وہ دکھی سے ہوگئے، اور بار بار پوچھنے لگے، میری بھی نھیں؟ او گولو میری بھی نھیں؟مجھے ان کے لہجے پر ترس آنے لگا اور میں نے آھستہ سے کہا، آپ کی تو ہے، مگر۔۔ انھوں نے میری بات نہ سنی اورکہنے لگے، اگر اپنے حضرت کے سامنے میرے منہ سے ایسی بات نکل جاتی؟ اگر میں یہ کفر کا کلمہ کہہ جاتا۔ تو۔۔تو۔۔انھوں نے فوراً اپنی پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لی، اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگے میں حضور کے دربار کا ایک ادنی سا کتا ہوں، میں حضرت مولانا کی خاک سے بدتر بندہ ہو کر آقا سے یہ کہتا ، لعنت کا طوق نہ پہنتا؟خاندان ابوجہل کا خانوادہ اور آقا ایک نظر کر، حضرت کا ایک اشارہ حضور نے چنتو کو منشی رام بنادیا، لوگ کہتے ہیں، میں کہتا ہوں، رحمتہ اللہ علیہ کا کشف بردار۔۔۔لوگ سمجھتے ہیں داؤ جی کبھی ہاتھ جوڑتے کبھی سر جھکاتے کبھی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو لگاتے، اور بیچ بیچ میں فارسی کے شعر پڑھتے جاتے، میں کچھ پریشان سا ان کا زانو چھو کر آھستہ آھستہ کہہ رہا تھا، داؤ جی داؤ جی اور داؤ جی میرے آقا میرے مولا، میرے مرشد، کا وظیفہ کئے جارہے تھے، جب جذب کایہ عالم دور ہوا تو نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے، کیا اچھاموسم ہے، دن بھر دھوپ پڑتی ہے تو خوشگوار شاموں کا نزول ہوتا ہے، پھر وہ پل کی دیوار سے اٹھے اور بولے چلو اب چلیں بازار تھوڑا سودا خرید نا ہے۔میں جیسا سرکش و بد مزاج بنکر ان کے ساتھ آیا تھا، اس سے کہیں زیادہ منفعل اور خجل ان کے ساتھ لوٹا، گھمسے یعنی دیسو کے باپ کی دوکان سے انھوں نے گھریلو ضروریات کی چیزیں اور لفافے گود میں اٹھا کر چل دئیے، میں بار بار ان سے لفافے لینے کی کوشش کرتا، مگر ہمت نہ پڑتی، ایک عجیب سی شرم ایک انوکھی سی ہچکچاہٹ مانع تھی، اور اسی تامل اور جھجک میں ڈوبتا ابھرتا میں ان کے گھر پہنچ گیا۔
وہاں پہنچ کر یہ بھید کھلا کہ اب میں انہی کے ہاں سویا کروں گا، اور وہیں پڑھا کروں گا، کیونکہ میرا بسترا مجھ سے بھی پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا، اور اس کے پاس ہی ہمارے یہاں سے بھیجی ہوئی ایک ہری کبین لالٹین بھی رکھی تھی۔بزنس مین بننا اور پاں پاں کرتی پیکار ڈ اڑائے پھر نامیرے مقدر میں نہ تھا، گو میرے ساتھیوں کی روانگی کے تیسرے ہی روز بعد ان کے والدین بھی انھیں لاہور سے پکڑ لائے، لیکن اگر میں ان کیساتھ جاتا تو شاید اس وقت انار کلی میں ہمارا دفتر پتہ نھیں ترقی کے کون سے شان دار سال میں داخل ہوچکا ہوتا۔
داؤ جی نے میری زندگی اجیرن کر دی ہے، مجھے تباہ کر دیا، مجھ پر جینا حرام کر دیا، سارا دن اسکول کی بکواس میں گزرتا ہے اور رات گرمیوں کی مختصر رات انکے سولات کا جواب دینے میں۔ کوٹھے پر ان کی کھاٹ میرے بستر کے ساتھ لگی تھی، اور وہ مونگ، رسول اور مرالہ کی نہروں کی بابت پوچھ رہے تھے۔ میں نے بالکل ٹھیک بتا دیا۔ وہ اس سوال کو دہرا رہے ہیں، میں نے پھر بتا دیا اور انہوں نے پھر انہی نہروں کوآگے لا کھڑا کردیا ہے، میں جل بھن کراور جھڑک کر کہتا، مجھے نھیں پتا، میں نھیں بتاتا، تو وہ خاموش ہوجاتے اور دم سادھ لیتے میں آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشس کرتا تو شرمندگی کنکر بن کر پتلیوں میں اتر جاتی۔میں آہستہ سے کہتا داؤ جی۔ ہوں ایک گھمبیر سی آواز آئی۔داؤ جی کچھ اور پوچھو۔داؤ جی نے کہا، بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے چلے، اس کی ترکیب نحوی کرو۔میں نے سعادت مندی کے ساتھ جواب دیا، جی یہ تو بہت لمبا فقرہ ہے، صبح لکھ کر بتا دوں گا۔انھوں نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہوئے کہا، میرا گولو بہت اچھا ہے۔ میں نے ذرا سوچ کر کہنا شروع کیا، بہت اچھا صفت ہے حرف ربط ملکر نیا مسند۔۔اور داؤ جی اٹھکر چار پائی پر بیٹھ گئے، ہاتھ اٹھاکر بولے جان پدر تجھے پہلے بھی کہا ہے مسند الیہ پہلے بنایا کر۔میں نے ترکیب نحوی سے جان چھڑانے کیلئے پوچھا ، آپ مجھے جان پدر کیوں کہتے ہیں؟ جان داؤ کیوں نھیں کہتے؟شاباش وہ خوش ہو کر کہتے، ایسی باتیں پوچھنے کی ہوتی ہیں، جان لفظ فارسی کا ہے، اور داؤ بھاشا کا ، انکے درمیان فاسی اضافت نھیں لگ سکتی ، جولوگ دن بہ دن لکھتے ہیں یا بولتے ہیں سخت غلطی کرتے ہیں روز بہ روز کہو یا دن پر دن اسی طرح سے۔اور جب میں سوچتا کہ یہ تو ترکیب نحوی سے بھی زیادہ خطرناک معاملے میں الجھ گیا ہوں تو جمائی لے کر پیارسر سے کہتا ہوں کہ داؤ جی اب تو نیند آرھی ہے۔اور وہ ترکیب نحوی؟وہ جھٹ سے پوچھتے۔اسکے بعد میں چاہے لاکھ بہانے کرتا، ادھر ادھر کی ہزار باتیں کرتا، مگر وہ اپنی کھاٹ پر ایسے بیٹھے رہتے بلکہ اگر ذرا سی دیر ہو جاتی تو کرسی پر رکھی ھوئی پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لیتے، چناچہ کچھ بھی ہوتا ان کے ہر سوال کا خاطر خواہ جواب دینا پڑتا۔
امی چند کالج چلاگیا، تو اسکی بیٹھک مجھے مل گئی اور داؤ جی کے دل میں اسکی محبت پربھی قبضہ کر لیا، اب مجھے داؤ جی بہت اچھے لگتے تھے، لیکن ان کی باتیں جو اس وقت مجھے بری لگتی تھیں، وہ اب بھی بری لگتی ہیں۔ بلکہ اب پہلے سے بھی کس قدر شاید اس لئے کہ میں نفسیات کا ایک ہونہار طالب علم ہوں۔اور داؤ جی پرانے ملائی مکتب کے پروردہ تھے، سب سے بری عادت ان کی اٹھتے بیٹھتے سوال پوچھنے کی تھی، اور دوسری کھیل کود سے منع کرنے کی تھی۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ آدمی پڑھتا رہے پڑھتا رہے، اور جب اس مدقوق کی موت کا دن قریب آئے تو کتابوں کے ڈھیر پر جان دے دے۔ صحت جسمانی قائم رکھنے کیلئے ان کے پاس صرف ایک ہی نسخہ تھا، لمبی سیر اور وہ بھی صبح کی، تقریبا سورج نکلنے سے دو گھنٹے پیشتر وہ مجھے بیٹھک میں جگانے آتے تھے، اور میرا کندھا ہلا کر کہتے، اٹھ گولو موٹا ہوگیا ہے بیٹا، دنیا جہان کے والدین صبح جگانے کیلئے کہتے ہیں، اٹھو بیٹا صبح ہوگئی ہے، یا سورج نکل آیا ہے، مگر وہ موٹا ہوگیا، کہہ کر میری تذلیل کیا کرتے تھے۔ میں منمناتا تو چمکار کر کہتے بھدا ہوجائیگا بیٹا گھوڑے پر ضلع کا دورہ کیسے کرے گا، اور میں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑ کر کہتا داؤ جی خدا کیلئے مجھے صبح نہ جگاؤ چاہے قتل کر دو، جان سے مار ڈالو۔یہ فقرہ ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی، وہ فوراً میرے سر پر لحاف ڈال دیتے اور باہر نکل جاتے۔ بے بے کو داؤ جی سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور داؤ جی ان سے بہت ڈرتے تھے۔ وہ سارا دن محلے والیوں کے کپڑے سیتیں اور داؤ جی کو کوسنے دئیے جاتے۔ ان کی اس زبان درازی پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا مگر دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہ ہوسکتا تھا۔ کبھی کبھار جب وہ ناگفتگی گالیوں پر اتر آتیں تو داؤ جی میری بیٹھک میں آجاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے تھوڑی دیر بعد کہتے غیبت کرنا بڑا گناہ ہے۔ لیکن میرا خدا مجھے معاف کردے تیری بے بے بھٹیارن ہے اور اسکی سرائے میں میری قرۃالعین اور تھوڑا تو بھی، ہم تینوں بڑے عاجز مسافر ہیں۔اور واقعی بے بے بھٹیارن سی تھی۔ اس کا رنگ سخت کالا تھا دانت بیحد سفید۔ماتھا محراب دار آنکھیں چنیاں سی، چلتی تو ایسی گربہ پائی کے ساتھ جیسے خدا مجھے معاف کرے کٹنی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے۔ بچاری بی بی کو ایسی ہی بری باتیں کہتی کہ وہ دونوں دن رو رو کر کر ہلکان ہوا کرتی ۔ ایک امی چند کے ساتھ اسکی بنتی تھی، شاید وہ اس وجہ سے کہ دونوں ہم شکل تھے، یا شاید اس وجہ سے کہ اس کو بی بی کی طرح اپنے داؤ جی سے پیار نہ تھا۔ یوں تو بی بی بے چاری بہت اچھی تھی، مگر اس سے میر ی بھی نہ بنتی تھی، میں کوٹھے پر بیٹھا سوال نکال رہا ہوں، داؤ جی نیچے بیٹھے ہیں اور بی بی اوپر برساتی سے ایندھن لینے آئی تو ذرا رک کر مجھے دیکھا پھر منڈیر سے جھانک کر بولی داؤ جی پڑھ نھیں رہا ، تنکوں سے چارپائیاں بنا رہا ہے۔میں غصیل بچے کی طرح منہ چڑاکر کہتا، تجھے کیا نھیں پڑھتا تو کیوں بڑ بڑ کرتی ہے، آئی بڑی تھانے دارنی۔اور داؤ جی بھی نیچے سے ہانک لگا کر کہتے ہیں، نہ گولو بہنوں سے نھیں جھگڑا کرتے اور میں زور سے چلایا پڑھ رہا ہوں جی جھوٹ بولتی ہے۔داؤ جی آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آجاتے اور کاپیوں کے نیچے نیم پوشیدہ چار پائی دیکھ کر کہتے، قری بیٹا تو اس کو نہ چڑایا کر یہ جن بڑی مشکل سے قابو کیا ہے، اگر ایک بار پھر بگڑ گیا تو مشکل سے سنبھلے گا۔بی بی کہتی کاپی اٹھا کر دیکھ لو داؤ جی اسکے نیچے ہے وہ چار پائی جس سے کھیل رہا تھا۔میں قہر آلودنگاہوں سے بی بی کو دیکھتا ، وہ لکڑیاں اٹھا کر نیچے اتر جاتی۔ پھر داؤ جی سمجھاتے کہ بی بی یہ سب کچھ تیرے فائدے کیلئے کہتی ہے ورنہ اسے کیا پڑی ہے، کہ مجھے بتاتی پھرے۔ تو فیل ہو یا پاس اس کی بلا سے۔ اگر وہ تیری بھلائی چاہتی ہے تیری بہتری چاہتی ہے۔ اور داؤ جی کی یہ بات ہر گز سمجھ میں نہ آتی تھی۔ میری شکایتیں کرنے والی میری بھلائی کیوں کر چاہ سکتی ہے؟
ان دنوں معمول یہ تھا کہ میں صبح دس بجے سے پہلے داؤ جی کے ہاں سے چل دیتا گھر جا کر ناشتہ کرتا پھر اسکول پہنچ جاتا آدھی چھٹی پر میرا کھانا اسکول بھیج دیا جاتا اور شام کو اسکول بند ہونے پر گھر آکے اپنی لالٹین تیل سے بھرتا اور داؤ جی کے یہاں آجاتا، پھر رات کا کھانا بھی مجھے داؤ جی کے گھر پر ہی بھجوادیا جاتا۔ جن ایام میں منصفی بند ہوتی، داؤ جی اسکول کے گراؤنڈ میں آکر بیٹھ جاتے اور میرا انتظار کرتے وہاں سے گھر تک سوالات کی بوچھاڑ رہتی ۔اسکول میں جو کچھ پڑھایا گیا ہوتا اس کی تفصیل پوچھتے پھر مجھے گھر تک چھوڑ کر خود سیر کو چلے جاتے ۔ہمارے قصبے میں منصفی کا کام مہینے میں دس دن ہوتا تھا، اور بیس دن منصف، صاحب بہادر کی کچہری میں رہتے تھے۔ یہ دس دن داؤ جی باقاعدہ کچہری میں گزارتے تھے ۔ایک آدھ عرضی آجاتی تو دو چار روپیہ کمالیتے ورنہ فارغ اوقات میں وہاں بھی مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھتے۔ بے بے کا کام اچھا تھا، اس کی کتر بیونت اور محلے والیوں سے جوڑ توڑ اچھے مالی نتائج پیدا کرتی تھی، چونکہ پچھلے چند سالوں سے گھر کا بیشتر خرچ اس کی سلائی سے چل رہا تھا، اسلئے وہ داؤ جی پر اور بھی حاوی ہوگئی تھی۔ایک دن خلاف معمول داؤ جی کو لینے میں منصفی چلا گیا اس وقت کچہری بند ہوگئی تھی اور داؤ جی نابنائی کے چھپر تلے ایک بینچ پر بیٹھے گڑ کی چائے پی رہے تھے میں نے ہولے سے جا کر انکا بستر اٹھالیا، اور ان کے گلے میں بانھیں ڈال کر کہا چلئے آج میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر چائے کے بڑے بڑے گھونٹ بھرے، ایک آنہ جیب سے نکال کر نانبائی کی حوالے کیا اور چپ چاپ میرے ساتھ چل دئیے۔میں نے شرات سے ناچ کر کہا گھر چلیے بے بے کو بتاؤں گا، آپ چوری چوری یہاں چائے پیتے ہیں۔داؤ جی جیسے شرمندگی ٹالنے کو مسکرائے اور بولے اسکی چائے بہت اچھی ہوتی ہے اور گڑ کی چائے سے تھکن بھی دور ہوجاتی ہے، پھر یہ کہ ایک آنہ میں گلاس بھرکر یتا ہے۔ تم اپنی بے بے سے نہ کہنا خواہ مخواہ ہنگامہ کھڑا کر دیگی۔ پھر انہوں نے خوف زدہ ہو کر، کچھ مایوس ہو کر کہا اسکی تو فطرت ہی ایسی ہے۔ اس دن مجھے داؤ جی پر بڑا رحم آیا۔ میرا جی ان کیلئے بہت کچھ کرنیکوچاہنے لگا۔ مگر میں نے بے بے سے نہ کہنے کا وعدہ کرکے ان کیلئے بہت کچھ کیا۔ جب اس واقعہ کا ذکر میں نے اماں سے کیا تو وہ کبھی میرے ہاتھ اور کبھی نوکر کی معرفت داو جی کے ہاں دودھ پھل اور چینی وغیرہ بھیجنے لگیں، مگر اس رسد سے داؤ جی کو کبھی بھی کچھ نصیب نہ ہوا۔ہاں بے بے کی نگاہوں میں میری قدر بڑھ گئی تھی، اس نے کسی حد تک مجھ سے رعایتی برتاؤ کرنا شروع کردیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک صبح میں دودھ سے بھرا ملوٹ ان کے یہاں لے کر آیا تھا، اور بے بے گھر پر نہ تھی، وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ بابا ساون کے جوہڑ میں اشنان کرنے گئیں تھی، اور گھر میں صرف داؤ جی اور بی بی تھی۔ دودھ دیکھکر داؤ جی نے کہا چلو آج تینوں چائے پئیں گے۔ میں دوکان سے گڑ لے آتا ہوں، تم پانی چولھے پر رکھ دو۔ بی بی نے جلدی جلدی چولھاسلگایا، میں پتیلی میں پانی ڈال کر لایا اور پھر ہم دونوں وہیں چوکے پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، داؤ جی گڑ لے کر آگئے تو انہوں نے کہا تم دونوں اپنے اپنے کام پر بیٹھو چائے میں بناتا ہوں، چنانچہ بی بی مشین چلانے لگی اور میں ڈائرکٹ کی مشقیں لکھنے لگا۔ داؤ جی چولھا بھی جھونکتے جاتے تھے اور عادت کے مطابق مجھے بھی اونچے اونچے بتاتے جاتے تھے ۔گیلیلیو نے کہا زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، گلیلیو نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، نہ کہ یہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔پانی ابل رھا تھا، داؤ جی خوش ھو رہے تھے اسی خوشی میں جھوم جھوم کر وہ اپنا تازہ بنایا ہوا گیت گارہے تھے۔ او گولو ،او گولو، گیلیو کی بات مت بھولنا انھوں نے چائے کی پتی کھولتے ہوئے پانی میں دی، برتن ابھی تک چولھے پر ہی تھا اور داؤ جی نے ایک چھوٹے سے بچے کی طرح پانی کے گل بل گل بل کے ساتھ گولو گلیلو گولو گلیلو کئے جارہے تھے ۔میں ہنس رہا تھا، اور اپنا کام کر رہا تھا، بی بی مسکرا رہی تھی، اور مشین چلا رھی تھی، ہم تینوں اپنے چھوٹے سے گھر میں بڑے ہی خوش تھے، گویا سارے محلے بلکہ سارے قصبہ کی خوشیاں بڑے بڑے رنگین پر والی پریوں کی طرح ہمارے گھر میں اتر آئی ہوں۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور بے بے اندر داخل ہوئی، داؤ جی نے دروازہ کھلنے کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کا رنگ زرد ہوگیا، چمکتی ہوئی پتیلی سے گرم گرم بھاپ نکل رہی تھی، اسکے اندر چائے کے چھوٹے چھوٹے چھاوے ایک دوسرے کے پیچھے شور مچاتے پھرتے تھے، اور ممنوعہ کھیل رچانے والا بڈھا موقع پر پکڑا گیا۔ بے بے نے آگے بڑھ کر چولھے کی طرف دیکھا اور داؤ جی نے چوکے سے اٹھتے ہوئے معذرت بھرے لہجے میں کہا چائے ہے۔بے بے نے ایک دو ہتڑ داؤ جی کی کمر میں مارا اور کہا بڈھے بردھا تجھے لاج نھیں آئی، تجھ پر بہار پھرے، تجھے یم سمیٹے یہ تیرے چائے پینے کے دن ہیں، میں بیوہ گھر میں نہ تھی تو تجھے کسی کا ڈر نہ تھا۔ تیرے بھاگوں میں کل کی مرتی آج مروں، تیرا من راضی ہو، تیری آسین پوری ھوں۔ کس مرنے جوگی نے جنااور کس لیکھ کی ریکھا نے میرے پلے باندھ دیا۔۔ تجھے موت نہ آئی۔۔ او ہو تجھے کیوں آئے گی۔اس فقرے کی گردان کرتے ہوئے بے بے بھیڑیے کی طرح چوکے پر چڑھ گئی کپڑے سے پتیلی پکڑ کر چولھے سے اٹھائی اور زمین پر دے ماری۔ گرم گرم چائے کے چھپاکے داؤ جی کی پنڈلیوں اور پاؤں پر گرے ۔ وہ تیرا بھلا ہو جائے وہ تیرا بھلا ہوجائے کہتے وہاں سے ایک بچے کی طرح بھاگے اور بیٹھک میں گھس گئے ۔انکی اس فرار بلکہ انداز فرار کو دیکھ کر میں اور بی بی ہنسے بنا نہ رہ سکے۔ اور ہماری ہنسی کی آزار ایک ثانیے کیلئے چاروں دیواروں سے ٹکرائی۔ میں تو خیر بچ گیا، لیکن بے بے نے سیدھے جاکر بی بی کو بالوں سے پکڑ لیا اور چیخ کر بولی میری سوت بتا بڈھے سے تیرا کیا ناتا ہے، بتا نھیں تو ابھی پران لیتی ھوں، تونے اس کو چائے کی کنجی کیوں دی؟بی بی بچاری پھس پھس رونے لگی تو میں بھی اٹھ کر اندر بیٹھک میں کھسک آیا۔ داؤ جی اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھے تھے، اور اپنے پاؤں سہلارہے تھے، پتا نھیں انھیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے پھر کیوں گد گدی ھوئی کہ میں الماری کے اندر منہ کر کے ہنسنے لگا انھوں نے نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے پاس بلایا اور بولے۔شکر کرو گار کنم کہ گر فتارم بہ مصیبتے نہ کہ معصیتے۔تھوڑی دیر رک کر پھر کہا، میں اس کے کتوں کا بھی کتا ہوں، جس کے سر مطہر پر مکے کی ایک کم نصیب بڑھیا غلاظت پھینکا کرتی تھی۔میں نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے آقائے نامدار کا ایک ادنیٰ حلقہ بگوش گرم پانی کے چند چھینٹے پڑنے پر نالہ و شیون کرے تو لعنت ہے اس کی زندگی پر۔ وہ اپنے محبوب کے طفیل نار جہنم سے بچائے، خدائے ابراھیم مجھے جرات عطا کر مولائے ایوب مجھے صبر کی نعمت دے۔میں نہ کہا داؤ جی آقائے نامدار کون؟تو داؤ جی کو سنکر ذرا تکلیف ہوئی، انھوں نے شفقت سے کہا جان پدر یوں نہ پوچھا کر، میرے استاد میرے حضرت کی روح کو مجھ سے بیزار نہ کر، وہ میرے آقا بھی ہیں، میرے باپ بھی ہیں اور میرے استاد بھی ہیں، وہ تیرے دادا استاد ہیں،۔۔دادا استاد اور انھوں نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لئے۔
آقائے نامدار کا لفظ اورکو تاہی قسمت کی ترکیب میں نے پہلی بار داؤ جی سے سنی۔ یہ واقعہ سنانے میں انھوں نے کتنی ہی دیر لگادی، کیونکہ ایک ایک فقرے کے بعد فارسی کے بے شمار نعتیہ اشعار پڑھتے تھے، اور بار بار اپنے استاد کی روح کو ثواب پہنچاتے تھے۔ جب وہ یہ واقعہ بیان کر چکے تو میں نے بڑے ادب سے پوچھا داؤ جی آپ کو اپنے استاد صاحب اس قدر اچھے لگتے تھے، اور آپ انکا نام لے کر ہاتھ کیوں جوڑتے ہیں، آپ اپنے آپ کو استاد کا نوکر کیوں کہتے ہیں؟داؤ جی نے کہا، جو طویلے کے ایک خر کو ایسا بنا دے کہ لوگ کہیں یہ منشی چنت رام جی ہیں، وہ میرا آقانہ ہو تو پھر کیا ہوا؟میں چار پائی کے کونے سے آہستہ آہستہ پھسل کر بسترمیں پہنچ گیا، اور چاروں طرف رضائی لپیٹ کر داؤ جی کی طرف دیکھنے لگا جو سر جھکائے کبھی اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی اپنی پنڈلی سہلاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے وقفے کے بعد ذرا سا ہنستے اور پھر خاموش ہوجاتے۔۔کہنے لگتے میں کیا تھا، اور کیا ہوگیا ہوں حضرت مولانا کی پہلی آواز کیا تھی؟ میری طرف سر مبارک اٹھایا اور فرمایا، چوپال زادے ہمارے پاس آؤ، میں لاٹھی ٹیکتا انکے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ میں حضور کے قریب گیا تو فرمایا، بھی تم کو روز یہاں پر بکریاں چراتے دیکھتا ہوں، انھیں چرنے چگنے کیلئے چھوڑ کرہمارے پاس آجایا کرو اور کچھ پڑھ لیا کرو۔ پھر حضور نے میری عرض سنے بغیر ہی پوچھا، کیا نام ہے تمہارا؟ میں نے گنواروں کی طرح کہا،چنتو۔حضرات مسکرائے۔تھوڑا سا ہنسے بھی۔فرمانے لگے پورا نام کیا ہے؟ پھر خود ہی بولے چنت رام ہوگا، میں نے سر ہلا دیا، حضور کے شاگرد کتاب سے نظریں چراکر میری طرف دیکھ رہے تھے ۔میرے گلے میں کھدر کا لمبا کرتا تھا، پائجامہ کے بجائے صرف لنگوٹ بندھا تھا۔ پاؤں میں اوھوڑی کے موٹے جوتے اور سر پر سرخ رنگ کا جانگیہ لپٹا ہوا تھا۔ میں نے بات کاٹ کر پوچھا آپ بکریاں چراتے تھے؟ہاں ہاں وہ فخر سے بولے میں گڈریا تھا، اور میرے باپ کی بارہ بکریاں تھیں حیرانی سے میرا منہ کھلا رہ گیا، اور میں نے معاملے کی تہہ تک پہچنے کیلئے جلدی سے پوچھا اور آپ اسکول کے پاس بکریاں چرایا کرتے تھے، داؤ جی نے کرسی چار پائی کے قریب کھینچ لی اور اپنے پاؤں، پائے پر رکھ لئے اور بولے جان پدر اس زمانے میں تو شہروں میں بھی اسکول نھیں ہوا کرتے تھے، میں گاؤں کی بات کر رہا ہوں۔ آج سے چوہتر برس پہلے کوئی تمہارا ایم بی اسکول کا نام بھی نہ جانتا تھا، وہ تو میرے آقا کو پڑھنے کا شوق تھا۔ اردگرد کے لوگ اپنے لڑکے کو چار حرف پڑھنے کو ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔ ان کا سارا خاندان زیور تعلیم سے آراستہ اور دینی اور دنیاوی نعمتوں سے مالامال تھا۔ان کے والد ضلع بھر میں ایک ہی حکیم اور چوٹی کے مبلغ تھے۔ جدا مجد مہاراجہ کشمیر کے میر منشی، گھر میں علم کے دریا بہتے تھے، فارسی، عربی جبرو مقابلہ ، اقلید س حکمت اور علم ہیت ان کے گھر کی لونڈیاں تھیں۔ حضور کے والد کو دیکھنا مجھے نصیب نھیں ہوا، لیکن آپ کی زبانی ان کے تبحر علمی کی سب دلستانیں سنیں۔ شیفتہ اور حکیم مومن خاں مومن سے ان کے بڑے مراسم تھے اور خود مولانا کی تعلیم دلی میں مفتی آرزدہ مرحوم کی نگرانی میں ہوئی تھی۔مجھے داؤ جی کے موضوع سے بھٹک جانے کا ڈر تھا اس لئے میں نے جلدی سے پوچھا کہ پھر آپ نے حضرت مولانا کے پاس پڑھنا شروع کردیا، ہاں داؤ جی اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے، انکی باتیں ہی ایسی تھیں، انکی نگاہیں ہی ایسی تھیں جس کی طرف توجہ فرماتے تھے بندے سے مولانا کردیتے تھے۔ مٹی کے ذرے کو اکسیر کی خاصیت دیتے تھے۔ میں تو اپنی لاٹھی زمین پر ڈال کر انکے پاس بیٹھ گیا، فرمایا، اپنے بھائیوں کے پاس بورئیے پر بیٹھو۔ میں کہا جی اٹھارہ برس دھرتی پر بیٹھے گزر گئے، اب کیا فرق پڑتا ہے، پھر مسکرا دئیے، اپنے چوبی صندوقچے سے حرف ابجد کا ایک قاعدہ نکالا اور بولے الف، بے، پے ،تے، سبحان اللہ کیا آواز تھی، کس شفقت سے بولے تھے، کس لہجے سے فرما رہے تھے الف ، بے ، پے ، تے، اور داؤ جی ان حرفوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ماضی میں کھوگئے۔تھوڑی دیر بعد انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر کہا ادھرر ہٹ تھا، اور اسکے ساتھ مچھلیوں کا حوض پھر انھوں نے بایاں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر اس طرف مزار عین کے کوٹھے دونوں کے درمیان حضور کا باغیچہ تھا، اور سامنے ان کی عظیم الشان حویلی، اس باغیچے میں انکا مکتب تھا، در فیض کھلا تھا، جس کاجی چاہے آئے ، نہ مذہب کی قید نہ ملک کی پابندی۔۔میں نے کافی دیر سوچنے کے بعد باادب با ملاحظہ قسم کا فقرہ تیار کرکے پوچھا حضرت مولانا کا اسم گرامی شریف کیا تھا؟ تو پہلے انھوں نے میرا فقرہ ٹھیک کردیا، اور پھر بولے حضرت اسماعیل چشتی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے، کہ ان کے والد ہمیشہ انھیں جان کر جاناں کہہ کر پکارتے تھے، کبھی جان جانان کی رعایت سے مظہر جان جاناں بھی کہہ دیتے تھے۔میں ایسی دل چسپ کہانی سننے کا ابھی اور خواہش مند تھا کہ داؤ جی اچانک رک گئے، اور بولے سب سیڈی ایری سسٹم کیا تھا، ان انگریزوں کا برا ہو ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں آئیں یا ملکہ وکٹوریا کا فرمان لیکر سارے معاملے میں کھنڈت ڈال دیتے ہیں۔میں نے سب سیڈی ایری سسٹم کا ڈھانچہ انکی خدمت میں پیش کیا، پھر انھوں نے میز سے گرامر اٹھائی اور بولے باہر جاکر دیکھ کے آ کہ تیری بے بے کا غصہ کم ہوا یا نھیں میں دوات میں پانی ڈالنے کے بہانے باہر گیا تو بے بے کو مشین چلانے اور بی بی کو چوکا صاف کرتے پایا۔
داؤ جی کی زندگی میں بے بے والا پہلو بڑا ہی کمزور تھا، جب وہ دیکھتے کہ گھر مطلع صاف ہے اور بے بے کے چہرے پر کوئی شکن نھیں ہے تو وہ پکارا کہتے اب ایک ایک شعر سناؤ، پہلے مجھ ہی سے تقاضا ہوتا اور میں چھوٹتے ہی کہتا
لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہائی کوئی دن اور
اس پر وہ تالی بجاتے اور کہتے اولین شعر نہ سنوں گا اردو کا کم سنوں گا، اور مسلسل نظم کا ہر گز نہ سنوں گا، میں کہتا مجھے سوچنے دیجئے، اتنے میں بی بی سناتی۔بی بی ابھی میری طرح اکثر اس شعر سے شروع کرتی
شیدم کہ شاپوروم در کشید
چو خسرو برا اسمش قلم در کشید
اس پر داؤ جی ایک مرتبہ پھر آرڈر آرڈر پکارتے ، بی بی قینچی رکھ کر کہتی
شور شد واز خواب عدم چشم کشوویم
دیدیم کہ باقی ست شب فتنہ کشو ویم
داؤ جی شاباش تو ضرور کہہ دیتے لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ بیٹا شعر تو کئی مرتبہ سنا چکی ہے۔پھر وہ بے بے کی طرف دیکھ کر کہتے، آج تمہاری بے بے بھی ایک سنائے گی، مگر بے بے ایک روکھا سا جواب دیتی، مجھے نھیں آتے شیر کبت۔اس پر داؤ جی کہتے ہیں گھوڑیاں ہی سنا دے، اپنے بیٹوں کے بیاہ کی گھوڑیاں ہی گا دے، اس پر بے بے کے ہونٹ مسکرانے کو کرتے لیکن وہ مسکراتی نھیں، اور داؤ جی عین عورتوں کی طرح گھوڑیاں گانے لگتے، انکے درمیان کبھی امی چند اور کبھی میرا نام ٹانک دیتے، پھر کہتے میں اپنے اس گولو کی شادی پر سرخ پگڑی باندھوں گا، برات میں ڈاکڑ صاحب کے ساتھ ساتھ چلوں گا، اور نکاح نامے میں شہادت کے دستخط کروں گا، میں دستور کے مطابق شرما کر نگاہی نیچی کرلیتا، تو وہ کہتے پتہ نھیں اس ملک کے کسی شہر میں میری چھوٹی سی بہو پانچویں یا چھٹی جماعت میں ہوگی۔ ہفتہ میں ایک دن لڑکیوں کی خانہ داری ہوتی ہے، اس نے تو بہت سی چیزیں سیکھ لیں ہوں گی، پڑھنے میں بھی ہوشیار ہوگی، اس بدھو کو یہ یاد نھیں رہتا کہ ماریاں گھوڑیاں ہوتی ہیں مرغی وہ تو فرفر سب کچھ سناتی ہیں، میں تو اسکو فارسی پڑھاؤں گا، پہلے اسکو خطاطی کی تعلیم دوں گا، پھر خط شکستہ سکھاؤں گا، مستورات کو خطہ شکستہ نھیں آتا میں تو اپنی بہو کو کو سکھا دوں گا۔۔سن گولو پھر میں تیرے ہی پاس رہوں گا۔ میری بہو فارسی میں باتیں کریں گی اور وہ بات بات پر بفر مائید کہے گی، اور تو احمقوں کی طرح اسکا منہ دیکھا کرے گا۔ پھر وہ سینے پر ہاتھ رکھ کرجھکتے ہوئے خیلے خوب خیلے خوب کہتے۔ جان پدر چرا ایں قدر رحمت می کش۔۔خوب۔۔یاد وارم۔۔اور پتہ نھیں کیا کیا کچھ کہتے ۔
بچارے داؤ جی جب چھت پر دھوپ میں بیٹھے ہوئے ایسی ہی دنیا بسا چکے تھے، تو ہولے سے مجھے کہنے لگے، جس طرح خدا نے تجھے ایک نیک سیرت بیوی اور مجھے سعادت مند بہو عطا کی ہے، ویسے ہی وہ اپنے فضل سے میرے امی چند کو بھی دے۔اسکے خیالات مجھے کچھ اچھے نھیں لگتے یہ سوانگ، یہ مسلم لیگ، یہ بیلچہ پارٹیاں مجھے پسند نھیں اور امی چند لاٹھی چلانا، گٹگا کھیلنا سیکھ رہا ہے، میری تو وہ کب مانے گا ہاں خدائے بزرگ و برتر اسے ایک نیک مومن سی بیوی دلاد ے تو وہ اسے راہ راست پر لے آئے گی۔اس مومن کے لفظ پر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور میں چپ سا ہوگیا، چپ محض اسلئے ہوا تھا، کہ اگر میں نے منہ کھولا تو یقینا ایسی بات نکلے گی، جس سے داؤ جی کو برا دکھ ہو گا۔ میری اور امی چند کی تو خیر باتیں ہی تھیں، لیکن بارہ جنوری کو بی بی برات سچ مچ آگئی۔ جیجا جی رام پرتاب کے بارے میں داؤ جی مجھے بہت کچھ بتا چکے تھے، کہ وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور اسکی شادی کے بارے میں انھوں نے جو استخارہ کیا تھا، اس پر وہ پورا اترا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی داؤ جی کو اس بات کی تھی، کہ انکے سمدھی فارسی کے استاد تھے، اور کبیر پینتھی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ بارہ تاریخ کی شام بی بی وداع ہونے لگی تو گھر بھرمیں کہرام مچ گیا بے بے زار زار قطار رو رھی تھیں، امی چند آنسو بہا رہا تھا، اور محلے کی عورتیں پھس پھس کر رو رہی تھیں۔ میں دیوار کے ساتھ لگاکھڑا ہو اور داؤ جی میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں،آج زمین میرے پاؤں نھیں پکڑتی میں توازن قائم نھیں رکھ سکتا جیجا جی کے باپ بولے، منشی جی اب ہمیں اجازت دیں، تو بی بی بچھاڑ کھا کر گر پڑی، اسے چار پائی پر ڈالا عورتیں ہو کرنے لگیں، اور داؤ جی میرا سہارا لے کر اس کی چار پائی کی طرف چلے انھوں نے بی بی کو کندھے سے پکڑکر اٹھایااور یہ کیا ہوا بیٹا اٹھو۔ یہ تو تمہاری نئی اور خود مختار زندگی کی پہلی گھڑی ہے۔اسے یوں منحوس نہ بناؤ، بی بی اس طرح دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے داؤ جی سے لپٹ گئی، انھوں نے اسکے سرپر ہاتھ پھرتے ہوئے کہا، قرۃ العین میں تیرا گنہ گار ہوں کہ تجھے پڑھا نہ سکا، تیرے سامنے شرمندہ ہوں کہ تجھے علم کا جہیز نہ دے سکا، تو مجھے معاف کردے گی، اور شاید بر خور دار رام پرتاب بھی لیکن میں اپنے کو معاف نہ کر سکوں گا، میں خطا کار ہوں میرا سر خجل تیرے سامنے خم ہے۔ یہ سن کر بی بی اور بھی زور زور سے رونے لگی اور داؤ جی کی آنکھوں سے کتنے سارے موٹے موٹے آنسوں کے قطرے زمین پر گرے، انکے سمدھی نے آگے بڑھ کر کہا، منشی جی آپ فکر نہ کریں، میں بیٹی کو کریما پڑھا دوں گا، داؤ جی ادھرپلٹے اور ہاتھ جوڑ کر بولے کریما تو یہ پڑھ چکی ہے، گلستان اور بوستان بھی ختم کراچکا ہوں، لیکن میری حسرت پوری نھیں ہوئی۔اس پر وہ ھنس کر بولے ساری گلستان تو میں نے بھی نھیں پڑھی، جہاں عربی آتی تھی آگے گزر جاتا تھا۔۔داؤ جی اسی طرح ہاتھ جوڑے کتنی دیر خاموش کھرے رہے، بی بی نے گوٹہ لگی سرخ رنگ کی ریشمی چادر سے ہاتھ نکال کر پہلے امی چند اور پھرمیرے سر پر ہاتھ پھرا اور سسکیوں کے بازؤں میں ڈیوڑھی کی طرف چل دی، داؤ جی میرا سہار لے کر چلے تو انھوں نے مجھے اپنے ساتھ زور سے بھینچ کر کہا، لو یہ بھی لارا ہے، دیکھو یہ ہمارا سہارا بنا پھرتا ہے، او گولو۔۔او مرفم دیدہ۔۔تجھے کیا ہوگیا۔۔جان پدر تو کیوں۔۔اس پر ان کا گلا رندھ گیا اور میرے آنسو بھی تیز ہوگئے، برات والے تانگوں اور اکوں پر سوار تھے ، بی بی رتھ میں جارھی تھی، اور اسکے پیچھے امی چند اور میں اور ہمارے درمیان داؤ جی پیدل چل رہے تھے، اگر بی بی کی چیخ ذرا زور سے نکل جاتی تو داؤ جی آگے بڑھ کر رتھ کا پردا ٹھاتے اور کہتے، لاحول پڑھ بیٹا لاحول پڑھو، اور خود آنکھوں پر رکھے رکھے انکی پگڑی کا شملہ بھیگ گیا تھا۔
رانو ہمارے محلے کا بڑا کثیف انسان تھا بدی اور کینہ پروری اسکی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، وہ باڑہ جس کا میں نے ذکر کیا تھا، اسی کا تھا، اس میں بیس تیس بکریاں اور گائیں تھیں، جن کا دودھ صبح و شام رانو گلی کے بغل میں میدان میں بیچا کرتا تھا۔ تقریبا ًسارے محلے والے اسی سے دودھ لیتے تھے، اور اس کی شرارتوں کی وجہ سے دبتے بھی تھے، ہمارے گھر کے آگے سے گزر تے ہوئے وہ یوں ہی شوقیہ لاٹھی زمین پر بجاکر داؤ جی کو پنڈتاجے رام جی کی کہہ کر سلام کیاکرتا۔ داؤ جی نے اسے کئی بار سمجھایا کہ وہ پنڈت نھیں ایک معمولی آدمی ہیں کیوں کہ پنڈت ان کے نزدیک بڑے پڑھے لکھے اور فاضل آدمی کو کہتے تھے، لیکن رانو نھیں مانتا تھا۔ وہ اپنی مونچھ کو چباکر کہتا، ارے بھئی جن کے سر پر بودی چٹیا ہو وہی پنڈت ہوتا ہے۔۔چوروں یا یاروں سے اسکی آشنائی تھی۔ شام کو اسکے باڑے میں جوا بھی ہوتا تھا، اور گندی اور فحش بولیوں کا مشاعرہ بھی۔ بی بی کے جانے کے ایک دن بعد آیا جب میں اس سے دودھ لینے گیا تو اس نے شرات سے آنکھ میچ کر کہا، مونی تو چلی گئی بابو تو اس گھر میں رہ کر کیا کرے گا، میں چپ رہا، تو اس نے جھاگ والے دودھ میں ڈبہ پھیرتے ہوئے کہا گھر میں گنگا بہتی تھی سچ بتا کہ غوطہ لگایا کہ نھیں۔ مجھے اس بت پر غصہ آیا اور میں نے ملوٹ گھما کر اسکے سر پر دے مارا، اس ضرب شدید سے خون وغیرہ تو برآمد نہ ہوا لیکن وہ چکرا کر تخت پر گر پڑا اور میں گھر میں بھاگا۔ داؤ جی کو سارا واقعہ سنا کر میں دوڑا دوڑا اپنے گھر گیا، اور اباجی سے ساری حکایات بیان کی۔ انکی بدولت رانو کی تھانہ میں طلبی ہوئی اور حوالدا صاحب نے ھلکی سے گوشمالی کے بعد اسے سخت متنبہ کرکے چھوڑ دیا۔اسکے بعد سے رانو داؤ جی پر آتے جاتے طرح طرح کے فقرے کہنے لگا وہ سب سے زیادہ مذاق ان کی بودی کا اڑایا کرتا تھا اور واقعی داؤ جی کی فاضل سر پر وہ چیٹی سی بودی ذرا بھی اچھی نہ لگتی مگر وہ کہتے یہ میری ماں کی نشانی ہے، اور مجھے اپنی زندگی کی طرح عزیز ہے۔ وہ اپنی آغوش میں میرا سر رکھ کر اسے دہی سے دھوتی تھی، اور کڑوا تیل لگا کر چمکاتی تھی۔ گو میں نے حضرت مولانا کے سامنے کبھی بھی پگڑی اتارنے کی جسارت نھیں کی تھی لیکن وہ جانتے تھے جب میں دیال سنگھ میموریل ہائی اسکول سے ایک سال کی ملازمت کے بعد چھٹیوں میں گاؤں آیا تو حضور نے پوچھا، شہر جا کر چوٹی تو نھیں کٹوادی؟ تو میں نے نفی میں جواب دیا، اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا تم سا سعادت مند بیٹا کم ماؤں کو ملتا ہے، اور ہم سا خوش قسمت استاد بھی خال ہی خال ہوگا، جسے تم ایسے شاگرد کو پڑھانے کا فخر حاصل ہوا۔ میں نے ان کے پاؤں چھو کر کہا، حضور آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں، یہ سب آپ کے قدموں کی برکت ہے۔ ہنس کر فرمانے لگے چنت رام ہمارے پاؤں نہ چھوا کرو، بھلا ایسے لمس کا کیا فائدہ جسکا ہمیں احساس نہ ہو۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے کہا، اگر کوئی مجھے بتا دے تو سمندر پھاڑ کر بھی آپ کیلئے دوائی نکال کر لاؤں۔ اپنی زندگی کی حرارت حضور کی ٹانگوں کیلئے نذر کردوں، لیکن میرا بس نھیں چلتا۔وہ خاموش ہوگئے اور نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے خدا کو یہ ہی منظور ہے تو ایسے ہی سہی، تم سلامت رہو کہ تمہارے کندھوں پر میں نے کوئی دس سال بعد سارا گاؤں دیکھ لیا۔۔داؤ جی گذرے ایام کی تہہ میں اترتے ہوئے کہہ رہے تھے۔میں صبح سویرے حویلی کی ڈیوڑھی میں جا کر آواز دیتا خادم آگیا، مستورات ایک طرف ہوجاتیں تو حضور صحن سے آواز دے کر مجھے بلا لیتے اور میں اپنی قسمت کو سراہتا، ہاتھ جوڑے جوڑے حضورکی طرف بڑھتا، پاؤں چھوتا اور پھر حکم کا انتظار کرنے لگتا وہ حسب عادت میرے والدین کی خیریت پوچھتے گاؤں کا حال دریافت فرماتے اور پھر کہتے،لو بھئی چنت رام ان گناہوں کی گھڑی کو اٹھا لو، میں سبد گل کی طرح انھیں اٹھاتا اور پھر کمر پر لاد کے حویلی سے باہر آجاتا کبھی فرماتے ہمیں باغ کا چکر کرادو کبھی حکم ہوتا رہٹ کے پاس لے چلو، اور کبھی کبھار بڑے نرمی سے کہتے، چنت رام تھک نہ جاؤ تو ہمیں مسجد لے چلو، میں نے کئی بار عرض کیا کہ حضور ہر روز مسجد لے جایا کروں گا مگر نھیں مانے فرماتے رہے کبھی کبھی جی چاہتا ہے تم سے کہہ دیتا ہوں۔ میں وضو کرنے والے چبوترے پر بیٹھا کر ان کے ہلکے ہلکے جوتے اتارتا اور انھیں جھولی میں رکھ کر دیوار سے لگ کر بیٹھ جاتا چبوترے سے حضور خود گھسٹ کر صف کی جانب جاتے تھے، میں نے صرف ایک مرتبہ انھیں اس طرح جاتے دیکھا تھا، اس کے بعد جرات نہ ہوئی، ان کے جوتے اتارنے کے بعد دامن میں منہ چھپا لیتا تھا اور پھر اسی وقت سر اٹھاتا، جب وہ میرا نام لیکر یاد فرماتے تھے، واپسی پر میں قصبہ کی لمبی لمبی گلیوں کا چکر کاٹ کر حویلی کو لوٹتا تھا، تو فرماتے تھے، ہم جانتے ہیں، چنت رام تم ہماری خوشنودی کیلئے قصبہ کی سیر کراتے ہو لیکن ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے، ایک تو تم پر لدا لدا پھرتا ہو ں دوسرے تمہارا وقت ضائع کرتا ہوں۔ اور حضور سے کون کہتا کہ آقا یہ وقت ہی میری زندگی کا نقطہ عروج ہے، اور یہ تکلیف ہی میری حیات کا مرکز ہے، آپ تو فرماتے ہیں کہ لدا لدا پھرتا ہوں، اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک بیمار ہے، جس نے اپنا سایہ محض میرے لئے وقف کردیا ہے، جس دن میں نے سکندر نامہ زبانی یاد کرکے انھیں سنادیا اس قدر خوش ہوئے گویا ہفت اقلیم کی بادشاہی ہی نصیب ہوگئی۔ دین و دنیا کی ہر دعا سے مجھے مالا مال کیا دست شفقت میرے سر پر پھیرا اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر مجھے انعام دیا۔ برکت سمجھ کر پگڑی میں رکھ لیا۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر دعائیں دے رہے تھے، اور فرما رہے تھے جو کام ہم سے نہ ہوسکا وہ تو نے کر دکھایا، تو نیک ہے خدانے تجھے سعادت نصیب کی چنت رام تیرا چوپال کا پیشہ ہے، اس لئے خدائے عزو جل تجھے برکت دے گا، تجھے اور کشائش میسر آئے گی، داؤ جی یہ باتیں کرتے کرتے گھنٹوں سر پر ہاتھ رکھ کر خاموش ہوگئے۔
میرا متحان قریب آرہا تھا اور داؤ جی سخت ہوتے جارہے تھے، انھوں نے میرے ہر فارغ وقت پر کوئی نہ کوئی کام پھیلا دیا تھا، ایک مضمون سے عہدہ بر آہوتا تھا تو دوسرے کی کتابیں نکال کر سر پر سوار ہوجاتے تھے، پانی پینے کیلئے اٹھتا تو سایہ کی طرح ساتھ ساتھ چلے آئے، اور نہیں تو تاریخ کے سن ہی پوچھے جاتے۔ شام کے وقت اسکول پہنچنے کا انھوں نے وطیرہ بنالیا تھا۔ ایک دن میں اسکول کے بڑے دروازے سے بورڈنگ کی راہ کھسک گیا تو انھوں نے جماعت کے کمرے کے سامنے آکر بیٹھنا شروع کردیا۔ میں چڑ چڑا اور ضدی ہونے کے علاوہ بدزبان بھی ہوگیا تھا۔ داؤ جی کے بچے گویا میرا تکیہ کلام بن گیا تھا، اور کبھی کبھار ان کی یا ان کے سوالات کی سختی بڑھ جاتی تو میں انھیں کتے کہنے سے بھی نہ چوکتا ناراض ہوجاتے تو بس اس قدر کہتے، دیکھ لے ڈومنی توکیسی باتیں کررہا ہے تیری بیوی بیاہ کر لاؤں گا تو پہلے اسے یہ ہی بتاؤ گا کہ جان پسر یہ تیرے بڈھے باپ کو کتا کہتا تھا، میری گالیوں بدلے وہ مجھے ڈومنی کہتے تھے، اگر انھیں زیادہ دکھ ہوتا تو منہ چڑھی ڈومنی کہتے، اس سے زیادہ نہ انھیں غصہ آتا تھا، نہ دکھ ہوتا تھا۔ مجھے میرے اصل نام سے انھوں نے کبھی نھیں پکارا، میرے بڑے بھائی کا ذکر آتا تو بیٹا آفتاب بر خور دار آفتاب کہہ کر انھیں یاد کرتے تھے، لیکن میرے ہر روز نئے نئے نام رکھتے جن میں گولو انھیں بہت مرغوب تھا، طنبورا دوسرے درجہ پر مسٹر ہونق اور اخفش اسکوائر ان سب کے بعد آتے تھے، اور ڈومنی صرف غصے کی حالت میں ۔کبھی کبھی میں ان کو بہت دق کرتا، وہ اپنی چٹائی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے، مجھے الجبرے کا ایک سوال دے رکھا تھا اور میں سارے جہان کی ابجد کو ضرب دے دے کر تنگ آچکتا، تو میں کاپیوں اور کتابوں کے ڈھیر کو پاؤں سے پرے ڈھکیل کر اونچے اونچے گانے لگتا۔‘تیرے سامنے بیٹھ کر رونا تے دکھ تینوں نیوں دسنا’۔داؤ جی حیرانی سے میری طرف دیکھتے تو میں تالیاں بجانے لگتا اور قوالی شروع کردیتا، نیوں نیوں دسناتے، رکھ تینوں نیوں دسنا۔دسنا دسنا دسنا دسنا۔۔تینوں نیوں دسنا، سارے گاما رونا رونا رونا سارے گامار رونا رونا۔۔۔۔تے دکھ تینو دسنا، وہ عینک کے اوپر سے مسکراتے میرے پاس آکر کاپی اٹھاتے، صفحہ نکالتے اور میری تالیوں کے درمیان اپنا بڑا سا ہاتھ کھڑا کردیتے تھے۔سن بیٹا وہ بڑی محبت سے کہتے یہ کوئی مشکل سوال ہے جوں ہی وہ سوال سمجھانے کیلئے ہاتھ نیچے کرتے میں پھر تالیاں بجانے لگتا۔ دیکھ میں تیرا داؤ نھیں ہوں؟ وہ بڑے مان سے پوچھتے۔نہیں میں منہ پھاڑ کر کہتا ۔تو اور کون ہے؟ وہ مایوس سے ہوجاتے۔
وہ سچی سرکار، میں انگلی آسمان کی طرف شرارت سے کہتا وہ سچی سرکار وہ سب کا پالنے والا۔بول بکرے سب کا والی کون ہے؟وہ میرے پاس سے اٹھکر جانے لگتے تو میں ان کی کمر میں ہاتھ ڈال دیتا داؤ جی خفا ہوگئے کیا؟وہ مسکرانے لگتے، چھوڑ طنبورے چھوڑ بیٹا میں تو پانی پینے جا رہا ہوں۔مجھے پانی پینا ہے۔میں جھوٹ موٹ برا مان کر کہتا ہوں لوجی جب مجھے سوال سمجھنا ہو داؤ جی کو پانی یاد آگیا۔وہ آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اور کاپی کھول کر کہتے اخفش اسکوائر جب تجھے چار ایکس کا مربع نظر آرہا تھا تو تونے فارمولا کیوں نہ لگایا اور اگر ایسا نہ بھی کرتا تو۔۔اور اس کے بعد پتہ نھیں داؤ جی کتنے دن پانی نہ پیتے۔
فروری کے بعد دوسرے ہفتہ کی بات ہے، امتحان کا کل ڈیڑھ مہینہ رہ گیا تھا، اور مجھ پر آنے والے خطرناک وقت کا خوف بھوت بن کر سوار ہوگیا تھا، میں نے خود اپنی پڑھائی پہلے سے تیز کردی تھی، اور کافی سنجیدہ ہوگیا تھا۔لیکن جومیٹری کے مسائل میری سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ داؤ جی نے بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ آخر ایک دن انھوں نے کہا کل باون مسئلے ہیں زبانی یاد کر۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں چنانچہ میں انھیں رٹنے میں مصروف ہوگیا لیکن جو رات کو یاد کئے صبح کو بھول جاتا میں دل برداشتہ ہوکر ہمت چھوڑ دی۔ ایک رات داؤ جی مجھ سے جومیڑی کی شکلیں بنو اکر اور مشقیں سن کر اٹھے تو وہ بھی کچھ پریشان تھے۔ میں بار بار اٹکتا تھا اور انھیں بہت کوفت ہوتی تھی۔ مجھے سونے کی تاکید کرکے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تو میں کاپی پینسل لے کر پھر بیٹھ گیا، اور رات کے ڈیڑھ بجے تک لکھ لکھ کر رٹا لگاتا رہا، مگر جب کتاب بند کرکے لکھنے لگ جاتا تو چند فقروں کے بعد اٹک جاتا۔ مجھے داؤ جی کا مایوس چہرہ یادکرکے اور اپنی حالت کا اندازہ کرکرے رونا آگیا اور میں باہر صحن میں آکر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا، سچ مچ رونے لگا، گھٹنوں پر سر رکھے رو رہا تھا اور سردی کی شدت سے کانپ رھا تھا، اسی طرح بیٹھے بیٹھے کوئی ڈیڑھ گھنٹا گزر گیا، تو میں نے داؤ جی کی عزت بچانے کیلئے یہ ہی ترکیب سوچی کہ ڈیوڑھی کا درازہ کھول کر چپکے سے نکل جاؤ، اور واپس نہ آؤ۔ جب فیصلہ کر چکا اور عملی قدم آگے بڑھانے کے لئے سر اوپر اٹھایا تو داؤ جی کمبل اوڑھے میرے پاس کھڑے تھے، انھوں نے مجھے بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگایا تو سسکیوں کا لامتنا ہی سلسلہ صحن میں پھیل گیا داؤ جی نے میرا سر چوم کر کہا لے بھئی طبنورے میں تو یوں نہ سمجھتا تھا تو تو بہت کم ہمت نکلا۔ پھر انھوں نے مجھے اپنے ساتھ کمبل میں لپیٹ لیا۔ بیٹھک میں لے آئے بستر میں بٹھا کر انھوں نے میرے چاروں طرف رضائی لپیٹی اور خود پاؤں اوپر کرکے کرسی پر بیٹھ گئے۔ انھوں نے کہا کہ اقلیدس چیز ہی ایسی ہے، تو اس کے ہاتھوں یوں نالاں ہے اس سے اور طرح تنگ ہوا تھا، حضرت مولانا کے پاس جبرو مقابلہ اور اقلیدس کی جس قدر کتابیں تھیں انھیں میں اچھی طرح پڑھ چکا تھا، کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے الجھن ہوتی، میں یہ جانا کہ ریاضی کا ماہر ہوگیا ہو لیکن ایک رات میں اپنی کھاٹ پر پڑا تساوی الساقین کے ایک مسئلہ پر غور کرنے لگا، کہ بات الجھ گئی، میں نے دیا جلا کر شکل بنائی اور اس پر غور کرنے لگا، جبرو مقابلہ کی رو سے اسکا جواب ٹھیک آتا تھا، لیکن علم ہندسہ سے پایہ ثبوت کو نہ پہنچا تھا میں ساری رات کا غذ سیاہ کرتا رہا، لیکن تیری طرح رویا نھیں۔ علی الصبح میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انھوں نے اپنے دست مبارک سے کاغذ پر شکل کھینچ کر سمجھانا شروع کیا لیکن جہاں مجھے الجھن ہوئی تھی وہیں حضرت مولانا کی طبع رسا کو بھی کوفت ہوئی۔ فرمانے لگے چنت رام اب ہم تم کو نھیں پڑھا سکتے جب استاد اور شاگرد کا علم ایک سا ہوجائے تو شاگرد کو کسی اور معلم کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔ میں نے جرات کرکے کہہ دیا حضور اگر کوئی اور یہ جملہ کہتا تو میں اسے کفر کے مترادف سمجھتا، لیکن آپ کا ہر حرف اور ہر حرف شوشہ میرے لئے حکم ربانی سے کم نھیں، اسلئے خاموش ہوں، بھلا آقائے غزنوی کے سامنے ایاز کی کیا مجال لیکن حضور مجھے دکھ ھوا ہے۔فرمانے لگے جذباتی آدمی ہو، بات تو سن لی ہوتی، میں نے سر جھکا کر ارشاد فرمایا۔ دلی میں حکیم ناصر علی سیستانی علم ہندسہ کے بڑے ماہر ہیں، اگر تم کو اسکا ایسا ہی شوق ہے تو انکے پاس چلے جاؤ اور اکتساب علم کرو، ہم ان کے نام رقعہ لکھ دیں گے، میں نے رضا مندی ظاہر کردی تو فرمایا، اپنی والدہ سے پوچھ لینا اگر وہ رضامند ہوں تو ہمارے پاس آنا۔۔والدہ مرحومہ سے پوچھنا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق جواب پانا انہونی بات تھی، چناچہ میں نے ان سے نہیں پوچھا، حضور پوچھتے تو میں دروغ بیانی سے کہہ لیتا کہ گھر کی لپائی کر رہا ہوں جب فارغ ہوں گا تو والدہ سے عرض کروں گا۔چند ایام بڑے اضطر ارکی حالت میں گزرے میں دن رات اس شکل کو حل کرنے کی کوشش کرتا مگر صیح جواب نہ برآمد ہوتا، اس لاحل مسئلہ سے طبعیت میں اور انتشار پید اہوا، میں دلی جانا چاہتا تھا، لیکن حضور سے نہ اجازت مل سکتی تھی، نہ رقعہ وہ والدہ کی رضا مندی کے بغیر اجازت دینے والے نہ تھے ۔اور والدہ اس بڑھاپے میں کیسے آمادہ ہوسکتی تھیں۔ایک رات جب سارا گاؤں سو رہا تھا اور میں تیری طرح پریشان تھا تو میں نے اپنی والدہ کی پٹاری سے اس کی کل پونجی دو روپے چرا ئے اور نصف اس کے لیے چھوڑ کر گاؤں سے نکل گیا، خدا مجھے معاف کرے، اور میرے دونوں بزرگوں کی روحوں کو مجھ پر مہربان کرے، واقعی میں نے بڑاگناہ کیا تھا۔ ان دونوں کرم فرماؤں کے سامنے پاس پہنچا جہاں بیٹھ کر آپ پڑھاتے تھے، گھٹنوں کے بل ہوکر میں نے زمین کو بوسہ دیا اور دل میں کہا بد قسمت ہوں اور بے اجازت جارہا ہوں لیکن آپ کی دعاؤں کا عمر بھر محتاج رہوں گا میرا قصور معاف نہ کیا تو آپ کے قدموں میں جان دے دوں گا۔ اتنا کہہ کر اور لاٹھی کندھے پر رکھ کر میں وہاں سے چل دیا۔۔ سن رہا ہے؟داؤ جی نے میری طرف غور سے دیکھ کر پوچھا، رضائی کے بیچ خار پشت بنے میں نہ آنکھیں جھپکائیں اور ہولے سے کہا جی؟داؤ جی نے پھر کہنا شروع کیا ، قدرت نے میری کمال کی مدد کی، ان دنوں جا کھل جنید برسہ حصار والی ریل کی پٹری بن رہی تھی، یہ ہی راستہ سیدھا دلی جاتا تھا اور یہ ہی مزدوری ملتی تھی۔ ایک دن مزدوری کرتا اور دو دن چلتا اس طرح تائید غیبی کے سہارے سولہ دن میں دلی پہنچ گیا منزل مقصود تو ہاتھ آگئی لیکن گوہر مقصود کا سراغ نہ ملنا تھا نہ ملا، جس کسی سے پوچھتا حکیم ناصر علی سیستانی کا دولت خانہ کہاں ہے نفی میں جواب ملتا، دو دن ان کی تلاش جاری رہی لیکن پتہ نہ چل سکا قسمت کی یاوری تھی، صحت اچھی تھی، انگریزوں کیلئے نئی کوٹھیاں بن رھی تھیں، وہاں کام پر جانے لگا، شام کو فارغ ہوکر، حکیم صاحب کا پتہ معلوم کرتا اور رات کے وقت ایک دھرم شالا میں کھیس پھینک کر گہری نیند سو جاتا۔ مثل مشہور ہے جویندہ یابندہ آخر ایک دن مجھے حکیم صاحب کی جائے رہائش معلوم ہو گئی، وہ پتھر پھوڑوں کے محلے کی ایک تیرہ و تاریک گلی میں فروکش تھے، اور چند دوستوں سے اونچے اونچے گفتگو ہورھی تھی میں جوتے اتار کر دہلیز کے اندر کھڑا ہوگیا، ایک صاحب نے پوچھا کون ہے؟میں نے سلام کیا حکیم صاحب سے ملنا ہے۔ حکیم صاحب دوستوں کے حلقے میں سرجھکائے بیٹھے تھے، اور ان کی پشت میری طرف تھی، اسی طرح بیٹھے بیٹھے بولے اسم گرامی؟میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا پنجاب سے آیا ہوں، اور میں پوری بات بھی نہ کر پایا تھا کہ زور سے بولے، اوہ ہو چنت رام ہو؟ میں کچھ جواب نہ دے سکا، فرمانے لگے مجھے اسماعیل کا خط ملا لکھتا تھا شاید چنت رام تمہارے پاس آئے، ہمیں بتائے بغیر گھر سے فرار ہوگیا ہے، اسکی مدد کرنا، میں اس طرح کھڑا رہا، تو پاٹ دار آواز میں بولے میاں اندر آجاؤ کیا چپ کا روزہ رکھا ہے؟ میں آگے بڑھا تو بھی میری طرف نہ دیکھا اور ویسے ہی عروس نو کی طرح بیٹھے رہے، پھر قدرے تحکمانہ انداز میں کہا، برخوردار بیٹھ جاؤ، میں وہیں بیٹھ گیا، تو اپنے دوستوں سے فرمایا بھئی ذرا ٹہرو، مجھے اس سے دو ہاتھ کرلینے دو، پھر حکم ہوا کہ بتاؤ ہندسہ کاکون سا مسئلہ تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔پھر فرمایا کہ میرا کرتا اوپر کرو ۔میں نے ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ کرتہ یوں اوپر کھینچ لیا کہ ان کی کمر برہنہ ہوگئی، پھر فرمایا بناؤ اپنی انگلی سے میری کمر پر ایک متسا وی اساقین، مجھ پر سکتہ کا عالم تاری تھا، نہ آگے بڑھنے کی ہمت تھی نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت، ایک لمحے کے بعد بولے میاں جلدی کرونابینا ہوں، کاغذ قلم کچھ سمجھ میں نھیں آتا، میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھنے کی کوشش کی، اور ان کی چوڑی چکلی کمر پر کانپتی ہوئی انگلیوں سے متساوی الساقین بنانے لگے، جب وہ غیر مرئی شکل بن چکی تو بولے، اب اس نقطہ سے سے خط ج پر عمود گراؤ، ایک تو میں گھبرایا ہوا تھا، دسرے وہاں کچھ نہ آتا تھا، یوں اٹکل سے میں نے ایک مقام پر انگلی رکھ کر عمود گرانا چاہا تو تیزی سے بولے ہے ہے کیا کرتے ہو، یہ نقطہ سے ہے کیا؟ پھر خود بولے نیچے سے ہے وہاں خط کھینچو اللہ اکبر اللہ اکبر کیا علم تھا، کیا آواز تھی اور کیسی تیز فہمی تھی، وہ بول رہے تھے اور میں مبہوت بیٹھا تھا ۔کیا آواز تھی یوں لگ رہا تھا کہ ابھی ان کے آخری جملے کے ساتھ نور کی لکیریں متساوی الساقین بن کر ان کی کمر پر ابھر آئیں گی، پھر داؤ جی دلی کے دنوں میں ڈوب گئے، ان کی آنکھیں کھلی تھیں وہ میری طرف دیکھ رہے تھے لیکن مجھے نھیں دیکھ رہے تھے میں نے بے چین ہو کر پوچھا پھر کیا ہوا داؤ جی؟انھوں نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا، رات بہت ہوچکی ہے اب تو سوجاپھر بتآؤں گی، میں ضدی بچے کی طرح ان کے پیچھے پڑگیا، تو انھوں نے کہا پہلے وعدہ کرکہ آئندہ مایوس نھیں کرے گا۔اور ان چھوٹی چھاٹی پراپوزیشن کو بتاشے سمجھے گا، میں نے جواب دیا چلو سمجھوں گا، آپ فکر نہ کریں۔ انھوں نے کھڑے کھڑے کمبل لپیٹتے ہوئے کہا، بس مختصر یہ کہ میں ایک سال حکیم صاحب کی حضوری میں رہا، اور اس بحر علم سے چند قطرے حاصل کرکے اپنے کور آنکھوں کو دھویا۔ واپسی پر میں سیدھا اپنے آقا کی خدمت میں پہنچا اور ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ فرمانے لگے اگر ہم میں قوت ہو تی تو پاؤں کھینچ لیتا اور اس پر میں رو دیا، تو دست مبارک محبت سے میرے سر پر پھیر کر کہنے لگے، ہم تم سے ناراض نھیں ہیں، لیکن ایک سال کی فرقت بہت طویل ہے، آئندہ کہیں جانا تو ہمیں بھی ساتھ لیجانا، یہ کہتے ہوئے داؤ جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ مجھے اس طرح گم سم چھوڑ کر بیٹھک باہر نکل گئے۔
امتحان کی قربت سے میرا خون خشک ہورہا تھا، لیکن جسم پھول رہا تھا، داؤ جی کو میرے موٹاپے کی فکر رہنے لگی اکثر میرے ہاتھ پکڑ کر کہتے اسپ تاری بن طویلہ بن مجھے ان کا یہ فقرہ بہت ناگوار تھا، اور میں احتجاجاً ان سے کلام بندکر دیتا تھا، میرے مسلسل برت نے بھی ان پر کوئی اثر نھیں ڈالا تھا، انکی فکر اندیشہ کی حد تک پہنچ گئی ایک صبح سیر کو جانے سے پہلے انھوں نے مجھے جگایا، اور میری منتوں خوشامدوں،گالیوں اور جھڑکیوں کے باوجود بستر سے اٹھا کوٹ پہنا کر کھڑا کردیا، پھر وہ مجھے بازو سے پکڑ کر گویا گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے، سردیوں کی صبح کے چار کا وقت ۔ گلی میں نہ آدم نہ آدم زاد، تاریکی سے کچھ بھی نہ دکھائی دیتا تھا، اور داؤ جی مجھے اسی طرح سیر کولئے جاتے رہے، میں کچھ بک رہا تھا، اور وہ کہہ رہے تھے، ابھی گراں خوابی دور نھیں ہوئی، ابھی طنبورا بڑبڑا رہا تھا، تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کہتے کوئی سر نکال طنبورے کسی آہنگ پر بج یہ کیا کر رہا ہے، جب ہم بستی سے دور نکل گئے اور صبح کی یخ ہوا نے میری آنکھوں کو زبردستی کھول دیا تو داؤ جی نے میرا بازو چھوڑ دیا۔سرداروں کا رہٹ آیا اور نکل گیا، ندی آئی اور پیچھے نکل گئی، قبرستان گزر گیا، مگر داؤ جی تھے کہ کچھ آیتیں سی پڑھتے چلے جارہے تھے۔ جب ٹبے پر پہنچے تو میری روح فنا ہوگئی یہاں لوگ دوپہر میں بھی نھیں گزرتے تھے، کیونکہ پرانے زمانے میں یہاں ایک شہر غرق ہوا تھا مرنے والوں کی روحیں اسی ٹیلے پر رہتی ہیں اور آنے جانے والوں کا کلیجہ چبا جاتی ہیں میں خوف سے کانپنے لگا تو داؤ جی نے میرے گلے کے گرد مفلر اچھی طرح لپیٹ کر کہا۔سامنے ان دو کیکروں کے درمیان اپنی پوری رفتار سے دس چکر لگاؤ، پھر لمبی سانسیں کھینچو اور چھوڑ دو، تب میرے پاس آؤ میں یہاں بیٹھتا ہوں میں تھبہ سے جان بچانے کیلئے سیدھا ان کیکروں کی طرف روانہ ہوگیا پہلے ایک بڑے سے ڈھیلے پر آرام کیا اور ساتھ ہی حساب لگایا کہ چھ چکروں کا وقت گزرچکا ہوگا، اس کے بعد آہستہ آہستہ اونٹ کی طرح کیکروں کے درمیان دوڑنے لگتے اور جب دس یعنی چار چکر پورے ہوگئے تو پھر اسی ڈھیلے پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں کھینچنے لگا، ایک تو درختوں پر عجیب و غریب قسم کے جانور بولنے لگے تھے، دوسرے میری پسلی میں بلا کا درد شروع ہوگیا تھا، یہ ہی مناسب سمجھا کہ تھبہ پر جاکر داؤ جی کو سوئے ہوئے اٹھاؤں اور گھر لے جاکر خوب خاطر کروں، غصے میں بھرا اور دہشت سے لرزتا میں ٹیلے کے پاس پہنچا، داؤ جی تھبہ کی ٹھکرویں پر گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیوانوں کی طرح سر مار رہے تھے اور اونچے اونچے اپنا محبوب شعرگا رہے تھے۔
جفا کم کن کہ فراد روز محشر
بہ پیش عاشقاں شر ماندہ باشی
کبھی دونوں ہتھیلیاں زور زور سے زمین پر مارتے اور سر اوپر اٹھا کر انگشت شہادت فضا میں یوں ہلاتے جیسے کوئی ان کے سامنے کھڑا ہو، اور اس سے کہہ رہے ہوں دیکھ لو، سوچ لو۔۔ میں تمہیں۔۔ میں تمہیں بتا رہا ہوں۔۔سنا رہا ہوں۔۔ ایک دھمکی دیتے جاتے تھے اور پھر تڑپ کر ٹھیکریوں پر یوں گرتے اور جفا کم کن کہتے ہوئے رونے سے لگتے، تھوڑی دیر میں ساکت اور جامد کھڑا رہا، داؤ جی ضرور اسم اعظم جانتے تھے، اور جن کو قابو میں کر رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک جن انکے سامنے کھڑا دیکھا تھا، بالکل الف لیلہ باتصویر والا جن، جب داؤ جی کا طلسم اس پر نہ چل سکا، تو اس نے انھیں نیچے گرالیا تھا، وہ چیخ رہتے تھے، جفا کم کم جفا کم کم مگر وہ چھوڑتا نھیں تھا، میں اسی ڈھیلے پر بیٹھ کر رونے لگا۔۔تھوڑی دیر بعد داؤ جی آئے، انھوں نے پہلے جیسا چہرہ بنا کر کہا، چل طنبورے اور میں ڈرتا ڈرتا ان کے پیچھے ہولیا۔ راستے میں انھوں نے گلے میں لٹکی ہوئی کھلی پگڑی کے دونوں کونے ہاتھ میں پکڑ لئے اور جھوم جھوم کر گانے لگے۔
تیرے لے لے دال خریدا ٹریا جا
اس جادوگر کے پیچھے چلتے ہوئے میں نے ان آنکھوں سے دیکھا کہ اس کا سر تبدیل ہوگیا، اسکی لمبی لمبی زلفیں کندھوں پر جھولنے لگیں، اور اسکا سارا وجود جٹا ھاری ہوگیا۔اسکے بعد چاہے کوئی میری بوٹی بوٹی اڑا دیتا میں اسکے ساتھ سیر کو ہرگز نہ جاتا۔
اس واقعہ کے چند ہی دن بعد کا قصہ ہے کہ ہمارے گھر میں مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اور اینٹوں کے ٹکڑے آکر گرنے لگے۔ بے بے نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بچوں والی کتیا کی طرح داؤ جی سے لپٹ گئی، سچ مچ ان سے لپٹ گئی اور انھیں دھکا دے کر زمین پر گرادیا، وہ چلا رہی تھی، بڈھے ٹوٹکی یہ سب تیرے منتر ہیں، یہ سب تیری فارسی ہے، تیرا کالا علم ہے، الٹا ہمارے سر پر آگیا، تیرے پریت میرے گھر میں اینٹیں پھینکتے ہیں۔اجاڑ مانگتے ہیں، موت چاہتے ہیں، پھر وہ زور زور سے چیخنے لگی، میں مر گئی، میں جل گئی، لوگو اس بڈھے نے میرے امی چند کی جان لینے کا بند کیا ہے مجھ پر جادو کیا،میرا انگ انگ توڑ دیا۔ امی چند تو داؤ جی کو اپنی زندگی سے بڑھ کر عزیز تھا، اور اسکی جان کی دشمن بھلا کیوں ہو سکتے تھے، لیکن جنوں کی خشت بازی انھیں کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ جب میں نے بھی بے بے کا ساتھ دیا داؤ جی نے زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے جھڑک کر کہا، تو احمق اور تیری بے بے ام الجاہلین۔ میری ایک سال کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ تو جنوں اور بھوتوں میں اعتقاد کرنے لگا، افسوس تو نے مجھے مایوس کیا۔اے والے کہ تو شعور کے بجائے عورتوں کے اعتقاد کا غلام نکلا، افسوس۔۔ صد افسوس، بے بے کو اسی طرح چلاتے اور داؤ جی کو یوں کراہتے چھوڑ کر میں اوپر کوٹھے پر دھوپ میں جا بیٹھا۔اسی دن شام میں جب میں اپنے گھر سے آرہا تھا، تو راستے میں رانو نے اپنے مخصوص انداز میں آنکھ کانی کر پوچھا، سنا ہے بابو ۔۔تیرے کوئی اینٹ ڈھیلا تو نھیں لگا؟ سنا ہے تمہارے پنڈت کے گھر میں روڑے گرتے ہیں؟میں نے اس کمینے کے منہ لگنا پسند نہ کیا اور چپ چاپ ڈیوڑھی میں داخل ہوگیا، رات کے وقت داؤ جی مجھ سے جیومیٹری کی پراپوزیشن سنتے ہوئے پوچھنے لگے، بیٹا کیا تم سچ مچ بھوت یا پری چڑیل کو کوئی مخلوق سمجھتے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، تو وہ ہنس پڑے اور بولے واقعی تو بہت بھولا ہے اور میں نے خواہ مخواہ جھڑک دیا، بھلا تو نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ جن ہوتے ہیں اور اس طرح سے اینٹیں پھینک سکتے ہیں، ہم نے جو دلی اور پھتے مزدور کو بلا کر برساتی بنوائی ہے وہ تیرے کسی جن کو کہہ کر بنوالیتے۔ لیکن یہ تو بتا کہ جن صرف اینٹیں پھیکنے کا کام ہی کرتے ہیں، میں نے جل کر کہا جتنے چاہے مذاق چاہو کر لو مگر جس دن سر پھٹے گا اس دن پتہ چلے گا۔داؤ جی نے کہا، تیرے جن کی پھینکی ہوئی اینٹ سے تو قیامت سر نھیں پھٹ سکتا اس لئے کہ نہ وہ ہے نہ اس سے اینٹ اٹھائی جاسکے، اور نہ میرے تیرے یا تیری بے بے کے سر میں لگے گی۔پھر بولے سُن علم کا موٹا اصول یہ ہے کہ کوئی مادی شے کسی غیر مادی وجود سے حرکت میں نھیں لائی جاسکتی ہے۔۔سمجھ گیا؟
ہمارے قصبے میں ہائی اسکول ضرور تھا لیکن میڑک کے امتحان کا سنٹر نہ تھا، امتحان دینے کیلئے ہمیں ضلع جانا ہوتا تھا چنانچہ وہ صبح آگئی ہماری جماعت امتحان دینے کیلئے ضلع جارھی تھی، اور لاری کے ارد گرد والدین کا ہجوم تھا، اور اس ہجوم سے داؤ جی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ اور داؤ جی سارے سال کی پڑھائی کا خلاصہ تیار کر کے جلدی جلدی سوال پوچھ رہے تھے،اور میرے ساتھ ساتھ خود ہی جواب دیتے جارہے تھے۔ اکبر کی اصلاحات سے اچھل کر موسم کے تغیر و تبدل پر پہنچ جاتے وہاں سے پلٹتے تو اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا کہ اپنی وضع سے ہندو معلوم ہوتا تھا، وہ نشہ میں چور تھا،ایک صاحب جمال اس کا ہاتھ پکڑ کر آئی، اور جدھر چاہتی تھی، پھراتی تھی، کہہ کر پوچھتے یہ کون تھا۔جہانگیر میں نے جواب دیا اور وہ عورت نورجہاں ہم دوونوں ایک ساتھ بولے۔۔صفت مشبہ اور اسم فاعل میں فرق؟
میں نے دونوں کی تعریفیں بیان کیں، بولے مثالیں؟ میں نے مثالیں دیں، سب لڑکے لاری میں بیٹھ گئے اور میں ان سے جان چھڑا کر جلدی سے داخل ہوا تو گھوم کر کھڑکی کے پاس آگئے۔اور پوچھنے لگے، بریک ان اور بریک ان ٹو کو فقروں میں استعمال کرو، انکا استعمال بھی ہوگیا، اور موٹر اسٹارٹ ہوچلی، تو اسکے ساتھ قدم اٹھاکر بولے، طنبورے مادیاں گھوڑی ماکیاں مرغی مادیاں گھوڑی ماکیاں مرغی ایک سال بعد خدا خدا کر کے یہ آواز دور ہوئی اور میں نے آزادی کا سانس لیا۔پہلے دن تاریخ کا پرچہ بہت اچھا ہوا دوسرے دن جغرافیہ کا اس بھی بڑ ھ کر، تیسرے دن اتوار تھا اور اسکے بعد حساب کی باری تھی، اتوار کی صبح کو داؤ جی کا کوئی بیس صفحے کا لمبا خط ملا، جس میں الجبرا کے فارمولوں اور حساب کے قاعدوں کے علاوہ اور کوئی بات نھیں تھی۔
حساب کا پرچہ کرنے کے بعد برآمدے میں میں نے لڑکوں سے جوابات ملائے تو سو میں سے اسی نمبرکا پرچہ ٹھیک تھا، میں خوشی سے پاگل ہوگیا، زمین پر پاؤں نہ پڑتا تھا، اور میرے منہ سے مسرت کے نعرے نکل رہے تھے، جوں ہی میں نے برآمد سے باہر پاؤں رکھا داؤ جی کھیس کندھے پر ڈالے ایک لڑکے کا پرچہ دیکھ رہے تھے، میں چیخ مار کر ان سے لپٹ گیا اور اسی نمبر کے نعرے لگانا شروع کر دئیے انھوں نے پر چہ میرے ہاتھ سے چھین کر تلخی سے پوچھا کون سا سوال غلط ہوگیا؟ میں نے جھوم کر کہہ چار دیواری والا جھلا کر بولے تونے کھڑکیاں اور دروازے منفی نہ کئے ہوں گے، میں نے ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیر کی طرف جھلاتے ہوئے کہا، ہاں جی ہاں جی گولی ماردو کھڑکیوں کو۔ داؤ جی ڈوبی ہوئی آواز میں بولے تونے مجھے برباد کردیا۔ طنبورے، سال کے تین سو پینسٹھ دن میں پکار پکار کر کہتا تھا ، سطحات کا سوال آنکھیں کھول کر حل کرنا، مگر تونے میری بات نہ مانی، تونے میری بات نہ مانی، بیس نمبرضائع کئے۔۔پورے بیس نمبر۔
اور داؤ جی کا چہرہ دیکھ کر میری اسی فی صد کامیابی بیس فی صد ناکامی کے نیچے یوں دب گئی گویا اس کو کوئی وجود ہی نھیں تھا، راستہ بھر وہ اپنے آپ سے کہتے رہے، اگر محتمن اچھے دل کا ہوا تو دو یا ایک نمبر ضرور دے گا، تیرا باقی حل تو ٹھیک ہے اس پرچے کے بعد امتحان کے آخری دن تک داؤ جی میرے ساتھ رہے، اور رات کے بارہ بجے تک مجھے اس سرائے میں بیٹھ کر پڑھاتے جہاں ہماری کلاس مقیم تھی، اور اسکے بعد بقول ان کے اپنے ایک دوست کے ہاں چلے جاتے۔ امتحان ختم ہوتے ہی میں نے داؤ جی کو یوں چھوڑا دیا گویا میری ان سے جان پہچان ہی نہ تھی۔ سارا دن میں دوستوں یاروں کے ساتھ گھومتا اور شام کو ناولیں پڑھا کرتا، اس دوران میں اگر کبھی فرصت ملتی تو داؤ جی کو سلام کرنے بھی چلا جاتا وہ اس بات مصر تھے، کہ میں ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ انکے ساتھ گزاراکروں، تاکہ وہ مجھے کالج کی پڑھائی کیلئے تیار کردیں۔ لیکن میں ان کے پھندے میں آنے والا نہ تھا مجھے کالج میں سو بار فیل ہونا گوارا تھا اور ہے لیکن داؤ جی سے پڑھنا منظور نہ تھا پڑھنے کو چھوڑئیے ان سے باتیں کرنا بھی مشکل تھا۔ میں نے کچھ پوچھا انھوں نے کہا اس کا فارسی میں ترجمہ کرو، میں نے کچھ جواب دیا، فرمایا اس کی ترکیب نحوی کرو، حوالداروں کی گائے اندر گھس آئی، میں اسے لکڑی سے باہر نکال رہاہوں، اور داؤ جی پوچھ رہے تھے،گائے ناؤن ہے یا ورب ہے اب میں عقل کا اندھا پانچویں جماعت تک پڑھا جانتا ہے کہ گائے اسم ہے، مگر داؤ جی فرمارہے تھے کہ اسم بھی ہے اور فعل بی، کامطلب ہے ڈرانا، دھمکی دینا، اور یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب میں امتحان سے فارغ ہوکر نتیجہ کا انتظار کر رہا تھا۔پھر ایک وہ دن بھی آیا جب ہم چند دوست شکار کھیلنے کیلئے نکلے تو میں نے ان سے درخواست کی کہ منصفی کے آگے سے نہ جائیں۔کیونکہ وہاں داؤ جی ہوں گے، اور مجھے روک کر شکار، بندوق اور کارتوس کے محاورے پوچھنے لگیں گے، بازار میں دکھائی دیتے تو میں کسی بغل گلی میں گھس جاتا، گھر پر رسماً ملنے جاتا تو بے بے سے زیادہ اور داؤ جی سے کم باتیں کرتا، اکثر کہا کرتے افسوس آفتاب کی طرح تو بھی ہمیں فراموش کر رہا ہے، میں شرارتاً خیلے خوب خیلے خوب کہہ کر ہنسا۔جس دن نتیجہ نکلا اور اباجی لڈوؤں کی چھوٹی سے ٹوکری لے کر ان کے گھر گئے، داؤ جی سر جھکائے اپنے حصیر میں بیٹھے تھے، اباجی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اندر سے کرسی اٹھا لائے اور اپنے بورئیے کے پاس ڈال کر بولے، ڈاکڑ صاحب آپ کے سامنے شرمندہ ہوں لیکن اسے بھی مقسوم کی خوبی سمجھئیے، میرا خیال تھا کہ اس کی فرسٹ ڈویثرن آجائے لیکن نہ آسکی، بنیاد کمزور تھی۔ایک ہی تو نمبر کم ہے، میں نے چمک کر بات کاٹی، اور وہ جب میری طرف دیکھ کر بولے، تو نھیں جانتا اس ایک نمبر سے میرا دل دونیم ہوگیا ہے، خیر میں اسے منجانب اللہ خیال کرتا ہوں۔پھر اباجی اورباتیں کرنے لگے اور میں بے بے کے ساتھ گپیں لڑانے میں مشغول ہوگیا۔
اول اول کالج سے میں داؤ جی کے خطوں کا باقاعدہ جواب دیتا رہا، اسکے بعد بے قاعدگی سے لکھنے لگا، اورآہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا، چھٹیوں میں جب گھر آتا تو جیسے اسکول کے دیگر ماسٹروں سے ملتا ویسے ہی داؤ جی کو بھی سلام کرتا، اب وہ مجھ سے سوال وغیرہ نہ پوچھتے تھے۔ کوٹ، پتلون اور ٹائی وغیرہ دیکھ کر بہت خوش تھے، چار پائی پر بیٹھنے نہ دیتے خود کرسی آتے اور میں کرسی کھینچ کر انکے پاس ڈٹ جاتا۔ کالج لائبریری سے میں جو کتابیں ساتھ لایا کرتا تھا انھیں دیکھنے کی تمنا ضرور کرتے اورمیرے وعدے کے باوجود اگلے دن خود ہمارے گھر آکر کتابیں دیکھ جاتے، امی چند بوجوہ کالج چھوڑ کر بینک میں ملازم ہوگیا تھا، وہ دلی چلا گیا، بے بے کی سلائی کا کام بدستور تھا، داؤ جی منصفی جاتے تھے، لیکن کچھ نہ لاتے تھے بی بی کے خط آتے تھے، وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی۔کالج کی ایک سال کی زندگی نے مجھے داؤ جی سے بہت دورکھینچ لیا۔ وہ لڑکیاں جو دو سال پہلے ہمارے ساتھ آپوٹایو کھیلا کرتی تھی، بنت عم بن گئیں، سیکنڈ ائیر زمانے کی ہر چھٹی میں آپو ٹاپو میں گزارنے کی کوشش کرتا، اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا ، گھر کی مختصر مسافت کے سامنے ایبٹ آباد کا طویل سفر زیادہ تسکین دہ اور سہانا بن گیا۔
ان ہی ایام میں میں نے پہلی مرتبہ ایک خوب صورت گلابی پیڈ اور ایسے ہی لفافوں کا ایک پیکٹ خریدا تھا اور ان پر نہ اباجی کو خط لکھے جاتے اور نہ ہی داؤ جی کو نہ ہی سہرے کی چھٹیوں میں داؤ جی سے ملاقات ہوسکی، نہ کرسمس کی تعطیلات میں ایسے ہی ایسٹر گزرگیا،اور یوں ہی ایام گزرتے رہے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ملک کو آزادی ملنے لگی تو کچھ بلوے ہوئے پھر لڑائیاں شروع ہوگئیں ہر طرف سے فسادات کی خبریں آنے لگیں، اور اماں نے ہم سب کو گھر بلوایا۔ ہماے لئے ایک جگہ بہت مخصوص تھی۔ بنیئے سا ہو کار گھر بار چھوڑکر بھاگ رہے تھے، لیکن دوسرے لوگ خاموش تھے، تھوڑے ہی دنوں بعد مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور وہ ہی لوگ یہ خبر لائے کہ آزادی مل گئی ہے، اک دن ہمارے قصبہ میں بھی چند گھروں میں آگ لگ گئی اور دونا کوں پر سخت لڑائی ہوئی ۔ تھانے والے اور ملٹری کے سپاھیوں نے کرفیو لگا دیا، اور جب کرفیو ختم ہوا تو سب ہندو سکھ قصبہ چھوڑکر چل دئیے۔ دوپہرکو اماں نے مجھے داؤ جی کی خبر لینے کو بھیجا تو اس جانی پہچانی گلی میں عجیب و غریب صورتیں نظر آئیں۔ہمارے گھر یعنی داؤ جی کے گھر کی ڈیوڑھی میں ایک بیل بندھا تھا اور اسکے پیچھے بوری کا پردہ لٹک رہا تھا میں نے گھر آکر بتایا کہ داؤ جی اپناگھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔اور یہ کہتے ہوئے میرا گلا رندھ گیا اور اس دن مجھے یوں لگا جیسے داؤ جی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلے گئے ہیں اور اب لوٹ کر نہ آئیں گے، داؤ جی ایسے بے وفا تو نہ تھے۔
کوئی تیسرے روز غروب آفتاب کے بہت بعد جب میں مسجد میں نئے پناہ گزینوں کے نام نوٹ کرکے کمبل بھجوانے کا وعدہ کرکے اس گلی سے گزرا تو کھلے میدان میں سو دو سو آدمیوں کی بھیڑ جمع تھی، مہاجر لڑکے لاٹھیاں پکڑے نعرے لگارہے تھے، اور گالیاں دے رہے تھے، میں نے تماشائیوں کو پھاڑ کر مرکز میں گھسنے کی کوشش کی مگر مہاجرین کی خونخوار آنکھیں دیکھ کر سہم گیا، ایک لڑکاکسی بزرگ سے کہہ رہا تھا۔ساتھ کے گاؤں میں گیا ہوا تھا، جب لوٹا تو اپنے گھر میں گھستا چلا گیا۔ کون سے گھر میں؟بزرگ نے پوچھا۔پھر کیا انھوں نے پکڑلیا، دیکھا تو ہندو نکلا۔اتنے میں بھیڑ میں سے کسی نے چلاکر کہا اوے رانو جلدی آوے جلدی آ۔۔۔تیری سامی۔۔۔پنڈت۔۔۔تیری سامی۔
رانو بکریوں کا ریوڑ باڑے کی طرف لے جارہا تھا، انھیں روک کر اور ایک لاٹھی والے لڑکے کو ان کے آگے کھڑا کر کے وہ بھیڑ میں گھس گیا، میرے دل کو ایک دھکا سا لگا، جیسے انھوں نے داؤ جی کو پکڑ لیا، میں نے ملزم کو دیکھے بغیر اپنے قریبی لوگوں سے کہا۔یہ بڑا اچھا آدمی ہے، بڑا نیک آدمی ہے۔اسے کچھ مت کہو۔ یہ توخون میں نہائی ہوئی چند آنکھوں نے میری طرف دیکھا اور ایک نوجوان گنڈاسی تول کر بولا۔ بتاؤں تجھے بھی۔ آگیا بڑا حمائتی بن کر۔تیرے ساتھ کچھ ہوا نھیں، اور لوگوں نے گالیاں بک کرکہا انصار ہوگا شاید۔میں ڈر کر دوسری جانب بھیڑ میں گھس گیا رانو کی قیادت میں اسکے دوست داؤ جی کو گھیرے کھڑے تھے، اور رانو داؤ جی کی ٹھوڑی پکڑ کر ہلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا اب بول بیٹا اب بول، اور داؤ جی خاموش کھڑے رہے، ایک لڑکے نے پگڑی اتار کر کہا پہلے بودی کاٹو بودی، اور رانو نے مسواکیں کاٹنے والی درانتی سے داؤ جی کی بودی کاٹ دی، وہی لڑکا پھر بولا بلادیں گے جی؟اور رانو نے کہا، جانے دو بڈھا ہے میرے ساتھ بکریاں چرائے گا، پھر اس نے داؤ جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، کلمہ پڑھ پنڈتا، اور داؤ جی آہستہ سے بولے۔کون سا؟رانو نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے گرتے بچے اور بولا سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں کیا۔جب کلمہ پڑھ چکے تو رانو نے اپنی لاٹھی ان کے ہاتھ میں تھما کر کہا۔چل بکریاں تیرا انتظار کر رہی ہیں۔اور ننگے سر داؤ جی بکریوں کے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے لمبے بالوں والا فرید چلا جا رہا ہو۔